• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سرفرازتبسُّم۔۔ لندن
گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک بحث کا آغاز ہوا،دراصل معروف افسانہ نگار صائمہ نفیس نے اپنی وال پر ایک فقرہ لکھا‘‘کیا سفرنامہ صنف ادب ہے؟’’تو اس پر 125کے قریب لوگوں نے اپنی رائے دی، جن میں سے چند معروف رائٹرز کی رائے کو محفوظ کرکے ایک کالم کی شکل دی گئی ہے، ویسے ابھی اس سروے پر کام جاری ہے اور آنے والے دنوں میں سفرنامہ کی صنف پر جاری بحث کے سلسلے میں محترمہ صائمہ نفیس ایک ادبی مذاکرہ پروفیسر سحر انصاری کی صدارت میں منعقد کروانے والی ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے جس طرح گذرتے وقت کے ساتھ انسانی زندگی کی ہر چیز تغیرات سے ہوکر گذرتی ہے وقت کے ساتھ ہمیں بھی ان عوامل سے گذرنا چاہیے تاکہ نئے رجحانات پیدا ہوسکیں، اسی سلسلے میں انہوں نے اس موضوع پر کام شروع کیا ہے۔صائمہ نفیس جی شکریہ آپ نے ایک عمدہ بحث کا آغاز کیا جب میں اپنی آنے والی چوتھی کتاب (یورپ کے روزوشب) جو ایک سفرنامہ کی صورت میری زندگی کی روداد ہے اور بین ہی ایک بحث کا آغاز کردیا.میں نے تمام دوستوں کے خیالات و رائے دیکھی اچھا لگا میرے علم میں اضافہ بھی ہوا، کئی نئی باتیں سامنے آئیں، تو میری ناقص رائے میں کیا سفرنامہ صنف ادب ہے؟ جاننے سے پہلے ہمیں ادب کی تعریف واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ادب (Literature) عربی زبان کا لفظ ہے اور مختلف النوع مفہوم کا حامل ہے۔ ظہور اسلام سے قبل عربی زبان میں ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا، بعد میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔ جو مہمان داری میں شائستہ ہوگا وہ عام زندگی میں بھی شائستہ ہوگا، اس سے ادب کے لفظ میں شائستگی بھی آگئی۔ اس میں خوش بیانی بھی شامل ہے۔ اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلٰی ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ، گداز، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں۔ بنو امیہ کے زمانے میں بصرے اور کوفے میں زبان کے سرمایہ تحریر کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں گرامر اور صرف ونحو کی کتب لکھی گئیں تاکہ ادب میں صحت، اندازبیان قائم رہے۔ جدید دور میں ادب کے معنی مخصوص قرار دیے گئے۔ ادب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تخیل اور جذبات ہوں ورنہ ہر تحریری کارنامہ ادب کہلا سکتا ہے۔خواہش تخلیق انسان کی فطرت ہے۔ اسی جبلی خواہش سے آرٹ پیدا ہوتا ہے۔ آرٹ اور دوسرے علوم میں یہی فرق ہے کہ اس میں کوئی مادی نفع مقصد نہیں ہوتا، یہ بے غرض مسرت ہے۔ ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے فن لطیف بھی کہہ سکتے ہیں۔ میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔ کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے ۔ نارمن جودک کہتا ہے کہ ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔لہذا اگر ادب کی یہ ہی تعریف ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ سفر نامہ ادب کا حصہ نہ ہو۔کیا سفر نامہ صنف ادب ہے؟معروف شاعر مقصود وفا کہتے ہیں دل پر گزری ہوئی ہر چیز صنفِ ادب ہے۔ معروف دانشور دنیائے ادب کے مدیراعلیٰ اوجِ کمال کہتے ہیں،سفر نامہ صنف ادب نہیں ہے خواہ کوئی واقعی سفر نامہ لکھ رہا ہو یا کوئی محض بھابی کے ہاتھ کے نرگسی کوفتوں کی تعریف میں انگلیاں چاٹ رہا ہوں۔ کوئی محض لفٹ لے کر شہر در شہر گھوم رہا ہو یا کوئی بھائی صاحب کی لیموزین کے قصیدے بیان کرتے ہوئے سفر کر رہا ہو، جب تک صنف ادب شعور کی بیداری کا کام نہ کرے صنف ادب نہیں ہے اور سفر نامہ نگار پورے شعور کے ساتھ سفر کر رہا ہوتا ہے، قاری کے بیداری شعور میں فرق تک نہیں آنے دیتا۔شائستہ مفتی فرخ نے کہاکہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر مستنصر حسین تارڑ کی کئی معرکتہ الآرا کتب سفر نامے ہی ہیں۔ میں نے ان کی پہلی کتاب‘‘ نکلے تیری تلاش میں‘‘ اسکول کے زمانے میں پڑھی تھی۔ اس کے بعد سے ان کی کوئی کتاب نہیں چھوڑی۔ اب تک میں ان کی فین ہوں۔راجہ مبشر نے کہا، سر میرا بھی یہی سوال ہے اگر سفر نامہ شعور کی بیداری اور ذہنی ارتقا میں معاون ہو تو کیا تب بھی اس سفر نامے کو ادب کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا؟رضوانہ سیدعلی،محمد حسین آزاد کا سفر نامہ فارس اور شبلی کا منظوم سفر نامہ روم و مصر ادب عالیہ میں شمار ہوتے ہیں۔باسط خٹک نے تائید کرتے ہوئے کہاجی بالکل ہےسفر نامہ وہ بیانیہ ہے جسے مسافر سفر کے دوران یا منزل پر پہنچ کر اپنے تجربات اور مشاہدات کی مدد سے تحریر کا جامہ پہناتا ہے اور اپنی گزری ہوئی کیفیات سے دوسروں کو واقف کراتا ہے۔ راہ میں پیش آنے والے اپنے تحیّر، استعجاب اور اضطراب کو اس طرح سے قلم بند کرتا ہے کہ پڑھنے والے کے سامنے نہ صرف پوری تصویر آجاتی ہے بلکہ اس مقام سے متعلق تمام معلومات مع تفصیل اس کے علم اور آگہی میں اضافہ کر دیتے ہیں،یوں یہ باقاعدہ تخلیق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔سوال یہ ہے کہ سفر نامہ کو کن بنیادوں پر صنف ادب کا درجہ نہیں مل سکتا۔کوئی بھی صنف تحریر اپنے اسلوب تحریر سے ادب پارہ بنتی ہے اگر کسی سفر نامے کے انداز بیان میں چاشنی اور ادبیت ہے تو اسے ضرور ادب میں شامل ہونا چاہئے۔اقبال طارق نے کہاکہ وارداتِ قلب وجاں ہی سفرنامہ اوریہی شاعری یہی نظم یہی نثرہے تو پھراسے ادب سے کیسے نکال سکتے ہیں؟ سفرنامہ بھی مشاہدہ ہی ہے۔عرفان شہود کہتے ہیں سو فیصد ہے اگر احساسات اور تغیراتی کیفیات کا امتزاج ہو، کہانی ہو،شاہد اشرف کہتے ہیں۔کچھ نقاد سفر نامے کو ادبی صنف کا درجہ نہیں دیتے ہیں یہ تحریر پر منحصر ہے کہ لکھا کیسے گیا ہے۔ جیسے کالم ادبی صنف نہیں ہے مگر بعض کالم ادب پارہ ہوتے ہیں،صفدر صدیق رضا نے کہا کہ یوں تو ناول بھی صنفِ ادب نہیں رہتا اگر اس میں ادبی لوازمات نہ ہوں۔، صابر علی صابر نے کہاکہ اگر کوئی ادیب لکھے تو ضرور ہے جی،محمد اشرف کہتے ہیں سفر نامے میں ادبی تقاضے کم مُیَّسر آتے ہیں،شاید میں غلط ہوں، بس اپنے مشاہدے کا ذکر کیا میں نے، بطور رائے،ادریس غازی نے کہا سفرنامہ ادب کی صنف نہیں ہو سکتا، لٹریچر یا ادب کی بنیاد تخلیقی خیال سے نمو پاتی ہے،سفرنامہ صحافتی صنف ہے ادبی نہیں۔Literature is quite a different genre than Journalism.
بشیر مرادکہتے ہیں میرا خیال ہے کہ اگر سفر نامہ محض آمد و رفت کی روداد ہے تو اسے تخلیقی ادب میں شمار نہیں کرنا چاہیے لیکن کئی سفر نامے اپنے تخلیقی اسلوب اور موضوعات کے تنوع کے باعث تخلیقی ادب کے زمر ے میں آتے ہیں۔حال ہی میں میر ی مزاح کی دوسری کتاب سفرنامہ ’’صفر نامہ‘‘ کے عنوان سے منظر عام پہ آئی ہے جسے ناقدین ادب نے کمال مہربانی سے تخلیقی ادب کی زیل میں اضافہ قرار دیا ہے۔،مشتاق احمد نوری ،بالکل ہے سوانح لکھنا اگر ادب ہے تو یہ بھی ادب ہے شرط ہے کہ ادب کے دائرے سے باہر نہ ہو۔،اقبال ناظرہمارے خیال میں سفر نامہ ادبی صنف ہے کیونکہ اس کے لکھنے میں مصنف کا اسلوب اور تخیل آفرینی شامل ہوتی ہے۔،اظہر ناظر نے کہا،سفر نامے کے معیار اور لمبی لمبی چھوڑنے کی بنا پر کسی افسانے کو ادب سے خارج تو کیا جا سکتا ہے مگر کتھارسس کے اُصُول سے یہ بھی ادب ہی ہے، اس سے اختلاف رکھنے والوں کو ادب کی کوئی تسلیم شُدہ تعریف کا حوالہ دے کر اسے ادب سے خارج کرنا ہو گا۔رفعت الوی نے کہا،سفر نامے اگر ادب کا حصہ نہیں تو ان کو اردو صنف کی کس کیٹیگری میں رکھا جاسکتا ہے۔جس طرح کوئی ناول یا افسانہ اچھے ہوسکتے ہیں یا برے بلکہ بہت برے بھی اسی طرح سفر نامے بھی اچھے برے ہو سکتے ہیں۔افسانہ فینٹاسی ہے جبکہ سفر نامہ مشاہدہ ہے جو حقیقت سے بہت قریب بھی ہوسکتا ہے اور بہت دور بھی۔ناصر منگل،پہلے تو آپ یہ واضح کریں کہ ادب سے آپ کیا مراد لے رہی ہیں؟اس کے بعد ہی میں کچھ عرض کرسکونگا،ادب کو عمومًا دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے تخلیقی ادب،غیر تخلیقی ادب، ہم جب ادب کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو عموماً تخلیقی ادب ہی ہمارے پیش نظر ہوتا ہے،اس ادب میں سفر نامہ بالکل بھی شمار نہیں کیا جاتا،اس میں شاعری،داستان،ناول اور افسانےشامل ہیں۔اس کے علاوہ جو کچھ ہے اسے تخلیقی ادب نہیں کہا جاتا یعنی ادب شمار نہی کیا جاتا۔لہٰذا مکتوب نگاری،سفرنامہ،صحافت وغیرہ قطعًا ادب میں شمار نہیں کیے جاتے،کبھی وضاحت کردونگا تخلیقی ادب کا مفہوم کیا ہے۔