پاکستانی فلمی تاریخ کے تین بڑے ہیروز محمد علی، ندیم اور وحید مراد، یُوں تو اپنے کیریئر میں مختلف نوعیت کے کرداروں اور یادگار کردار نگاری کے سبب غیر معمولی مقبولیت کے حامل قرار پائے، لیکن ان کی ایک دوسرے سے مختلف خصوصیات بھی ان کی جاویداں مقبولیت کا باعث بنی۔ مثلاً محمد علی بلا شبہ ہمارے فلمی تاریخ سب سے زیادہ ہمہ جہت فن کار تسلیم کیے گئے اور کئی فلموں میں مختلف نوعیت کے جان دار کردار بھی ان کے حصے میں آئے، لیکن انہیں بالخصوص جذبات نگاری کے حوالے سے زیادہ شہرت ملی اور اسی تناظر اور خاص خوبی کے پیش نظر انہیں شہنشاہ جذبات کے لقب سے بھی نوازا گیا، جب کہ مایہ ناز فن کار ندیم جنہوں نے ہمہ جہت کرداروں میں اپنی جان دار پرفارمنس کے رنگ سمو کر شہرت دوام حاصل کی، لیکن مزاحیہ کرداروں کی ادائیگی انہوں نے جس مہارت سے کی، وہ ان کا خاصا ٹھہری…
بالکل اسی طرح ہماری فلم انڈسٹری کے شعبہ اداکاری کا تیسرا بڑا ستون چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے اپنی فنی زندگی میں بہت سے مختلف طرز کے کرداروں میں اپنے فن کے مظاہر پش کیے، لیکن رومانی کردار نگاری میں وہ دیگر تمام ہیروز سے ممتاز نظر آئے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں رومانس کا شہزادہ موسوم کیا گیا۔ ان کا رومانی پیئر جن ہیروئنز کے ساتھ آن اسکرین بہت زیادہ کام یاب اور زیادہ پسندیدہ رہا، ان میں سرفہرست نام زیبا بیگم کا ہے۔
ہر چند کہ ان کی وحید مرا د کے پیئر میں فلموں کی تعداد درجن بھر بھی نہیں، لیکن مقبولیت اور پسندیدگی کے اعتبار سے ان ہی کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔ اس کی معقول وجہ بھی موجود ہے، کیوں کہ ان کا پہلا اشتراک 1964ء ہی’’ہیرا اور پتھر‘‘ گولڈن جوبلی ہٹ… دوسری بار 1965ء ’’کنیز‘‘ گولڈن جوبلی ہٹ، تیسری مرتبہ 1966ء ’’ارمان‘‘ پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی اردو فلم… پے در پے سپر ڈوپر ہٹ کام یابیوں کی ایسی تاریخ قبل ازیں کسی جوڑی نے رقم ہی نہیں کی۔ پھر کیوں نہ لوگ اس عظیم رومانی جوڑی کو اولیت دیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ اس پیئر کی دیگر 6؍ فلمیں ’’جاگ اٹھا انسان‘‘، ’’انسانیت‘‘، ’’احسان‘‘، ’’ماں باپ‘‘، ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ اور ’’عید مبارک‘‘ بھی کام یابی سے ہم کنار ہوئیں۔ گو کہ احسان، رشتہ ہے پیار کا اور ماں باپ نے ایوریج بزنس کیا، لیکن فلاپ کا لیبل کسی فلم پر نہیں لگا۔
اس اعتبار سے زیبا اور وحید کے پیئر نے باکس آفس پر سو فی صد کامیابیاں حاصل کیں اور ان کی ان مشترکہ فلموں میں اگر ایک بہترین فلم کا انتخاب کیا جائے تو بلاشبہ وہ ’’ارمان‘‘ ہے، جس میں دونوں ہی فن کاروں کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ وحید مرا د نے اس فلم کی وساطت سے ہی رومانی اداکاری کا بہت ہی پراثر اور اسی عہد کی نوجو ان نسل کو مسحور کردینے والا اسلوب متعارف کروایا۔ یہی وہ فلم تھی، جس کی ریلیز کے بعد وحید مراد کا ہیئر اسٹائل ان کے ملبوسات کو اپنانے کا کریز عام ہوا۔
