لندن( مرتضیٰ علی شاہ) متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین دہشت گردی کیلئے اکسانے کے الزام میں اولڈ بیلی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے آغاز سے قبل ہی ایم کیوایم لندن سیکرٹریٹ فروخت کر رہے ہیں، انھوں نے ایم کیو ایم کا پورا دفتر جس میں 6 کاریں پارک کرنے کی گنجائش ہے، اس کی قیمت 10 لاکھ پونڈ مقرر کی ہے، لیکن گزشتہ 2 ماہ کے دوران ابھی تک انھیں کوئی آفر نہیں ملی ہے،اس نمائندے نے لوکل اسٹیٹ ایجنٹ سے جو اس کی فروخت کیلئے مارکٹنگ کررہے ہیں اپائنٹمنٹ لے کر 58-54 ایلزبتھ ہائوس فرسٹ فلور واقع ہائی اسٹریٹ ایچ ویئر کا دورہ کیا تھا، خیال کیاجاتاہے کہ ایم کیو ایم کے بانی تقریباً4 ماہ بعد اولڈ بیلی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بھاری اخراجات کیلئے فنڈز جمع کرنے کیلئے دفتر فروخت کررہے ہیں، خیال کیاجاتاہے کہ مقدمے کی سماعت 3 ہفتے جاری رہے گی۔ اسٹیٹ ایجنٹ دلچسپی رکھنے والے خریداروں کو اس کو خریدنے کی ترغیب دے رہا ہے کیونکہ یہ ایج ویئر انڈرگرائونڈ اسٹیشن (ناردرن لائن) سے چند قدم کے فاصلے پر ہے، اس میں پسنجر لفٹ ،ریسپشن اور ایئرکنڈیشننگ کانظام بھی موجود ہے ،اس کی مارکیٹنگ کیلئے تیار کئے گئے بروشر میں کہاگیاہے کہ ایلزبتھ ہائوس کا فرسٹ فلور فروخت کیلئے موجود ہے جو کہ اسے خریدنے والوں،سرمایہ کاروں یا اس کو جدید تر بنانے کے خواہاں لوگوں کیلئے بہترین ہے، فلور پر ایک ریسپشن کی جگہ ہے جس کے ساتھ دفتر کیلئے ایک بڑی جگہ اور کئی پرائیوٹ دفاتر ،میٹنگ رومزاور اسٹور رومز ایک بڑا کچن اور آرام کرنے کاکمرہ ہے ،یہ دفتر کئی ہفتے سے فروخت کیلئے موجود ہے اور ایک درجن سے زیادہ متوقع خریدار اس کامعائنہ کرچکے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے بانی کوکوئیآفر نہیں ملی ہے، ایک ذریعے نے بتایا کہ اگر الطاف حسین اس کوفروخت کرنے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو وہ اس کی قیمت میں 50ہزار پونڈ سے ایک لاکھ پونڈ تک کی کمی کردیں گے ، فی الوقت پراپرٹی کی مارکیٹ مندی کاشکار ہے اورقیمتی پراپرٹی کے زیادہ خریدار نہیں ہیں،اس پراپرٹی کاجائے وقوع بہت اچھا ہے اور الطاف حسین اس کوفروخت کرنے کیلئے زیادہ انتظار نہیں کریں گے ،ایم کیو ایم لندن کے عہدیدار وہٹ چرچ لین کے ایک گھر میں منتقل ہوگئے اور وہ 3 بیڈ روم کے اس مکان سے کام کررہے ہیں، ایم کیوایم لندن کے ارکان اب صرف 5کل وقتی ارکان پر مشتمل ہے جس میں مصطفیٰ عزیزآبادی ،قاسم علی رضا، عادل غفار ایڈووکیٹ ،سفیان یوسف اورطارق جاوید شامل ہیں۔ذرائع کاکہناہے کہ اس وقت جبکہ پارٹی کاکراچی سے تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے اور ایم کیو ایم لندن کیلئے کچھ نہیں ہورہاہے ایلزبتھ ہائوس کو رکھنا دانشمندی نہیں ہے، ایم کیوایم کا انٹرنیشنل آفس پاکستان کیلئے زبردست جذباتی اور سیاسی حیثیت کاحامل ہے،یہ وہی جگہ ہے جہاں سے الطاف حسین نے3 کمروں اور2 ٹیلی فون لائنز کے ذریعے کم وبیش 2 عشروں تک آہنی ہاتھوں سے کراچی پرحکمرانی کی ہے۔یہ وہی مکان ہے جہاں ایم کیو ایم کے وہ درجنوں رہنما مقیم تھے جنھوں مصطفیٰ کمال کے ساتھ مل کر پی ایس پی قائم کی یا ایم کیوایم پاکستان کے نام سے پی ٹی آئی کی حکومت میں شمولیت اختیار کرلی ،یاخاموشی اختیار کرلی یا ایم کیو ایم کے بانی سے اپنی راہیں جدا کرلیں، یہ تمام لوگ الطاف حسین سے مصافحہ کرنے ،ان کے ساتھ تصویر کھنچوانے اور ان کی نظروں میں آنے کیلئے دنوں بلکہ مہینوں انتظار کرتے رہتے تھے، یہ وہی جگہ ہے جو برسوں تک اقتدار کاگہوارہ تصور کی جاتی تھی اور ایم کیوایم کے عہدیدار برطانیہ اورپاکستان میں اپنے ساتھیوں پر سخت نظم وضبط قائم رکھتے تھے، یہ وہی جگہ ہے کہ جہاں سے الطاف حسین ایک فون کے ذریعے کراچی کو بند کرادیتے تھے اور پرویز مشرف سے پیپلز پارٹی کی حکومت تک سب یہاں قطار لگائے رکھتے تھے ۔ لیکن اب یہ سب کچھ ختم ہوچکا ہے،الطاف حسین نکالے جاچکے ہیں اور ایم کیو ایم کا یہ مرکز فروخت کیاجارہاہے، الطاف حسین پر اگست 2016کوایک تقریر کے ذریعے دہشت گردی کیلئے اکسانے کے الزام میں اولڈ بیلی کی عدالت میں کرائوں پراسیکیوشن سروسز کے انسداد دہشت گردی ڈویژن کی جانب سے پیش کردہ مقدمے کی سماعت یکم جون کو شروع ہوگی ،66سالہ الطاف حسین کو جو مل ہل نارتھ لندن میں مقیم ہیں دہشت گردی کے ایکٹ 2006 کے تحت چارج کیا گیاہے ،ان کو 16اگست 2016کو لندن سے تقریر کے ذریعے جس کے نتیجے میں کراچی میں تشدد پھوٹ پڑا تھا جان بوجھ کر سنگین جرائم کے ایکٹ2007کی دفعہ44 کے منافی جرائم کی ترغیب دینے یا اس میں معاونت کرنے کے الزام میں چارج کیاگیاہے۔