باغبانوں کی زبان
… ہری چند اختر…
جوش ملیح آبادی اور پنڈت ہری چند اختر کے درمیان زبان کے مسئلے پر بحث چھڑ گئی ۔ جوش صاحب کا رویہ بحث کے دوران میں اکثر یہ ہوتا کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا لیکن اخترصاحب بھی بے ڈھب قسم کے ادیب تھے۔ جب بحث نے طوالت پکڑی تو اختر صاحب نے فرمایا۔
’’میں دلی والوں کی زبان ماننے کو تیار ہوں، میں لکھنؤ والوں کی زبان ماننے کو تیار ہوں، لیکن میں ملیح آباد کے باغبانوں کی زبان نہیں مانتا۔‘‘
(جوش ملیح آبادی کے اپنے وطن ملیح آباد میں آموں کے متعدد باغ تھے)
جگر ؔ صاحب یہ مسجد نہیں ریسٹورنٹ ہے
…جگر مراد آبادی…
ایک بار جگر ؔ ،شوکتؔ تھانوی اور مجروحؔ سلطانپوری دوپہر کے وقت کہیں کام کے لیے باہر نکلے تھے تو ارادہ کیا کہ نماز ادا کی جائے۔ شوکتؔ صاحب ایک کام کے لیے چلے گے ۔ جگرؔ صاحب مسجد کے بجائے ایک ریسٹورنٹ میں جا گھسے۔
مجروحؔ نے کہا۔’’جگر ؔ صاحب یہ مسجد نہیں ریسٹورنٹ ہے ۔‘‘
جگرؔ نے جواب دیا ’’مجھے معلوم ہے ۔ سوچا کہ وقت تنگ ہے ۔ اللہ کو تو خوش کر نہیں سکتا۔ اس کے بندوں کو ہی خوش کرلوں ، آئیے۔‘‘
لمبا قد اور چھوٹے آم
…چراغ حسن حسرت…
چراغ حسن حسرت کا قد لمبا تھا ۔ ایک روز بازار گئے ۔ آموں کا موسم تھا ۔
ایک دوکاندار سے بھاؤ پوچھا ۔ دوکاندار نے پانچ آنے سیر بتایا۔ حسرت نے کہا۔
’’میاں آم تو بہت چھوٹے ہیں ۔‘‘
دوکاندار نے کہا۔’’میاں نیچے بیٹھ کر دیکھو آم چھوٹے ہیں یا بڑے۔ قطب مینار سے تو بڑی شے بھی چھوٹی نظر آتی ہے۔‘‘