کراچی (اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ریونیو ڈیپارٹمنٹ سمیت سب ادارے چور ہیں،کسی کو نہیں چھوڑیں گے، سب کیخلاف کارروائی ہوگی، عمارتیں ابا کی زمین سمجھ کر بنائی گئیں، کراچی کی تعمیرات کورسک بنادیا گیا، سارے پروجیکٹ مٹی کا ڈھیر ہیں گر جائیں گے، کیماڑی کا برج گرنے والا ہے ، کراچی میں بلڈنگ گری، اتنے لوگ مرےمگر سب آرام کی نیند سوئے ہیں۔
جب تک ڈنڈا اوپر سے نہیں آتا آپ لوگ کام نہیں کرتے، گرین لائن کو تین سال ہوگئے، تین سال میں تو پورے ایشیاء میں سڑکیں بن جاتیں،ملک بھر کی کچرا بسیں کراچی میں چل رہی ہیں ، ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام ہی نہیں ہے، 6 ؍ماہ کا وقت ہے کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ بحال کریں، کوئی مزید مہلت نہیں ملے گی، جن لوگوں کو ہٹایا گیا کیا وہ غیر قانونی قابضین نہیں تھے؟ غیر ملکی حکمراں خاندان کے شخص نے اربوں لگائے تو کیا کریں ہمیں قانون دیکھنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل، غیرقانونی قبضہ، تجاوزات، کراچی سرکلر ریلوے(کے سی آر)سمیت مختلف معاملات سے متعلق کیسز کی سماعت کی۔
اس دوران صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی، میئر کراچی وسیم اختر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سرکلر ریلوےکی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پراٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ریلوے سمیت دیگر حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئےپہلا سوال کیا کہ بتایا جائے کراچی سرکلر ریلوے کب چلے گی؟ سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے گزشتہ سماعت کا آرڈر پڑھ کر سنایا اور کراچی ماس ٹرانسپورٹ پلان کی کاپی عدالت میں پیش کی۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ سی پیک کے تحت بہت سے منصوبے طے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فاضل بینچ کے سامنے ایک نقشہ بھی پیش کیاگیااور بتایا گیا کہ گرین لائن اور اورنج لائن منصوبے مکمل ہونے والے ہیں جبکہ ریڈ لائن منصوبے پر بھی کام تیزی سے جاری ہےورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک بھی پیسہ فراہم کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہاکہ جس طرح نقشے دیتے ہیں اس طرح کام بھی ہونا چاہیے، یہ فیوچر ٹرانسپورٹ پلان نہیں ہے، آپ خرچہ کرنا چاہ رہے تھے اور پیسہ بانٹنا چاہ رہے تھے۔
کانفرنس روم میں چیف جسٹس گلزار احمد اور بینچ کے اراکین جسٹس فیصل عرب اورجسٹس سجاد علی شاہ کو کراچی سرکلر ریلوےکی بحالی سے متعلق اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل اور چیف سیکرٹری سمیت سیکرٹری ریلوے و دیگر حکام نےبریفنگ دی ۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نےبریفنگ دیتےہوئے بتایا کہ سرکلر ریلوے کے 24 دروازوں میں سے 14 دروازےمسئلہ بن گئے ہیں، 14 دروازوں پر تجاوزات ہٹانا ممکن نہیں رہا البتہ ایک تجویز میں انہوں نے بتایاکہ 14 دروازوں کی بالائی گزرگاہیں بنائی جاسکتی ہیں بصورت دیگر 1995 کی سرکلرریلوےبحال کی تو گرین لائن اور اورنج لائن سب منصوبوں سمیت بہت کچھ ختم کرنا ہوگا۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی روداد سننے کے بعدچیف جسٹس گلزار احمد نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ساری تجاویز کولالی پاپ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیں اور کراچی سرکلر ریلوے بحال کرنے کیلئے 6ماہ کی حتمی مہلت دیدی اور واضح کیاکہ اسکے بعد ہم مزید مہلت نہیں دینگے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں یہ بھی کہاکہ سی پیک جاری رکھیں اس سےکے سی آر کا کوئی تعلق نہیں ہمیں کراچی سرکلر ریلوے ہرصورت میں بحال چاہیے۔ عدالت نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا مکمل منصوبہ اورشیڈول 26 مارچ کو طلب کرلیا۔
اورنج لائن اگلے سال تک آپریشنل کردینے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اس ماہ کیوں آپر یشنل نہیں ہوسکتا؟ آپ لوگ پیسے نہیں دیتے ناظم آباد چلے جائیں کوئی کام نہیں ہورہا ہے ہر وقت کوئی نہ کوئی بدلتا رہتا ہے لوگوں کو خواب دکھاکر انکی زندگی عذاب بنادی ہے لوگ مررہے آپ لوگ بین بجا رہے ہیں یہ سارے منصوبے مٹی کا ڈھیر ہیں گر جائینگے۔
