• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زن ،زر ،زمین ہمیشہ سےہی بنائے فساد رہاہے اور روئے زمین پر پہلا قتل بھی ’’ٹرپل ز‘‘ کی وجہ سے ہوا تھا۔ حال ہی میںجائیدادکے تنازعہ پر بھینٹ چڑھنے والی خاتون، شہناز انصاری ایک عوامی شخصیت تھیں۔ دو مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والی شہناز انصاری زمانہ طالب علمی سے ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی وفادار کارکن تھیں اور انہوں نے آخری سانسوں تک اس سے اپنی وفاداری نبھائی لیکن پارٹی قائدین ان کی زندگی کو تحفظ نہیں دے سکے۔

اس اندوہ ناک واقعے کے سلسلے میں نمائندہ جنگ کے سامنے جو کہانی آئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ایم پی اے شہناز انصاری کی بہن شبانہ عرف بے بی کھوکھر کی شادی ڈاکٹر زاہد کھوکھر سے ہوئی تھی۔ڈاکٹر زاہد کھوکھر پانچ جنوری 2020ء کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کرگئے تھے ۔ مرحوم نے مرنے سے قبل اپنی کروڑوں روپے کی جائیداد اپنی بیوی شبانہ کھوکھرکے نام کردی تھی۔ شبانہ کے نام جائیداد کی منتقلی پر ڈاکٹر زاہد کھوکھر کے قریبی اعزاء ناخوش تھےجس کی وجہ سے جائیداد کی ملکیت کا تنازعہ گمبھیر صورت اختیار کرتا گیا۔ 

رکن صوبائی اسمبلی شہناز انصاری اس قضیئے میں اپنی ہمشیرہ شبانہ کھوکھر کو سپورٹ کررہی تھیں جس کی وجہ سے زاہد کھوکھر کے اعزاء کافی مشتعل تھے۔ ۔جب مرحوم ڈاکٹر زاہد کھوکھر کے چالیسویں کا دن قریب آیا تو ان کے بعض قریبی عزیزوں نے ایم پی اے شہناز انصاری کو پیغام بھجوایا کہ وہ ڈاکٹر زاہد کھوکھر کے چالیسویں میں شریک نہ ہوں۔ بتایا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ایم پی اے ممتاز چانڈیو نے بھی اس تنازعے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں ۔ 

شہناز انصاری جو کہ اپنی بہن کی کھل کر حمایت کرنے کی بنا ء پر ڈاکٹر زاہد کھوکھر مرحوم کے بھائی اور بھتیجوں کو اپنا دشمن بنا بیٹھی تھیں اور اب اپنی زندگی کے لیے خطرہ محسوس کررہی تھیں۔ انہوں نےاپنی جان کے تحفظ اور سکیورٹی کی فراہمی کے لیے نوشہروفیروز کے ایس ایس پی، ڈپٹی کمشنر کے علاوہ ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد ڈویژن اور کمشنر کو بھی درخواستیں ارسال کیں جس میں بتایا گیا کہ انہیں مرحوم زاہد کھوکھر کے بھائی اختر علی کھوکھرو دیگر بھائیوں اور بھتیجوں کی طرف سے اپنی جان کا خطرہ ہے، انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔

وقوعہ کے روز وہ اپنے بہنوئی ڈاکٹر زاہد کھوکھر کے چالیسویں کی فاتحہ میں شرکت کرنے کے لئے دریا خان مری کے قریب گاؤں علی مراد کھوکھرپہنچیں تاہم ان کی آمد کے ساتھ ہی مرحوم کے گھرمیں شورو غل برپا ہوگیا۔ اس شور کو سن کر مرحوم زاہد کھوکھر کے بھتیجے وقار کھوکھر نے چالیسویں کے پروگرام میں شریک درجنوں خواتین کے سامنے ایم پی اے ڈاکٹر شہناز انصاری کو مبینہ طور پر بالوں سے پکڑ کر گولیوں سے بھون ڈالا۔فائرنگ کے نتیجے میں ڈاکٹر شہناز انصاری شدید زخمی ہوئیں جنہیںشمائلہ انصاری کے بھائی الطاف راجپر اور بہن شبانہ فوری طور پر گاڑی میں ڈال کر اسپتال لےگئے لیکن وہ راستے میں دم توڑ چکی تھیں۔ 

