• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین کا عالمی دن ۔ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا دن

میں ان مباحث سے اپنے آپ کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکا، جو عورت مارچ کے حق اور مخالفت میں جاری ہیں۔ اتفاق سے عالمی یوم خواتین کے موقع پر ہی یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں۔

 ایک طرف پاکستان کے مختلف شہروں میں خواتین مارچ سمیت دنیا بھر میں اس دن کی مناسبت سے منعقد ہونے والی تقریبات کی خبریں ٹی وی چینلز پر چل رہی ہیں اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر کچھ حلقے خواتین کی آزادی کے لئے بھرپور وکالت کر رہے ہیں اور کچھ اس آزادی کو مغرب کے ایجنڈے اور معاشرے کی تباہی سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن دونوں حلقے زیادہ تر اپنے مباحث میں خواتین کے حقوق کی تحریک کو تاریخ کے تناظر میں نہیں دیکھ رہے۔

خواتین کا سوال بنیادی طور پر معاشرے کے کمزور اور مظلوم گروہوں یا طبقات کے سوال جیسا ہے۔ جب بھی ان کمزور گروہوں یا طبقات کے حقوق کی بات ہوتی ہے، بالادست گروہ اور طبقات اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن چونکہ یہ ایک صنفی گروہ ہے، اس لئے اس کے حقوق کی بالادست طبقات کے ساتھ ساتھ وہ مرد بھی مخالفت کرتے ہیں، جو خود کمزور اور مظلوم طبقات یا گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

انہیں یہ دلیل گھڑ کے دی جاتی ہے کہ عورت کی آزادی سے معاشرہ تباہ ہو جائے گا حالانکہ وہ نہیں سمجھتے کہ جس معاشرے کے تحفظ کی وہ بات کر رہے ہیں۔ اس کی بقاء کا انحصار سماجی رشتوں سے زیادہ معاشی رشتوں پر ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوئے اور جن سے معاشرے بھی تبدیل ہو گئے۔ 

دوسری طرف خواتین بھی اپنے حقوق کی جدوجہد کو معاشرے کے دیگر محروم اور کمزور طبقات اور گروہوں سے الگ کرکے دیکھتی ہیں تو مغالطے اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔

کچھ حلقوں کو ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے پر سخت اعتراضات ہیں اور وہ اس کی ایسی تاویلیں کر رہے ہیں، جو انہیں اخلاقاً زیب نہیں دیتی ہیں۔ ان حلقوں کے جواب میں دوسرے حلقوں کے دلائل کو بھی سننا چاہئے۔ اس نعرے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عورت مادر پدر آزادی چاہتی ہے یا وہ انسانی سماج کے کسی بھی عہد کے رشتوں اور اقدار کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات کا احساس دلانا چاہتی ہیں کہ عورت کو مرد صرف ایک جسم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس جسم میں روح بھی ہے، جس کا احساس نہیں کیا جاتا۔ وہ روح یہ کہہ رہی ہے کہ یہ میرا جسم ہے۔ اس پر کسی اور کی مرضی نہیں چلے گی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس جسم کی شادی اس کی روح کی مرضی کے خلاف کر دی جائے اور اس سے پوچھا بھی نہ جائے۔ 

یہ کہاں کی اخلاقیات ہیں کہ اس جسم کو اس کی روح کی مرضی کے بغیر تعلیم حاصل نہ کرنے دی جائے اور روزگار کا موقع نہ دیا جائے۔ ایسے سماج کے تحفظ کی کیا ضرورت ہے کہ اگر اس جسم سے بیٹا نہیں پیدا ہو رہا تو اسے مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ 

اس سے نفرت کی جائے یا اسے طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیا جائے اور دوسرا جسم لے آیا جائے۔ اس جسم کو پوری روٹی بھی نہ دی جائے اور روٹی کے لئے کام کرنے کی بھی اجازت نہ دی جائے۔ اگر اس جسم پر کوئی تھوڑا سا شک ہو تو اسے تیزاب سے جلا دیا جائے۔ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کا مطلب یہ ہے کہ ایک جسم کے ساتھ اس کی روح بھی ہے۔

