کراچی (ٹی وی روپورٹ)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیئرمین نیب کو چیلنج دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیئرمین نیب ہمت کریں میرے ساتھ پروگرام میں بیٹھیں،چیئرمین نیب کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے،وزیراعظم سمیت پوری کابینہ ٹیکس چور ہے، مجھے اور احسن اقبال کو پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے پر گرفتار کیا گیا، نیب کو مجھ سے سوالات کرنے ہیں تو ٹی وی کیمروں کے سامنے کرے، نیب نے حکومت اور کاروبار کو مفلوج کردیا ہے، ساری زندگی جیل میں انتظار نہیں کرسکتا تھا اس لئے ضمانت کی درخواست دائر کی، حکومت کی نااہلی اور کرپشن سے آٹا مہنگا ہوا ہے، پارلیمانی کمیٹی بنادیں دو ہفتے میں حقائق سامنے آجائیں گے، حفیظ شیخ پاکستان پر رحم کریں کہیں اور جاکر کام کریں، رضا باقر اور حفیظ شیخ حب الوطن ہیں تو لکھ کر دیں دس سال پاکستان چھوڑ کر نہیں جائیں گے، ن لیگ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر یوٹرن نہیں لیا، میری رائے میں آرمی ایکٹ بل پر اسمبلی اور پارلیمانی کمیٹی میں بحث ہونی چاہئے تھی، میں نے جماعت کے فیصلے پر آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر ووٹ دیا ،خواجہ آصف اور میرے درمیان کوئی تلخی نہیں ہوئی، واٹس ایپ گروپ چھوڑنا خواجہ آصف کا اپنا فیصلہ ہے، اگر ہماری کوئی ناراضی ہے تو یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، ہوسکتا ہے مجھ پر آنے والے دنوں میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کا کیس ڈالا جائے، جاتی امراء سے مجھے کوئی دعوت نہیں آئی ، رہائی کے بعد مریم نواز کا پیغام آیا تھا مگر کوئی بات نہیں ہوئی، لاہور جاؤں گا تو مریم نواز سے بھی ملوں گا،شہباز شریف کی واپسی کا انحصار نواز شریف کی سرجریز پر ہے،ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں کبھی کشیدگی نہیں تھی، یہاں امپائر کوئی نہیں ہے ، امپائر کھیل میں حصہ نہیں لیتا صرف فیصلے کرتا ہے، نیب پاکستان کے عوام کی عدالت میں ناکام ہوچکا ہے، مائنس نوازشریف کا فیصلہ صرف پاکستان کی عوام کرسکتی ہے۔سابق وزیراعظم پاکستان نے ان خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جیل میں سزائے موت کے سیل میں رکھا گیا تھا،چار مہینے اس سیل میں تنہا رہا پھر احسن اقبال آگئے، ضمیر مطمئن ہو تو جیل میں قید تنہائی کاٹنا مشکل نہیں ہوتا، جیل جانا میرے لئے بڑی بات نہیں پہلے بھی دو سال جیل میں رہ چکا ہوں، قید تنہائی کے دوران قرآن پاک کی تفسیر اور معاشیات و سیاست پر کتابیں پڑھیں، نیب کے مطابق مجھ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں بلکہ اختیارات کا غلط استعمال کا الزام ہے، مجھ پر ملک کو 46ارب روپے نقصان پہنچانے کا کیس ہے جس میں ابھی صرف 18ارب کا نقصان ہوا ہے جبکہ 28ارب کا ہوگا، ڈیڑھ سال سے نیب کے سوالناموں کے جواب دے رہا ہوں، نیب کسٹڈی میں مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، نیب افسران حاضری پوری کرنے کیلئے ایک دو گھنٹے میرے پاس آجاتے تھے، نیب سے گرفتاری کی وجہ پوچھی