محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر بیگم رعنا لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو تک ممتاز خاتون رہنمائوں کو ان کی جانب سے تمام تر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو اقتدار کی سیاست میں خواتین کے کردار کے مخالف ہیں۔ لیکن عوام بھی انتخابات میں خاتون امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں حتیٰ کہ ایک خاتون کو ملک کا دوبار وزیراعظم منتخب کیا۔
محترمہ فاطمہ جناح اور بے نظیر دونوں نے طاقتور فوجی آمروں کو چیلنج کیا۔ عوام نے ان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو مسترد کیا۔ بے نظیر اور ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو مرحومہ نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سابق خاتون وزیراعظم کے خلاف یہ فتویٰ بھی آیا کہ عورت ریاست کی سربراہ نہیں ہو سکتی۔ 1988ء میں بے نظیر بھٹو عوام کے ووٹ سے وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے دائیں بازو کے اتحاد آئی جے آئی نے ان کے خلاف مذہبی کارڈ استعمال کیا۔
27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو قتل نہ ہوتیں تو ان کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کا قوی امکان تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں عاصمہ جہانگیر خواتین کی بھرپور آواز بن کر ابھریں وہ پوری زندگی خواتین کے حقوق کے لئے لڑتی رہیں۔ خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کا کریڈٹ جنرل (ر) پرویز مشرف کو بھی جاتا ہے۔
انہوں نے پارلیمنٹ میں خواتین کی نشستیں بڑھائیں۔ ان کے بعد آنے والے سیاسی حکمرانوں نے بھی خواتین کی نشستوں میں اضافے کے قانون کو برقرار رکھیں۔ تین منتخب حکومتوں کے ادوار میں خواتین کے حق میں دستور سازی ہوئی۔
حتیٰ کہ ماسوائے چند کو چھوڑ کر سخت گیر مذہبی جماعتوں نے بھی خواتین کے حقوق پر اپنے مؤقف سے رجوع کیا۔ 1970ء کی دہائی سے دنیا بھر میں 8مارچ خواتین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن خواتین کی محرومیوں اور ان سے ناانصافی کو سامنے لایا جاتا اور معاشرے میں ان کی مساویانہ حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہ کوئی اسان سفر نہیں، خواتین کو سختیاں، دبائو دھمکیاں سہنی پڑتی ہیں۔ حتیٰ کہ حقوق مانگنے پر خواتین کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ عورت مارچ کے دوران تنازع پر رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ مخصوص پلے کارڈز، پوسٹرز اور نعروں پر مختلف رائے ہو سکتی ہے۔ کچھ کٹر مذہبی جماعتوں نے نعروں اور پوسٹرز کو نہایت قابل اعتراض قرار دیا ہے۔ جبکہ خواتین نے ان کے دفاع میں کہا کہ اعتراض کرنے والوں نے انہیں بری طرح غلط سمجھا۔ ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے خواتین کی مختلف تنظیموں نے حکمراں تحریک انصاف سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت سے خواتین کا عالمی یوم منانے کا فیصلہ کیا۔
ملک کی دو بڑی سیاسی مذہبی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی جس کا پاکستان میں سب سے بڑا منظم خواتین ونگ ہے اس نے جے یو آئی (ف) سے زیادہ عقلی، شعوری اور سیاسی مؤقف اختیار کیا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے خواتین حقوق کے لئے ہفت روزہ مہم چلانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ معاشرے میں خواتین کو یکساں و مساویانہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔ دوسری جانب جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ہر قیمت پر عورت مارچ روکنے کی دھمکی دی ہے۔
حتیٰ کہ اپنے معتقدین کو مذکورہ مارچ روکنے کے لئے کہا یہ چیز جے یو آئی اور مولانا کی طرز سیاست کے برخلاف ہے۔ گزشتہ برس ایسی دھمکیاں تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے ملی تھیں۔ لیکن یہ پارٹی مولانا فضل الرحمٰن کو دوسرے دھرنے کے بعد غیر سیاسی عناصر کے ساتھ رویہ پر خوش نہیں اور اس نے اپنی قوت اور شدت میں کمی کا فیصلہ کیا۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جے یو آئی (ف) نے گزشتہ سال اس ’’مارچ‘‘ کی مخالفت کیوں نہیں کی تھی؟ جبکہ اس سال بڑا واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ اب وہ کس حد تک جاتی ہے، اس پر جے یو آئی کے بدلتے سیاسی مؤقف پر سنجیدہ سوالات اُٹھتے ہیں۔ عورت مارچ کے دوران تشدد کی صورت مولانا فضل الرحمٰن سمیت جے یو آئی کی قیادت تشدد کو ہوا دینے کے الزامات لگ سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کے ریمارکس کو سیاسی حلقوں میں اچھا نہیں لیا گیا یہ جمعیت علماء اسلام کے زیادہ بنیاد پرست ہونے کی ابتداء ہے تاکہ خیبر پختون خوا کی سیاست میں واپسی کر سکیں۔ آنے والے مہینوں میں جے یو آئی کا بدلتا مؤقف اور طرز سیاست کا مشاہدہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ اپنے ہفت روزہ ملین مارچ کے بعد سے مولانا فضل الرحمٰن کو مکمل سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔ مارچ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے عدم تعاون کی وجہ سے ناکام ثابت ہوا۔
دوسرے گجرات کے چوہدری برادران نے اپنے مبینہ وعدے پورے نہیں کئے۔ تاہم ملک کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کے آرگنائزیشن نے ہر طرح کی دھمکیوں اور دبائو کی مزاحمت کا عزم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ان کی بہن بختاور نے مارچ کی حمایت کرتے ہوئے حکومت سندھ کو تمام تر ممکنہ سیکورٹی اور سہولتیں بہم پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