میں پھر وہی عرض کروں گا کہ خواتین کے حقوق کی جدوجہدکو تاریخ میں کمزور اور محروم طبقات اور گروہوں کی جدوجہد کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ویسے تو یہ جدوجہد بہت پرانی ہے لیکن حالیہ تاریخ میں خواتین کے حقوق کی ایک بڑی تحریک 1920کے عشرے میں چلی تھی، جب امریکہ اور بعض مغربی ممالک میں خواتین کو ووٹ کا حق اور دیگر حقوق کے مطالبے پر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ 

اسے تاریخ میں پہلی لہر (First Wave) کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے پہلے خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔ دوسری بڑی تحریک 1960کے عشرے میں خواتین کی آزادی کے لئے شروع ہوئی تھی اس وقت بھی ان تحریکوں کی اسی طرح مخالفت ہوئی تھی، جیسے آج ہمارے دورمیں ہو رہی ہے۔ ہمارے پیغمبر اسلامﷺ کو دنیا کے ایک بہت بڑے انقلاب کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ 

اس انقلاب میں غلاموں اور خواتین کو قبائلی معاشرے میں اُسے حقوق کی ضمانت دی گئی،جس کا تصور بھی اس عہد میں ناممکن تھا۔ پھر حضرت خدیجہ ؓ، حضرت فاطمہ الزہرہ ؓ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ، حضرت زینب بنت علی ؓ سمیت عالم اسلام کی خواتین نے جو رہنما کردار ادا کیا، اس کا بھی اس سماج میں تصور ممکن نہیں تھا۔

قیامِ پاکستان کی تحریک میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کا کرداد یاد رہیگا۔ شہید بینظیر بھٹو جب وزیراعظم بنیں تو ان کی بھی ایک حلقے نے یہ کہہ کے مخالفت کی کہ عورت حاکم نہیں بن سکتی۔ ملالہ یوسفزئی اور ہزاروں لاکھوں ملالائوں کا ملک آج پھر اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہا ہے تو بعض لوگ مخالفت کر رہے ہیں۔ 

بلکہ وہ ہر طرح روکنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں لیکن یہ معاشرہ آزاد ہوگا جب عورتوں اور مردوں کو برابری سے رہنے کا حق ملے گا۔ ان کی جدوجہد سے ملک میں کچھ قوانین بنیں گے اور ان پر عمل بھی ہوگا۔ بیگم ولی خان، مریم نواز اور بیشتر ملک میں اور باہر ڈاکٹرز، انجینئرز، پائلٹ اور دوسری تمام تدریسی کام کرنے والی خواتین ہمارا غرور ہیں۔ 

ایک جرمن خاتون تھیں، جنہوں نے خواتین کے حقوق کیلئے بہت کام کیا۔ ان کا نام Clara Zetkinتھا انہوں نے خواتین کے حقوق کی تحریک کو انسانی سماج میں تمام گروہوں اور طبقات کے حقوق کی تحریک کے تناظر میں دیکھا ہے اور اس پر بہت سے دلائل دیے ہیں یہ تحریک اس وقت تک کامیاب نہیں ہو گی، جب تک سماج میں معاشی استحصال اور ظلم رہے گا۔ 

خواتین کو اپنے عہد کی ترقی پسند اور جمہوری تحریکوں کا بھرپور حصہ بننا چاہئے۔ جس سماج کو ہم بچانا چاہتے ہیں، اسے عورت کی آزادی سے نہیں، غربت، بیروزگاری، بھوک، افلاس، معاشی استحصال اور سب سے اہم عورت کی معاشی مجبوریوں سے خطرہ ہے۔ 

ہر مرد کی طرح ہر عورت کا بھی ایک جسم ہے اور ہر مرد کی طرح ہر عورت کے جسم میں بھی ایک روح ہے۔ روح مرضی کا دوسرا نام ہے۔

تازہ ترین