وحید مراد کی دوسری کام یاب ہیروئن ’’رانی‘‘ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کا وحید کے ساتھ دیگر ہیروئنز کی نسبت زیادہ اشتراک رہا، جب کہ کامیابیوں کے اعتبار سے بھی یہ شراکت داری بہت حوصلہ افزا رہی۔ گو کہ اس اشتراک میں بننے والی پہلی فلم سازوآواز 1965ء فلاپ رہی، لیکن بعد ازیں اس جوڑی نے ’’دیور بھابھی‘‘، ’’انجمن‘‘، ’’خلش‘‘، ’’بہارو پھول برسائو‘‘، ’’بہن بھائی‘‘، ’’پرکھ‘‘، ’’سہیلی‘‘ اور’’عورت راج‘‘ جیسی باکس آفس ہٹ موویز شائقین کو دیں۔ ان دونوں فن کاروں کی کردار نگاری کے تناظر میں ہم پلاٹینم جوبلی ہٹ فلم ’’انجمن‘‘ اور رضا میر کی ’’ناگ منی‘‘ کو نہایت دل کش اور ناقابل فراموش قرار دے سکتے ہیں۔ وحید، رانی کا دیگر جن فلموں میں بہ طور جوڑی اشتراک ہوا، ان میں ’’ماں بیٹا‘‘، ’’ناگ اور ناگن‘‘، ’’دلربا‘‘، ’’لیلی مجنوں‘‘، ’’دیدار‘‘ اور ’’زلزلہ‘‘ شامل ہیں۔
’’سمندر‘‘ مغربی پاکستان میں بننے والی ’’شبنم‘‘ کی پہلی فلم تھی، جسے وحید مراد نے پروڈیوس کیا تھا۔ سمندر نے مناسب بزنس کیا، لیکن فلم بینوں نے شبنم اور وحید کی جوڑی کو بے حد پسندیدہ قرار دیا، یہی سبب تھا کہ اس پیئر کی اگلی دو فلمیں ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ اور ’’عندلیب‘‘ نے بھی فلم بینوں کی توجہ حاصل کی، بالخصوص ’’عندلیب‘‘ نے اپنے بہترین معیار اعلی موسیقی اور وحید شبنم کی دل کش کردار نگاری کی بدولت گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا، یہی نہیں دونوں فن کاروں نے اس فلم سے ’’نگار ایوارڈز‘‘ بھی حاصل کیے۔ یُوں زیبا اور ر انی کے بعد وحید مراد کے ساتھ شبنم کا پیئر زبردست انداز میں مقبول ہوا۔
فلم ’’لاڈلا‘‘، ’’افشاں‘‘، ’’نصیب اپنا اپنا‘‘، ’’بندگی‘‘ میں بھی یہ جوڑی یکجا نظر آئی، لیکن پھر کسی وجہ سے شبنم نے وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے گریز برتا،جس کے سبب یہ دونوں فن کار ایک طویل عرصے تک کسی فلم میں یکجا نہ ہوسکے۔ تاہم پھر چھ سال کے وقفے کے بعد شباب کیرانوی نے فلم ’’سہیلی‘‘ میں انہیں اکٹھا کیا ، جس کےبعد ’’پیاری‘‘، ’’نشانی‘‘، ’’آئی لو یو‘‘، ’’گھیرائو‘‘، ’’کرن اور کلی‘‘ اور ’’مانگ میری بھردو‘‘ میں بھی یہ جوڑی نظر آئی۔ شبنم اور وحید مراد کے اشتراک میں کام یاب ترین فلم ظفر شباب کی ’’آواز‘‘ تھی کہ جس نے شان دار پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔
پچاس کی دہائی میں متعارف ہونے والی پاکستانی سنیما کی ممتاز فن کارہ شمیم آرا 8؍ فلموں میں وحید مراد کی ہیرئون بنیں، لیکن اس جوڑی کی قابل ذکر کام یاب صرف دو ہی فلمیں ’’سالگرہ‘‘ اور ’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘ ثابت ہوئیں۔ ان دونوں فلموں نے شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔
دونوں فلموں میں وحید مراد ایک خُوب صورت رومینٹک ہیرو کے طور پر نظر آئے ،جب کہ شمیم آرا نے دونوں ہی فلموں میں سنجیدہ اور المیہ کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔ وحید مراد اور شمیم آرا کی دیگر مشترکہ فلموں میں ’’جان آرزو‘‘، ’’دوراہا‘‘، ’’بے وفا‘‘، ’’خواب اور زندگی‘‘، ’’زیب النساء‘‘ اور ’’میرے اپنے‘‘ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمیم آرا نے فلم ’’زندگی ایک سفر ہے‘‘ میں وحید مراد کی بہن اور فلم ’’جیو اور جینے دو‘‘ میں ’’ماں‘‘ کے رولز بھی ادا کیے۔مونا لیزا کی مسکراہٹ والی دیبا خانم بھی متعددفلموں میں چاکلیٹی ہیرو کی ہیروئن بنیں۔ رفیق رضوی کی ’’پھر صبح ہوگی‘‘ 1967ء میں وہ وحید مراد کی پہلی بار ہیروئن بنیں۔ پھر وحید مراد کی ’’اشارہ‘‘، شباب کی ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ ایس اے حافظ کی ’’اک نگینہ‘‘ لقمان کی ’’افسانہ‘‘ رفیق رضوی کی ’’پھر چاند نکلے گا‘‘ ایس ایم یوسف کی ’’زندگی ایک سفر ہے‘‘ کے خورشید کی ’’ننھا فرشتہ‘‘ جمشید نقوی کی ’’خریدار‘‘ اور عزیز الحسن کی ’’پرستش‘‘ میں بہ طور ہیرو ہیروئن یہ جوڑی سلور اسکرین پر جلوہ گر ہوئی، لیکن ان میں سے جو فلمیں کام یاب رہیں ، وہ محض 30-25 یا 40 ہفتوں سے زیادہ نہ چل سکیں۔ تاہم اس جوڑی کی نمایاں ترین فلم ’’انجمن‘‘ ہے، لیکن اس میں بہ طور ہیروئن دیبا سے زیادہ کریڈٹ رانی کا ہے۔
تاہم کے خورشید کی ’’نیند ہماری خواب تمہارے‘‘ اور نذر شباب کی ’’شمع‘‘ گولڈن جوبلی کے اعزاز کی حامل یہ دونوں فلمیں بلاشبہ دیبا کی کردار نگاری کے تناظر میں اہم فلمیں ہیں اور دیبا سے منسوب کی جاسکتی ہیں اور دیبا وحید مراد کی بہ حیثیت پیئر یہی دو اہم فلمیں ہیں۔
70ء اور 80ء کی دہائیوں میں اپنی شاندار اور حقیقت سے قریب تر کردار نگاری کی بدولت تہلکہ مچادینے والی چھوٹے قد کی بڑی فن کارہ بابرہ شریف کی جوڑی کو بھی شہزادہ رومانس کے ساتھ خاصی پسندیدگی حاصل ہوئی۔
نذرالاسلام کی خوب صورت تخلیق ’’حقیقت‘‘ میں پہلی بار یہ جوڑی سامنے آئی۔ ظفر شباب کی ’’وقت‘‘ کے بعد 1976ء میں جب نذر شباب کی ’’شبانہ‘‘ منظر عام پر آئی تو اس کی بلاک بسٹر کام یابی نے اس جوڑی کے لیے مزید مشترکہ فلموں کی راہ ہموار کردی۔ بعد ازاں ’’خدا اور محبت‘‘، ’’بدنام‘‘، ’’گن مین‘‘، ’’دل نے پھر یاد کیا‘‘ اور ’’ہیرو‘‘ میں وحید مراد اور بابرہ بہ طور پیئر جلوہ گر ہوئے۔
تاہم اس جوڑی کی یادگار فلموں میں ’’شبانہ‘‘ اور ’’وقت‘‘ کو بہ طور خاص اور اہم قرار دیا جاسکتا ہے، جب کہ روزینہ، عالیہ، نشو، آسیہ، نجمہ، نغمہ ، نیلو اور سنگیتا، جیسی خُوب صورت ہیروئنز کا پیئر بھی وحید مراد کے ساتھ عوامی توجہ اور دل چسپی کا حامل رہا۔ تاہم فقط ایک فلم میں جو اداکارائیں ان کی ہیروئن بنیں ان میں بہار فلم (ڈاکٹر) چترا فلم ’’بھیا‘‘ ساحرہ بانو فلم ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ نیلم فلم ’’بندھن‘‘ ثمینہ سنگھ فلم ’’کالا دھندا گورے لوگ‘‘ دردانہ رحمن فلم ’’انوکھا راج‘‘ اور کویتا فلم ’’جیو اور جینے دو‘‘ شامل ہیں۔