عابد خان نے کہا یہ صرف میری رائے ہے سفرنامہ لکھنے کیلئے کوئی حدود نہیں ہوتیں صرف اور صرف دوسرے ملک یا کسی ایریا کی تعریف کی جاتی ہے-زیب لاسی نے کہاسفر نامہ،خطوط کی طرح اپنے اسلوب کی بنا پر نان فکشنل ادبی صنف ہے۔،اقبال عباسی نے کہا سفرنامہ ابھی تک تو ادب کی صنف قرار نہیں پائی یہ ایک مضمون ہی ہوتا ہے ۔احمد رضاراجہ نے کہاسفر نامے کو ادب پارہ بنانا تو رائٹر کا کام ہے، جس میں کم ہی لوگ کامیاب ہوئے۔ اکثر نے تو کوشش ہی نہیں کی کہ سفر نامہ کو ادبی چاشنی سے لبریز کریں۔ڈاکٹر ریاض احمد صمدانی نے کہاکہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ادب کا کینوس بہت وسیع ہے، ادب تخلیق کرنے والوں نے سفر نامے بھی تخلیق کیے، سفر نامہ ادب کی صنف میں آتا ہے۔ مذید معلومات کے لیے ڈاکٹر محمد عمررضا کی کتاب اردو میں سوانحی ادب اور ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی کتابوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔احمد اقبال نے کہاسفر نامہ کبھی ادب کی صنف شمار نہیں کیا گیا کیونکہ یہ رپورٹنگ ہے آپ جو دیکھتے ہیں وہی لکھتے ہیں اس میں تخلیقی عمل شامل نہیں۔ ایسا ہوتا تو البیرونی سیاح نہیں ادیب شمار ہوتا،سفرنامہ نامے کی ایک قسم رپور تاژ تھی جو کسی ایک مقام یا واقعہ کی تاثراتی رپورٹ ہے۔ ،کوہ دماوند ʼ میں قرۃالعین حیدر نے ایران کے شہنشاہ کے مہمان کی حیثیت سے جشن تاجپوشی میں شرکت کی روداد لکھی۔ستمبر کا چاند میں ٹوکیو کی عالمی ادیبوں کی کانفرنس کا احوال لکھا۔رضا صدیقی نے کہا سفرنامہ ادب کی ایک صنف ہے جس میں بیرونی ادب، تلاش بینی ادب، مہم جوئیانہ ادب یا قدرتی لکھائی اور رہنما کتب اور دوسرے ملکوں کے دورے شامل ہیں۔سفر، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مسافت کرنا کے ہیں۔ اس کو لکھنے کا مقصد قارئین کو اپنے تجربات و واقعات سے آگہی دینا، عام انسان کے اندر دیار غیر کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا کرنا اور سفر کی داستان سنانا۔اس صنف کی ذیلی اقسام روزنامچہ وغیرہ کی تاریخ دوسری صدی تک جاتی ہے۔ڈاکٹر سید عبد اللہ ’دیکھ لے ایران‘ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ’’سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی، آپ بیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی‘ سفر نامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ فنی طور پر سفرنامہ بیانیہ ہے جو سفرنامہ نگار سفر کے دوران میں یا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کیفیات اور اکثر اوقات قلبی واردات سے مرتب کرتا ہے- اردو کے کچھ مشہور سفر نامے یہ ہیں۔ سات سمندر پار، لبیک (سفر نامہ)، نظرنامہ، کسریٰ کی ہوائیں، اندلس میں اجنبی ہیں۔،احمد اقبال نے کہاکبھی کسی سفر نامے کو نوبل ادب انعام کیٹگری کیلئے رکھا گیا؟۔،رجا صدیقی نے کہا نوبل پرائز کیلئے نامزد نا ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ادب میں شامل نہیں،ادب کی بہت سی اصناف ہیں جو نامزد نہیں کی جاتی۔