• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاہے جتنا بےحس ہو جائوں اور زندگی کی طویل منازل طے کر لوں لیکن پھر بھی ان باتوں پہ جی دکھتا ہے، دل مجروح ہو جاتا ہے اور صبح ہی صبح طبیعت پر اداسی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ بلاشبہ اذیت کا یہ طویل عمل ہمیں بےحس بنا دیتا ہے لیکن بےحسی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہ ملک میری محبت ہے میں اس کی دھرتی پر کھیلتے، پڑھتے اور بھاگ دوڑ کرتے کئی دہائیوں کا سفر طے کر چکا ہوں لیکن اس کے باوجود میں کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ کیا کبھی میرا ملک مہذب ہو گا، کیا کبھی یہاں سے جہالت، تعویذ گنڈے والی پیر پرستی اور ہوس ختم ہو گی مان لیا کہ توہم پرستی اور ہوس انسانی فطرت ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سائنس کی ترقی توہم پرستی کا توڑ ہے اور تعلیم ہوس کو نکیل ڈالتی ہے لیکن میں اپنے ملک پر نگاہ ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ذہنی اذیت کا یہ ساماں اور انسانیت کی یہ تذلیل اسی طرح ہے جس طرح پچاس برس قبل تھی۔ جعلی پیر اور ظالم تعویذ گنڈے کا کاروبار کرنے والے اسی طرح معصوم بچیوں کو جلا رہے ہیں، انہیں مار پیٹ کر ان کی چیخوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جن نکالنے کے بہانے معصوم لڑکیوں کی عصمتیں لوٹ رہے ہیں، توہم پرست جاہل لوگوں سے تعویذوں اور جادو ٹونے کے نام پر ہزاروں روپے لوٹ رہے ہیں ان کی انساینت سوز خبریں ہر روز اخبارات میں پڑھ کر اور ٹی وی پر سن کر نہ ہمارے عقل کے اندھوں کی آنکھیں کھلتی ہیں نہ والدین بچیوں اور بچوں کو لیکر ان کے پاس جانے سے باز آتے ہیں نہ خواتین اپنے خاوندوں، سسرالیوں، سوتنوں یا دشمنوں کو زیر کرنے کے لئے تعویذ لینے کے لئے جعلی پیروں کے پائوں پکڑنے سے باز آتی ہیں، اکثر ان کی جنسی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں ریاست حسبِ معمول خاموش تماشائی ہے نہ ان جعلی پیروں کے خلاف قانون سازی ہوتی ہے نہ قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی ان کے اڈوں، گھروں اور دفتروں سے ان کی کرامات کے بورڈ ہٹائے جاتے ہیں۔ اشتہارات بھی چھپتے ہیں لیکن قوم بھی تماشائی، قانون بھی تماشائی اور انتظامی مشینری بھی تماشائی، ہر طرف ایک بےحسی کا عالم طاری ہے صرف ایک دن کے اخبارات میں یہ خبریں پڑھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ایک ظالم جعلی پیر نے جن نکالنے کے بہانے معصوم بچی کے جسم کے کچھ حصوں کو آگ سے جلایا، ایک پیر نے ایک بچے کو جن نکالنے کے بہانے اس قدر مارا اور اتنے ڈنڈوں کی بارش کی کہ اس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، ایک پیر نے تعویذ دیتے ہوئے عورت کی عصمت لوٹ لی، ایک نے جوان لڑکی پر ہاتھ صاف کرنا چاہا تو اس نے شور مچا دیا وغیرہ وغیرہ یہ صرف ایک دن کی چند شہروں کی خبریں ہمیں رلانے کے لئے کافی ہیں۔ مہینے بھر کے کارنامے جمع کروں تو کتاب بنتی ہے۔ بعض اوقات جعلی پیر اندر لڑکی کی عزت سے کھیل رہا ہوتا ہے اور والدین باہر بیٹھے جن نکلنے کے منتظر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی زمین این جی اوز کے لئے بہت زرخیز ہے۔ خواتین مارچ کے لئے بےتاب ہیں لیکن ایسے سنگدل جعلی پیروں اور تعویذ گنڈے کا کاروبار کرنے والے جادوگروں کے خاتمے کے لئے نہ کوئی این جی او ہے، نہ احتجاجی مارچ ہوتا ہے اور نہ ہی جاہل عوام میں آگاہی کی مہم چلائی جاتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ محکمہ اوقاف ان کے خلاف مہم شروع کرے؟ یارو کیا کہوں ان وارداتوں سے دل بہت دکھی ہوتا ہے، روح مجروح ہوتی ہے اور یقین کرو نیند اڑ جاتی ہے۔ یہ کراچی میں پہلی بار نہیں ہوا کہ کئی منزلہ پلازہ دھڑام سے ایک دم زمین بوس ہو گیا ہے۔ کتنے ہی معصوم لوگ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں، کتنے ہی رہائشی تین دنوں سے ملبے کے اندر دبے ہوئے ہیں اور ان کے لواحقین امید و یاس کی جان لیوا کیفیت سے گزر رہے ہیں اور سینکڑوں بےگھر ہو گئے ہیں۔ شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہو کہ کراچی میں ایسا سانحہ پورے ملک کو ’’سوگی‘‘ نہ بناتا ہو۔ گندم، آٹے، چینی مافیا کا رونا اور مہنگائی پر ماتم اپنی جگہ لیکن اس ہوس کا کیا کیجئے جس نے لوگوں کے دلوں میں بت بنا رکھے ہیں۔ دولت کی اندھی خواہش یومِ حساب اور خوفِ الٰہی سے بےنیاز کر دیتی ہے۔ پھر یہ دل میں ایک بت بنا دیتی ہے دولت کی اندھی محبت اور بےلگام خواہش اس بت کی پرستش کرنی شروع کر دیتی ہے لوگ بھول جاتے ہیں کہ بت پرستی کفر ہے، بت پرستی شرک ہے، یہ اس ہوس کے کارنامے ہیں کہ عمارتیں بنانے والے، پلازوں کے مالکان، ٹھیکے دار سب دولت کے انبار اکٹھے کرنے کےلئے ناپائیدار، کمزور اور نمائشی عمارتیں کھڑی کر دیتے ہیں اور لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سرکاری محکمے اور ملازمین نقشے بنانے والے، عمارتوں کی کوالٹی کا معائنہ کرنے والے سب کے سب جیبیں بھرنے کے لئے کاغذی کارروائی کرتے ہیں اور سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔ اس ہوس، کرپشن اور دولت اکٹھی کرنے کی اندھی خواہش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چند برسوں بعد پلازہ ایک دم سے مٹی کا ڈھیر بن جاتا ہے مارے جاتے ہیں غریب اور درمیانے طبقے کے مجبور خاندان۔ ہوس کے یہ پجاری بلاشبہ قاتل ہیں ہم ہر قسم کی قانون سازی کر رہے ہیں لیکن انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کیلئے سزائے موت کا قانون نہیں بناتے انکے خلاف نہ کوئی مارچ ہوتا ہے نہ احتجاج، دل بہت دکھی ہے کیا اس ملک سے کبھی جہالت اور ہوس کا خاتمہ ہوگا؟

تازہ ترین