اس نے جو فرمایا، وہ سب قوم کا سرمایا۔ وہ نہایت سادہ آدمی ہے اور میں بھی اپنے ایک کالم میں ’’گود ہے‘‘ کی سادگی کا اعتراف کر چکا ہوں۔ میری دانست میں دو اشخاص کی سادگی مسلمہ ہے، ایک جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور دوسرا ہم سب کا ’’گودہا‘‘۔
بلاتمہید اور بلا کم و کاست بیان کیے دیتا ہوں کہ ’’گود ہے‘‘ نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔ کہتے ہیں ’’اورنج لائن ٹرین کا قرض واپس کرنے کے لیے اربوں روپے سالانہ دینا پڑیں گے اور اگر 60روپے کا ٹکٹ بھی رکھیں تو صرف ٹرین کو چلانے (O and M) کیلئے 10ارب روپے سالانہ سبسڈی دینا پڑے گی۔ کیا ہم اس رقم سے اسپتال و اسکول چلائیں یا یہ سبسڈی دیں؟ کابینہ نے فیصلہ اسمبلی میں بھیجا ہے تاکہ عوامی نمائندوں کا فیصلہ آئے‘‘۔
واضح رہے کہ لاہور کے اورنج لائن پروجیکٹ سے متعلق بات ہو رہی ہے جس کا 96فیصد کام انتخابات سے قبل 2018ء میں مکمل ہو چکا تھا مگر شاید یہاں بھی بی آرٹی پشاور والے انجینئر بلوا لیے گئے، اس لئے دو سال میں باقی 4فیصد کام مکمل نہیں ہو سکا۔
مجھے یقین ہے کہ یہ کسی بابو کے الفاظ ہیں اور خواہ مخواہ ’’گود ہے‘‘ سے منسوب کر دیے گئے ہیں ورنہ ’’گود ہا‘‘ آپریشن اینڈ مینٹیننس جیسے گاڑھے الفاظ کیسے استعمال کر سکتا ہے۔
اورنج ٹرین منصوبہ واقعی گھاٹے کا سودا ہے۔ اب جبکہ ملک کو اقتصادی کساد بازاری کا سامنا ہے اور ٹیکسوں کی شرح بڑھائے جانے کے باوجود آمدنی کے ذرائع گھٹ رہے ہیں اس طرح کی حماقت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
اورنج ٹرین چلے گی تو اس کا کریڈٹ ان پٹواریوں کو ہی جائے گا جو ملک لوٹ کر کھا گئے۔ حکومت مزید پیسے لگا کر ماضی کے کرپٹ حکمرانوں کی سیاسی دکان چمکانے کا اہتمام کیوں کرے؟ 10ارب روپے سالانہ ملک لوٹنے والے مافیا کے لیے چاہے معمولی رقم ہو مگر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سادہ لوح شخص کیلئے یہ بہت بڑی رقم ہے، اس لیے بجا طور پر اورنج ٹرین منصوبے کو لٹکانے اور ازسر نو غور کیلئے پنجاب اسمبلی بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبے حکومتی سبسڈی کیساتھ چلائے جاتے ہیں۔
بھارتی شہر دہلی میں عام آدمی پارٹی حکومت نہ صرف بجلی اور پانی مفت مہیا کرتی ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کی مد میں بھی اربوں روپے سبسڈی دیتی ہے۔ خواتین کو تو بالکل مفت سفر کی سہولت دی گئی ہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں میٹرو بس پر سالانہ کئی ارب روپے سبسڈی دی جاتی ہے اب 3ارب ڈالر لگا کر جاپان کی مدد سے ٹرین چلائی جا رہی ہے تو اس کیلئے بھی سالانہ سبسڈی دینا پڑے گی۔
مگر ہم یہ عیاشی افورڈ نہیں کر سکتے۔ سیانے کہتے ہیں دوسرے کا سرخ چہرہ دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے لال نہیں کر لینا چاہئے۔ ویسے بھی ہم پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کے خلاف نہیں ہیں، اگر ایسا ہوتا تو پشاور میں ریپڈ بس منصوبے پر کام کا آغاز نہ کیا جاتا لیکن ایسے کسی منصوبے پر ’’کرپٹوں‘‘ کو پوائنٹ اسکورنگ کا موقع ملے، ایسی حماقت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
تکلف برطرف، ہماری حکومت سبسڈی کے خلاف نہیں ہے، بعض اوقات ضروت مند طبقات کو رعایت دینا پڑتی ہے، مثال کے طور پر بیچارے شوگر ملز مالکان جو مہنگائی کے اس دور میں بہت مشکل سے گزارا کر رہے ہیں اور تنگی کے باوجود عوامی خدمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہوئے ہیں۔
انہیں نہ صرف صوبائی حکومتیں سبسڈی دے رہی ہیں بلکہ وفاقی حکومت بھی ان سے بھرپور تعاون کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہر شوگر مل کو اس کی پیداوار کے حساب سے سبسڈی دی جاتی ہے جو شوگر مل جتنی زیادہ چینی پیدا کرتی ہے اسے اتنی ہی زیادہ سبسڈی دی جاتی ہے۔
اس سبسڈی سے مسابقت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران اس مد میں شوگر ملز مالکان کو 20ارب روپے سبسڈی دی گئی۔ خدمت کے جذبے سے سرشار ان درویش صفت شوگر ملز مالکان کی مشکلات کا اِدراک کرتے ہوئے انہیں چینی برآمد کرنے پر نہ صرف وفاقی حکومت سبسڈی دیتی ہے بلکہ صوبائی حکومتیں بھی اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر دسمبر 2018ء میں ای سی سی نے 2ملین ٹن چینی برآمد کرنے کا کوٹہ دیتے ہوئے یہ فیاضانہ پیشکش کی کہ فی کلو 10.7روپے سبسڈی دی جائے گی۔ صوبائی حکومت نے اپنا حصہ ڈالا اور 9.3روپے فی کلو سبسڈی کا اعلان کر دیا یوں تقریباً 20روپے فی کلو سبسڈی مل جانے سے شوگر ملز مالکان کی دال روٹی کا بندوبست ہوگیا۔
اسی طرح اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اگست 2019ء میں انڈسٹریل سیکٹر کو گیس کی مد میں 5.2ارب روپے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا۔ اسلام کا بنیادی اصول یہی ہے کہ امیروں سے لیکر غریبوں میں تقسیم کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے گیس کے نرخوں میں 251فیصد اضافہ کرکے جو پیسے جمع کیے وہ انڈسٹریل سیکٹر کے ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیے گئے۔
پی آئی اے اور اسٹیل مل کا خسارہ پورا کرنے کیلئے ہر سال 400ارب روپے دیے جاتے ہیں کیونکہ ہوائی جہازوں پر بیچارے سیٹھ یا پھر مفلوک الحال منتخب عوامی نمائندے سفر کرتے ہیں۔
اب اورنج ٹرین پر سفر کرنے کے خواب دیکھنے والے صاحبِ حیثیت افراد کو خواہ مخواہ 10ارب روپے کی سبسڈی کیوں دی جائے، لہٰذا ’’گودہے‘‘ نے جو فرمایا، وہ سب ملک و قوم کا سرمایا۔
(نوٹ،ڈیرہ غازی خان، لیہ، راجن پور، مظفر گڑھ جیسے اضلاع پر مشتمل سرائیکی خطے میں سردار یا بڑے کو ’’گود ہا‘‘ کہا جاتا ہے)