تو کہتے ہیں اوپر سے حکم آیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کو ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا، جسٹس (ر) جاوید اقبال کوسپریم کورٹ کے سابق جج کی حیثیت سے جانتا تھا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اتفاق رائے سے انہیں چیئرمین نیب لگانے کا فیصلہ کیا، میں نے اور خورشید شاہ نے صرف اپنی اپنی پارٹی کی ہدایات پر عمل کیا، چیئرمین نیب کیلئے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا نام پیپلز پارٹی کی طرف سے آیا تھا، مجھے اور احسن اقبال کو پارٹی کو دوبارہ منظم کرنے پر گرفتار کیا گیا، وزیراعظم عمران خان قبول کرتے ہیں کہ میں لوگوں کو گرفتار کرواتا ہوں، وزیراعظم نے امریکا میں پانچ ہزار پاکستانیوں کے سامنے کہا کہ شاہد خاقا ن عباسی کہتا تھا مجھے گرفتار کرو میں نے گرفتار کرلیا، نیب چیئرمین کہہ دیں وزیراعظم انہیں ہدایات نہیں دیتے ہیں،چیئرمین نیب کو پارلیمنٹ کے سامنے جواہدہ ہونا چاہئے، سابق وزیراعظم نے چیئرمین نیب کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب ہمت کریں میرے ساتھ پروگرام میں بیٹھیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے کہا کہ میں نیب کو دھمکیاں دیتا ہوں،وفاقی سیکرٹری کے سامنے وارنٹ گرفتاری یا بطور وعدہ معاف گواہ کے بیان رکھا جاتا ہے،میرے تمام دوستوں اور رشتہ داروں سے اثاثے پوچھے گئے، انہیں کہا گیا یہ اثاثے تمہارے نہیں شاہد خاقان عباسی کے ہیں تم اس کے فرنٹ مین بنے ہوئے ہو، پارلیمنٹ مفلوج ہے وہاں کوئی بات نہیں ہوتی ہے، نیب کو مجھ سے سوالات کرنے ہیں تو ٹی وی کیمروں کے سامنے کرے، نیب ملک کا سب سے کرپٹ ادارہ ہے، نیب نے حکومت اور کاروبار کو مفلوج کردیا ہے، چیف جسٹس کھوسہ کہہ چکے ہیں کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال ہورہا ہے، نیب دائرئہ اختیار نہ ہوتے ہوئے بھی ہر بڑی ہاؤسنگ کالونی کو بلا کر کسی ایم این اے کا فرنٹ مین بنادیتی ہے، ہاؤسنگ کالونی والوں نے بیس بیس کروڑ روپے دے کر نیب سے جان چھڑائی ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ایل این جی ٹرمینل کا معاہدہ پاکستان کی سب سے بڑی کمپنی اینگرو سے کیا گیا، اسد عمر اینگرو کے چیف ایگزیکٹو تھے تب بھی اینگرو نے ایل این جی ٹرمینل کی بولی میں حصہ لیا تھا، مجھ پر ایل این جی کی خریداری کا کوئی الزام نہیں بلکہ اینگرو کو مہنگے داموں ٹرمنل دینے کا الزام ہے، میرے کیس میں مرکزی ملزم حسین داؤد اور ان کا بیٹا ہے جو ملک کے سب سے بڑے سرمایہ کارہیں، نیب صرف مجھے پکڑنے کیلئے یہ سب کچھ کررہی ہے، ہم نے 6ڈالر 50سینٹ میں ایل این جی کا معاہدہ کیا تھا ، پاکستان میں لوکل گیس 6ڈالر میں پڑتی ہے، پاکستان نے تاپی اور ایران گیس پائپ لائن معاہدے بھی کیے ہیں جن کی قیمت قطر معاہدے سے زیادہ ہے، حکومتی وزراء کو ایل این جی سے متعلق الف ب کا علم نہیں ہے، ندیم بابر ٹی وی پر میرے ساتھ بیٹھ کر اپنے اعتراض پیش کردیں میں واضح کردوں گا، ریلائنس انڈسٹری انڈیا نے 2ڈالر 80سینٹ کا جو ایل این جی کارگو خریدا ہے وہ کرونا وائرس کی وجہ سے چین سے واپس جارہا تھا۔