اسلام آباد (نمائندہ جنگ،نیوز رپورٹ،صباح نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تعلیمی اداروں میں طالب علموں پر تشدد کے خلاف درخواست پر وزارت قانون سے بل پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے پر جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سرعام پھانسیاں دینے سے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے ،روئیے بدلنا ہوں گے ، بچوں پر تشدد اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ جمعرات کو زندگی ٹرسٹ کے چیئرمین اور گلوکار شہزاد رائے کی جانب سے تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد کے خلاف درخواست کی سماعت کے موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے جواب جمع کرایا اور عدالت کو بتایا کہ تشدد کے خاتمے کے لئے وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دیدی ہے جو پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا تھا لیکن وزارت داخلہ نے اعتراض کیا کہ یہ بل وزارت انسانی حقوق کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور بل اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کرنے کی سفارش کی۔ چیف جسٹس کے استفسار پر وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بتایا کہ وزارت قانون اس حوالے سے جواب دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بچے تشدد سے مر رہے ہیں اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ انہوں نے ڈاکٹر شیریں مزاری سے استفسار کیا کہ عدالت کو کیا کرنا چاہئے؟ اس پر ڈاکٹر مزاری نے جواب دیا کہ عدالت کو بچوں کے مستقبل کو تحفظ یقینی بنانے کے لئے اپنا فیصلہ دینا چاہئے۔سلامی نظریاتی کونسل نے بچوں کو سزا پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 89 کو کالعدم قرار دینے کی ضرورت نہیں۔ عدالت نے شہزاد رائے کو آئین کا آرٹیکل 89 پڑھنے کی ہدایت کی تو انہوں نے کہا کہ سیکشن 89 کہتی ہے بچوں کے ورثا اچھی نیت کے ساتھ تشدد کی اجازت دے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ والدین یا بچوں کے ورثا کو بھی کیسے حق ہے کہ وہ تشدد کی اجازت دیں۔ 2011ءمیں بھی اس حوالے سے قانون سازی کی کوشش کی گئی جو نہیں ہونے دی گئی ، اب موجودہ حکومت میں بھی یہ معاملہ رک گیا ہے ، کہیں نہ کہیں کچھ مسئلہ ہے۔ اس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ یہ عدالت ڈائریکشن دے کہ بچوں پر تشدد غیرقانونی ہے۔ درخواست گزار شہزاد رائے نے پینل کوڈ کی سیکشن 89 کی دوبارہ تشریح کی ضرورت پر زور دیا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ بچوں پر تشدد کے تمام واقعات اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہیں اور بطور معاشرہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ، جسمانی سزا سے بچے پر منفی اثرات پڑتے ہیں ، اچھی نیت کے ساتھ کسی بھی تشدد کا تصور موجود نہیں ہے ، زمانہ بدل چکا ہے ، بچوں کو زیادہ عزت دینا ہو گی۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے میں بچے محفوظ نہیں۔ شہزاد رائے نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کرے۔ عدالت نے قرار دیا کہ وفاقی کابینہ گزشتہ سال مارچ میں بچوں پر تشدد روکنے کا بل منظور کر چکی لیکن اب تک پارلیمنٹ کو ارسال نہ کیا جاسکا حالانکہ بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ملک میں جسمانی تشدد کے علاوہ بھی بچوں کا بہت زیادہ استحصال ہو رہا ہے ، بیرون ممالک میں چلے جائیں تو بچوں کو بری نگاہ سے دیکھنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔عدالت نے سیکرٹری وزارت قانون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیکرٹری قانون آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کے لئے نمائندہ مقرر کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ سماعت پر وزارت قانون سے پوچھ لیتے ہیں کہ بل کیوں نہیں پیش کیا جا رہا، اس بل کی دوبارہ کابینہ سے منظوری کی ضرورت نہیں ہے ، عدالت کابینہ کے اقدام کو سراہتی ہے کہ انہوں نے بل منظور کیا۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے کیس کی سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔دریں اثناء اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ہم پرفرض بنتا ہے کہ بچوں پر تشدد کے خلاف قانون بنائیں، آئین کا آرٹیکل 14 بچوں پرتشدد کیخلاف ہے، آرٹیکل 14 پرمکمل عمل درآمد ہوگا۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھی یاد دہانی کرائی کہ اسلام میں بھی بچوں پرتشدد کی ممانعت ہے، عدالت کا تحریری حکم آئے گا تو اس پر پیش رفت ہوگی، انٹرنیشنل ٹریٹی پر ہم دستخط کر چکے ہیں، قوانین بھی بنانے چاہئیں ۔شیریں مزاری نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 14 بچوں پرتشدد کیخلاف ہے، آرٹیکل 14 پرمکمل عمل درآمد ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے عدالت کو بتا دیا کہ کابینہ نے کارپورل سزا کیبل کی منظوری دے دی تھی، بل پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے وزارت داخلہ میں جا کر پھنس گیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی کابینہ میٹنگ میں وزیراعظم کی جانب سے بھی کارپل سزا ختم کرنے کی ہدایت کی گئی ۔ ا نہوں نے کہا کہ اس ہدایت پر وزارت تعلیم نے فیڈرل ایریا میں کارپورل سزا پرپابندی لگائی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہماری پوزیشن سے اتفاق کیا ہے، عدالت وزرات قانون کوہدایت دے رہی ہے کہ وہ بل قومی اسمبلی میں پیش کریں، بل کیساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کے موقف کو بھی شامل کریں گے۔معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے چیئرمین شہزاد رائے نے کہا ہے کہ بچوں کو مارنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا ان کے ساتھ زیادتی کرنا ہے ، کامن پنشمنٹ کا قانون آ کر رہے گا ، بچوں کی مار پیٹ سے متعلق مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں سکولوں میں بچوں پر تشدد کے خلاف درخواست کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کے وکیل نے اچھے دلائل پیش کئے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آج بڑی بات کی ہے کہ کیس کا فیصلہ ہونے پر بچوں کو مارنے کا قانون ختم ہو جائے گا اور وزارت انسانی حقوق نے کامن پنشمنٹ کا جو قانون کافی عرصہ پہلے پیش کیا تھا وہ اسمبلی میں پیش ہو گا اور امید ہے کہ یہ معاملہ وزارت داخلہ یا اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس نہیں جائے گا۔ شہزاد رائے نے کہا کہ یہ بل بہت عرصے بعد قومی اسمبلی جائے گا۔ وزارت انسانی حقوق اور میڈیا کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس معاملے کو زندہ رکھا ہوا ہے کہ یہ ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب کے سامنے بھی میں نے یہی بات کی ہے کہ بچوں کو مارنے کے حوالے سے مائنڈ سیٹ بنا ہوا ہے۔ ہم نے ایک چیف فنانشل آفیسر کو اپنے پروگرام میں بلایا تھا اور ان سے کامن پنشمنٹ کے بارے میں رائے لی تو وہ کہنے لگے کہ اگر میری پٹائی نہ ہوئی ہوتی تو آج میں کبھی چیف فنانشل آفیسر نہ بنتا ، میں نے ان سے کہا کہ پھر تو آپ کی پٹائی ہوتی رہنی چاہئے تا کہ کل آپ ایم ڈی بن جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں پر تشدد اور انہیں مارنے کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں مائنڈ سیٹ ہے۔ اس مہم کو ہم نے آگے بڑھانا ہے جس کے لئے میڈیا کا تعاون ناگزیر ہے کیونکہ بچوں کو مارنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا ان کے ساتھ زیادتی کرنا ہے۔ یہ قانون ضرور آئے گا۔