،مظہر شہزاد خان نے کہاکہ سفر نامہ تو بس سفری روداد ہے،ہاں سیاحت نامہ ادبی صنف ہے جیسے اختر ممونکا کا سیاحت نامہ،ریاض رومانی نے کہاکہ صنف کے بارے میں کہنا کچھ مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ یہ ادب ہی ہے،سعیدریاض علی نے کہااس صنف میں ادب کی تمام اصناف کو یکجا کردیا جاتا ہے،اس میں کہانی بھی ہوتی ہے، ڈرامہ بھی، مناظر بھی تو اشعار بھی، تماشہ، مناظر کی تصویر کشی تو کہیں افسانہ۔یہ صنف صدیوں سے چلی آرہی ہے۔،عامرسہیل نے کہاصنف کی ایسی کون سی منطقی تعریف ہے جس کے تحت سفر نامہ صنف قرار نہیں پاتا۔ایک طویل عرصے سے دنیائے ادب میں سفر نامہ نگاری کو بطور صنف تسلیم کیا جا رہا ہے۔اس کی صنفی حیثیت تو طے شدہ ہے البتہ یہ بحث اٹھائی جاسکتی ہے کہ کون سی تحریر سفر نامہ بن سکی ہے اور کون سی نہیں ۔،شائستہ مفتی فرخ نے کہا میری ناچیز رائے کے مطابق یہ بات بہت اہم ہے کہ سفر نامہ لکھ کون رہا ہے۔ اگر کوئی ایسا لکھاری لکھ رہا ہے جس کا قلم صرف بہترین ادب تخلیق کرنے کا اہل ہے تو وہ جو کچھ بھی لکھے گا بہترین ہوگا۔ اگر کوئی عام شخص لکھ رہا ہے تو وہ روداد کے علاوہ کچھ نہیں۔۔،عامرسہیل نے کہاآپ کی رائے میں موضوعیت کا پہلو غالب ہے۔سفر نامے کا معاملہ بھی ادب کی باقی اصناف جیسا ہے یعنی ہونے نہ ہونے کا فیصلہ ہیئت پر ہے۔جس طرح ایک کمزور ترین غزل بھی ہئیت کے اعتبار سے غزل ہوتی ہے بالکل اسی طرح کمزور ترین سفر نامہ بھی اپنے صنفی مرتبے پر فائز ہو سکتا ہے۔یہ صرف ایک رائے ہے آپ کو اختلاف کا حق ہے۔،باسط خٹک نے کہامیرے خیال میں بھی سفرنامہ کو ہیئت کے اعتبار سے اصناف ادب سے نہیں نکالا جا سکتا البتہ کون سا سفرنامہ محض رودادِ سفر ہے یہ لکھنے والے کی تخلیقی صلاحیت کی کمزوری کی غمازی کرتا ہے۔ اور اس بنیاد پر سفرنامہ کو صنف ہی نہ قرار دینا بے ادبی ہی شمار ہوگی،شیخ اسماعیل اعظم نے کہانہیں،یہ سفر کی روداد ہے تخلیق نہیں، یشیب تمنا نے کہاکیا سفر کی روداد کو تخلیقی انداز میں تحریر نہیں کیا جا سکتا؟ کہانی بھی تو رو داد ہی ہوتی ہے۔۔،عماد عالم نے کہاسفر نامہ اور خودنوشت ادب کی صنف نہیں ہیں مگر مستنصر حسین تارڑ نے سفر ناموں کو ایک نہیں جہد دی ہے ان کے سفر ناموں کی کتب کی ریکارڈ فروخت اس بات کی دلیل ہے۔ جس طرح خطوطِ غالب کو ادب کے ایک کونے میں جگہ دی گئی ہے اسی طرح اچھے سفر ناموں اور آپ بیتیوں کو ادب میں ناولز کی طرح جگہ دے دینی چاہیے۔،جاوید انصاری نے کہاہر سفر نامہ ادبی صنف نہیں ہوسکتا، البتہ طریقہ سے پیش کیا گیا سفر ایک تخلیقی حیثیت کا حامل ہے،،۔شاکور پٹھان نے کہاعلامتی افسانے، آزاد نظم قسم کی چیزیں ادب میں شمار ہوسکتی ہیں تو ابن انشاء، محمد حسین آزاد، شبلی، کرنل محمد خان،مستنصر حسین تارڑ کے ادبی چاشنی سے پر سفرنامے ادب میں کیوں نہیں شمار ہوسکتے۔ضمیر طالب نے کہاہر وہ بات،وہ سطر،وہ پیراگراف،وہ تحریر،جس میں زندہ رہنے اور آگے سفر کرنے کی قوت موجود ہو وہ ادب ہے۔ادب کے نام پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ سب کا سب ادب کہاں ہوتا ہے۔صنف کوئی بھی ہو حتیʼ کہ شاعری میں بھی زندگی ہے تو ادب ہے ورنہ راکھ۔،میرحسین علی نے کہاسفر نامہ ادب کی صنف ہے دیگر ممالک اور ادب میں بھی ابن بطوطہ، سند باد گلیور مارکوپو ،رجب علی بیگ سرور کی فسانہ عجائب وغیرہ... اردو ادبیات مین یوسف کمبل پوش، سرسید، شبلی نعمانی، بہادر یار جنگ کے سفرنامے حالیہ دور میں قمر علی عباسی مستنصر تارڑ کے سفرنامے اہمیت کے حامل ہیں سفرنامے پر مقالات لکھے گئے، ڈاکٹریٹ کی گئی کیا سب ادب ہے۔، مسعودالرحمان،سفرنامہ ہمیشہ سے ادب کی صنف ہے، اس قسم کا سوال ہی بچگانہ ہے۔سیدانور فراز نے کہاادب کی تعریف کے لیے بھی 20 ویں صدی اور موجودہ صدی کے جدید رجحانات کو مد نظر رکھنا ہوگا۔جبکہ افضال بیلا نے فرمایااگر کوئی سفرنامہ اطلاعاتی اور صحافتی انداز میں لکھا گیا ہو,تو اخبار, یا معلوماتی تحریر,لیکن اگر سفرنامے میں سفر کے دوران نظر آنے والے مناظر,پیش آنے والے واقعات,حادثات اور مشاہدات کو,نیز وہاں کی سماجی زندگی اور رہنے والوں کی سوچ,احساسات ثقافتی پس منظر و پیش منظر کو ادبی رنگ میں قلم بند کیا گیا ہو تو وہ سفر نامہ ادب پارہ بھی۔ آخر میں راقم الحروف نے اپنی رائے دی کہ سفرنامہ ادب کی ایک صنف ہے، جس میں بیرونی ادب، تلاش بینی ادب، مہم جوئیانہ ادب یا قدرتی لکھائی اور رہنما کتب اور دوسرے ملکوں کے دورے شامل ہیں۔سفر عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی مسافت کے ہیں۔ اس کو لکھنے کا مقصد قارئین کو اپنے تجربات و واقعات سے آگہی دینا، عام انسان کے اندر دیار غیر کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا کرنا اور سفر کی داستان سنانا۔اس صنف کی ذیلی اقسام روزنامچہ وغیرہ کی تاریخ دوسری صدی تک جاتی ہے۔ڈاکٹر سید عبد اللہ دیکھ لے ایران کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ’’سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے۔اس میں داستان کا داستانوی طرز، ناول کی فسانہ طرازی، ڈرامے کی منظر کشی، آبیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف اور پھر سفر کرنے والا جزو تماشا ہو کر اپنے تاثرات کو اس طرح کہ اس کی تحریر پر لطف بھی ہو اور معاملہ افزا بھی‘‘سفر نامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ فنی طور پر سفرنامہ بیانیہ ہے جو سفرنامہ نگار سفر کے دوران میں یا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کیفیات اور اکثر اوقات قلبی واردات سے مرتب کرتا ہے- اردو کے کچھ مشہور سفر نامے یہ ہیں۔ سات سمندر پار، لبیک (سفر نامہ)، نظرنامہ، کسریٰ کی ہوائیں، اندلس میں اجنبی ہیں۔
تازہ ترین