جسٹس گلزار احمد نے مزیدریمارکس میں کہا کہ منصوبوں پرجو لوگ کراچی میں کام کررہے ہیں ان کو کراچی سے متعلق کیا معلومات ہیں؟ جتنے فلائی اوورز بنائے ہیں آپ خود ہی اگلے 5 سال میں گرا دینگے ملک کیلئے کام کریںجب تک ڈنڈا اوپر سے آتا نہیں آپ لوگ کام نہیں کرتےاس طرح کے تمام رویوں سے جان چھڑانی ہوگی۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ گرین لائن کی بسیں سڑکوں پر کب چلیں گی؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ بسیں چل رہی ہیں۔بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے جواب میں کہا کہ شام کو ناظم آباد چلے جائیں وہاں سے ائیرپورٹ 4 گھنٹے میں پہنچیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہاں 1955 والی بسیں چل رہی ہیں۔دوران سماعت فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ سرکلرے ریلوے کی زمین پر کسی کو متبادل جگہ نہیں دی گئی، سینکڑوں لوگوں کو ہٹایا گیا مگر متبادل کچھ نہیں ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں جن کو ہٹایا گیا کیا وہ غیر قانونی قابضین نہیں تھے، یہ تو حکومت کا کام ہے کہ متاثرین کو کیسے آباد کرنا ہے۔ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ صرف غریب لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں 90 فیصد لوگ غریب ہیں، عدالت نے تو سب کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا حکم دے رکھا ہے، آپ اندازہ کریں کہ یہ لوگ کتنے ظالم لوگ ہیں، لوگوں نے اپنے ابا کی زمین سمجھ کر عمارتیں بنا دیں، جن لوگوں نے عمارتیں بنائیں، ان سے پیسے کون لے گا۔
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا کہ جن بلڈرز نے یہ عمارتیں بنائیں ان سے پیسے کون لے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمشنر کراچی کہاں ہیں، کمشنر کراچی صاحب سن لیں بلا امتیازی کارروائی کریں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریلوے کی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کیا بنا،ہم ایک جمہوری معاشرے میں رہ رہے ہیں،کارروائی ہوگی تو سب کیخلاف ہو گی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ریلوے ملازمین کی اپنی ہائوسنگ سوسائٹیز ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریلوے کو کس نے اختیار دیا کہ وہ اپنے لیے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائے۔
علاوہ ازیں جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں رائیل پارک تجاوزات سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی ۔عدالت عظمیٰ نے رائل پارک تجاوزات سے متعلق ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق درخواست مسترد کردی۔
متاثرین کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کےوکیل نے بتایا کہ بلڈرز نے اربوں روپے کما لیے، وہ ہم سے کمائے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں، بلڈرز کیا کھیل کھیلتے ہیں، بلڈرز پیسے سے پیسے کماتے ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ یہی بات ہم کہہ رہے ہیں کہ بلڈرز نے کما لیا، ہم کہاں جائیں۔ رائل پارک کے وکیل کا کہنا تھا کہ رئل پارک کی منظوری قانون کے مطابق ہوئی، ناصر حسین عبداللہ لوتھا نے قانون کے مطابق زمین خریدی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پڑھیں دستاویزات، سروئے نمبر ہے ہی نہیں آپ کے پاس، 2010 میں زمین ایک دم سے آپ کو مل گئی اور سروے نمبر بھی نہیں۔ رائل پارک کے وکیل نے بتایا کہ ناصر حسین لوتھا دبئی کے حکمران طبقے سے ہیں، ناصر حسین لوتھا اب تک 5 بلین روپے لگا چکے ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی دبئی کا حکمران ہے تو ہم کیا کریں،ہمیں تو قانون دیکھنا ہے، ہمیں تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ زمین قانونی طور پر منتقل ہوئی یا نہیں، قانونی حیثیت ثابت کردیں ہمیں کسی سے کیا لینا دینا علاوہ ازیں جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہل پارک کی اراضی پر مکینوں کی درخواست کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ہل پارک تجاوزات کیس میں ہل پارک کا اصل نقشہ اور پلان طلب کر تے ہوئے کمشنر کراچی و دیگر حکام کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہل پارک کی زمین کا احاطہ کرنے کی ہدایت کردی ہے اورکمشنر کراچی کو 26 مارچ تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ ڈی جی پارکس نے قانون کے مطابق زمین فروخت کی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ڈی جی پارک کے پاس سے پیسے نکلے کیا معلوم نہیں۔
ڈی جی پارکس کے پاس اربوں روپے ایسے ہی تو نہیں آئے، زمینوں کی زمینیں بیچ دیں تو ایسے ہی اربوں روپے بنے، سب بہتی گنگا میں ہاتھ ڈال دیتے ہیںہل پارک کے دونوں اطراف قبضے نہیں تو کیا ہیں۔جو زمین خرید رہا ہے تصدیق کی ذمہ داری بھی تو اسی کی ہونی چاہیے لوگ کیوں نہیں تحقیق کرتے کہ زمین قانونی بھی ہے یا نہیں،لوگوں نے آسان راستہ نکال لیا کہ بس بغیر کسی تصدیق کے سستی زمین خرید لی جائے۔
علاوہ ازیں جمعہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں لارجر بنچ کے روبرو خاتون کی جانب سے برساتی نالے پر قبضے سے متعلق دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
سپریم کورٹ نے گلشن اقبال کے برساتی نالے پر قبضے سے متعلق دائر درخواست پر ڈپٹی کمشنر شرقی کو خاتون کا مسئلہ حل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