جنرل مشرف اپنے اعلان کے مطابق نگراں حکومت کے قیام کے بعد اگر وطن واپس آگئے تو انہیں کس صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا…یہ ایک دلچسپ اور قابل غور سوال ہے۔ جنرل مشرف کے آٹھ سالہ دور حکومت میں کچھ اچھے کام بھی ہوئے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں ان کے منفی اقدامات بے پناہ ہیں جن کی بنا پر وہ قوم کی نفرت کا ہدف بن کر ملک سے رخصت ہو جانے پر مجبور ہوئے۔ اب ان کی واپسی کی صورت میں لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، حتمی طور پر تو اس کا پتہ ان کے وطن آنے ہی پر چلے گا لیکن اس کا کچھ اندازہ بہرحال لگایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے ان کے دونوں قسم کے کارناموں پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ اچھے کاموں میں سے ایک تعلیم کے فروغ کے لئے ان کی کوششیں ہیں، انہوں نے اس مقصد کے لئے تعلیم کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا۔ اس شعبے کی اصلاح و ترقی کے لئے ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے لائق، انتھک اور مخلص شخص کا انتخاب کیا جن کی کاوشوں کے نہایت حوصلہ افزاء نتائج سامنے آئے۔ اسی طرح مشرف دور میں عوام کو اپنے روزمرہ مسائل کے حل کے لئے ضلعی حکومتوں کے نظام کے ذریعے بااختیار بنایا گیا۔ یہ نظام عموماً بہت کامیاب رہا جس کی سب سے روشن مثال کراچی ہے تاہم جہاں تک جنرل مشرف کے دور میں معاشی ترقی وغیرہ کے دعوؤں کا تعلق ہے تو ان میں کچھ زیادہ وزن نہیں۔ حقیقی معاشی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں نئی صنعتیں اور نئے کارخانے لگیں، اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو اور خوشحالی نچلی سطح تک نظر آئے لیکن مشرف دور کی معاشی ترقی ان لوازمات سے عاری تھی۔ اس ترقی کا اصل سبب یہ تھا کہ نائن الیون کے بعد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی رقوم میں بوجوہ کئی گنا اضافہ ہو گیا، زرمبادلہ کے ذخائر بھی اسی نسبت سے بڑھ گئے، فاضل پیسہ اسٹاک ایکسچینج اور زمین جائیداد کے کاروبار میں لگا۔ اس کے نتیجے میں اسٹاک ایکسچینج بھی غیر معمولی طور پر اوپر چلا گیا اور زمینوں کی قیمتیں بھی بہت بڑھ گئیں۔ اس طرح جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں تو بڑا اضافہ نظر آیا مگر اس ترقی کے ثمرات چند افراد ہی تک محدود رہے۔
اب جہاں تک جنرل مشرف کے خالص منفی کاموں کا تعلق ہے تو ”سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے“۔ 12/اکتوبر1999ء کو آئین شکنی کا ارتکاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ انہوں نے بظاہر صرف اس لئے الٹا کیونکہ منتخب وزیراعظم نے انہیں فوج کی سربراہی سے ہٹانے کی جرأت کی تھی۔ جنرل مشرف کی برطرفی کے پیچھے ان کا کارگل کا ایڈونچر تھا۔ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل مشرف نے کارگل کی ناکامی کا ذمہ دار اڈیالہ جیل میں محبوس نواز شریف کو ٹھہرایا لیکن نواز شریف کی جانب سے کارگل پر تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے مطالبے کو اپنے آٹھ سالہ اقتدار میں پورا کرنے کی انہیں کبھی ہمت نہیں ہوئی۔ نائن الیون کے بعد وائٹ ہاوٴس سے آنے والی ایک ٹیلی فون کال پر افغانستان کے خلاف بے جواز جارحیت میں واشنگٹن سے تعاون کرنے لگے۔ ان کی اس بزدلی پر خود اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے تمسخر کے انداز میں کہا کہ میرا خیال تھا کہ مشرف ہمارے سات مطالبات میں سے زیادہ سے زیادہ تین یا چار مانیں گے مگر انہوں نے تو ساتوں مان لئے۔ جنرل مشرف کے اس فیصلے کے نتائج پاکستانی قوم بارہ سال سے بدامنی، خونریزی، دہشت گردی ، معاشی بدحالی، سماجی افراتفری اور ڈرون حملوں کی شکل میں بھگت رہی ہے۔ بلوچستان میں بغاوت کی آگ بھڑکانے کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ ان کی حکومت کی پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان کے مسئلے کو بات چیت سے حل کرنے کی سفارش کی تھی لیکن جنرل مشرف نے بلوچستان میں طاقت کا استعمال کیا ، حتیٰ کہ محب وطن بلوچ رہنما سردار اکبر بگٹی کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کراکے پورے صوبے کو آگ اور خون کے سمندر میں جھونک دیا۔ عدلیہ کو اپنا تابع فرمان بنانے کے لئے جنرل مشرف نے جو کچھ کیا اگر پوری قوم اس کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہوئی ہوتی تو آج پاکستان دنیا کی بدترین آمریت کا شکار ہوتا۔ این آر او کی شکل میں انہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جو کھیل کھیلا اس کے نتیجے میں ملک کے تمام وسائل لٹیروں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ ان کے خلاف آئین پاکستان کو توڑنے، ہزاروں پاکستانی شہریوں کو اغوا کرکے کسی قانونی اور عدالتی کارروائی کے بغیر قتل کرادینے یا دختر اسلام و پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت امریکہ کی خفیہ ایجنسی کے ہاتھ لاکھوں ڈالروں کے بدلے فروخت کر دینے اور اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو جیسی ممتاز شخصیات کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور اُن کی گرفتاری کے وارنٹ موجود ہیں۔ ان کے منفی کارناموں کی جو ایک ادھوری فہرست اوپر پیش کی گئی اس کی بنیاد پر ان کے خلاف مزید متعدد مقدمات قائم ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں اب عدلیہ آزاد ہے اور اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ کسی مصلحت یا مجبوری کی بنا پر ان مقدمات میں انہیں قانون کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی قسم کی رعایت دی جائے گی۔ انہوں نے خود بھی کہا ہے کہ وہ مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اور اگر وہ گناہ گار ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہئے۔ ان کا یہ جذبہ یقینا قابل تعریف ہے۔ اگر ان کی آمد پر قانون کے تقاضوں کے مطابق ان کے خلاف قائم تمام مقدمات پوری سنجیدگی سے چلائے گئے، تو اس عمل کے نتیجے میں ان پر کوئی الزام ثابت ہو اور وہ سزا پائیں یا بے لاگ عدالتی کارروائی کے بعد مکمل طور پر بے قصور ٹھہریں، دونوں صورتوں میں یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ ہوگا۔ اعلیٰ ترین مناصب پر فائز رہنے والوں کے بامعنی احتساب کی روایت قائم ہوگی، اس کے بعد یہ عمل آگے بڑھے گا اور پورے نظام کی اطمینان بخش طور پر تطہیر کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس لئے ان کی وطن واپسی کے راستے میں کسی بھی جانب سے کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جانی چاہئے۔