پیپلز میڈیکل اسپتال کےٹراما سینٹر کے انچارج ڈاکٹر معظم بھٹی کے مطابق ایم پی اے شہناز انصاری راستے میں ہی فوت ہوچکی تھیں جبکہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق انہیں پیٹ اور بازو میں چھ گولیاں لگی تھیں ۔پیپلز میڈیکل یونی ورسٹی اسپتال کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سعیدہ بلوچ جنہوں نے دو دیگر لیڈی ڈاکٹروں شمائلہ رند اور ڈاکٹر مہناز اکرم کے ساتھ ایم پی اے شہناز انصاری کا پوسٹ مارٹم کیا تھا ، نمائندہ جنگ کو بتایا کہ ان کے پیٹ میں لگنے والی گولی مہلک ثابت ہوئی تھی جبکہ سینے میں لگنے والی گولی کے باعث ان کی موت واقع ہوئی ۔

ایم پی اےشبانہ انصاری کے قتل کا مقدمہ دریا خان مری پولیس اسٹیشن میں درج کرایا گیا جس میں مقتولہ کے بہنوئی ڈاکٹر زاہد کھوکھر مرحوم کے بھائی اختر کھوکھر ،وقار کھوکھر اور سلمیٰ سمیت یونین کونسل کے چیئر مین حاجی صدیق کو ملزمان نامزد کیا گیا ہے ۔یہ مقدمہ شہناز انصاری کے بھائی علی رضا کی مدعیت میں درج کرایا گیا جس میں 302/34,2114/506 اور 302/2 سمیت تھر ی اور فور کی دفعات شامل ہیں ۔ پولیس کے مطابق مرکزی ملزم کی بہن سمیت دس ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں پولیس کا کہنا ہے کہ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں ۔

اس سلسلے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شہناز انصاری کو سیکورٹی نہ دینے کے سلسلے میں پیپلز پارٹی نوشہروفیروز بھی سراپا احتجاج نظر آئی اور جوں ہی ایم پی اے شبانہ انصاری کے قتل کی خبر عام ہوئی پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے بائی پاس پر دھرنا دیا اور ملزمان کی گرفتاری کےمطالبات کے علاوہ پولیس کے خلاف بھی نعرے بازی کی جبکہ مقتولہ کے شوہر ڈاکٹر عبدالحمید انصاری نے میڈیا کو بتایا کہ میری بیوی شہناز انصاری کو بالوں سے پکڑ کر گولیاں ماری گئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مقتولہ کی جانب سے جان کے تحفظ کے لیے درخواست دینے کے باوجود حکومت اپنی ہی جماعت کی ایم پی اے کوتحفظ فراہم نہ کرسکی ۔

سکیورٹی کے حوالے سےڈی آئی جی شہید بینظیر آباد ڈویژن، مظہر نواز شیخ کا کہنا تھا کہ پولیس کو شہنازانصاری کی جانب سے تحفظ دینے کے بارے میں کوئی درخواست سرے سے موصول ہی نہیں ہوئی۔ اس واقعہ کے پس منظر میں یہ حقیقت ہے کہ شہناز انصاری کا اپنے بہنوئی کے بھائیوں کے ساتھ جائیداد کا تنازع کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی اور اس سلسلے میں انہوں نے اپنی قریبی دوست اور پیپلز پارٹی لیڈیز ونگ نواب شاہ کی رہنما قمر النساء دھامراہ کو ایک روز قبل ٹیلیفون پر اس سارے قضیئے سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ۔قمرالنساء دھامراہ نے شہناز انصاری کے قتل کو انسانیت سوز واقعہ قرار دیا۔

پیپلز پارٹی کےچیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور صوبائی وزراء کے ہمراہ نوشہروفیروز میں مقتولہ کے گھر جاکر ان کے شوہر ڈاکٹر عبدالحمید انصاری اور ان کے بچوں سے تعزیت کا اظہار کیا۔ ایم پی اے شہناز انصاری کے قتل پر سندھ حکومت ، بیورو کریسی اور پولیس کے بارے میں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں جن میں محکمہ پولیس اور حکومت کے مابین موجود اختلافات بھی شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی ممبر صوبائی اسمبلی کے قاتلوں کو گرفتار کرکےکیفر کردار تک پہنچانے میں حکومت اور انتظامیہ کیا کردار ادا کرتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین