• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’نصر پور‘ کپڑے کی صنعت اور کاشی گری کے کام کی وجہ سے معروف قصبہ

نصر پور ، قدیم تہذیب وتمدن کا حامل شہر ہے ، ’’مٹالوئی‘‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ حیدرآباد سے مشرقی سمت میں محض45کلو میٹر اور تالپور دور حکومت میں بسائے گئے شہر ٹنڈوالہ یار سے11کلو میٹر، جب کہ اس شہر کے نواحی علاقوں میں مٹیاری( متعلوی) پلی جانی، اڈیرو لال ، گوٹھ اللہ ڈنو ساند، تاج پور، ٹنڈوسموں واقع ہے۔یہ شہر صنعت و حرفت ، کاشی گری اور کپڑا سازی کی صنعت کی وجہ معروف ہے ۔ ماضی میں اسے ’’سندھ کے مانچسٹر‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔

نصرپور بلدیاتی ، حلقہ بندی کے تحت 8 وارڈوں پر مشتمل ہے۔ ان وارڈز کے محلوں میں نہ صرف مختلف برادریاں آباد ہیں بلکہ ہنرمندوں اور پیشوں کے حوالے سے بھی متعدد محلے خاصے معروف ہیں۔ یہاںمتعددمحلے، مارکٹیں، درگاہیں واقع ہیں ۔ ان میں سید محمود شاہ جیلانیؒ، ہاشم شاہ المعروف گل پیر اور معروف شاعر مصری شاہ کی درگاہ ہے، جس کے نزدیک 150سالہ قدیم کنواں واقع ہے جہاں سے ریاست جے پور کے راجہ کےلیےبذریعہ ٹرین میٹھا اور شفاف پانی جب کہ حیدرآباد سے سبزیاں، پھل اور اناج لے جایا جاتا تھا۔ اس ٹرین کو آج بھی ’’راجہ کی ٹرین‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

تاریخ کے اوارق بتاتے ہیں ’17ویں صدی عیسوی میں سیدوں کے کئی خاندان جو شہاب الدین شاہ جیلانیؒ کی اولاد میںسے ہیں، وہ بغداد سے ٹھٹھہ اور بعد ازاں نصر پور میں آکر آباد ہوئےاور ’’ حسینی سید‘‘ کہلائے۔ 13ویں صدی عیسوی میں اس شہر میں اہل تشیع بھی آکر آباد ہوئے۔شاہ عنایت اللہ رضوی، نصر پور کے معروف سندھی شاعر تھے، جن کی زندگی کا بڑا حصہ اسی شہر میں گزرا۔ ان کا مقبرہ نصرپور کے صوفی شاعر، مصری شاہ کے مزار کے ساتھ ہے۔ کہاجاتا ہے کہ1361-62کے دوران سندھ کو مکمل طور پر فتح کرنے والے سلطان فیروز شاہ تغلق نے سندھ کی باگ ڈور اپنے ایک نائب نصیر خان کو سونپی۔ 

نصیر خان نے یہاں جام خیر الدین سمہ کو اپنا حاکم مقرر کیا ۔وہ ’’ نصر‘‘ تھا اور2ہزار سوار اس کی کمان میںتھے ، اس لیے اسے ’’ فوجدار سندھ‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ڈی اینول کے مطابق نصر پور شہرنصیر خان نے دریائے سندھ کے کنارے آباد کیاتھا۔ اس شہر کو ترخان نے اپنی رہائش گاہ کے لیےناصرف پسند کیا بلکہ اپنے کنبہ کو یہاں بسایا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں لہلاتے باغ اور سر سبزگلستان تھے۔ لیکن جب دریائے سندھ نے اپنا راستہ تبدیل کیا تو سارے باغ اجڑ گئے،حتیٰ کہ یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتےوسیع و عریض شہر سے چھوٹی سی بستی میں تبدیل ہوگیا۔

کپڑے کی صنعت وتجارت کے حوالے سے یہ دنیاکا اہم ترین مرکز تھا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’ حضرت عیسیٰ‘‘ کو صلیب پر چڑھانے کے بعد انہیں جس کپڑے میں لپیٹا گیا وہ سندن کپڑا تھاجو نصر پور میں تیار ہوتا تھا،لیکن اس روایت کی تصدیق نہیں ہوسکی ۔نصرپور ماضی میں مختلف جدید شہروں کا ہم عصر رہا ۔ یہ شہر ٹھٹھہ کے مقابل بھی اپنی منفرد شناخت قائم رکھنے میں کام یاب تھا ۔ فتح محمد سہوانی نے بھی نصرپور کو امرکوٹ کا ہم عصر شہر قرار دیا تھا۔ محمد یوسف شاکر ابڑو کے مطابق عرب دور کے جدید شہر منصورہ سے ہندووں کی کثیر تعداد نقل مکانی کرکے نصرپور میں آباد ہوئی ۔ یہ شہر دہلی اور سندھ کے درمیان ایک تجارتی مرکزبھی تھا۔

شمس العلماءمرزا قلیج بیگ کے مطابق نصرپور ازسرنو 720 سے 1320 کے درمیان سمہ حکم رانوں نے آباد کیا۔ وہ اپنی تصنیف’’ قدیم سندھ ان جا مشہور شہر ’’ ماٹھو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’1520کے بعد’’ جب سندھ پر سومروں کا راج تھا اور دودوکی حکومت تھی، اس وقت محمد طور خان نکلا اور نصرپور تک اپنی حکومت کو وسعت دی۔ 1638ء کے دوران نادر شاہ سندھ آیا تو میاں نور محمد کلہوڑو اس کے استقبال کے لئے لاڑکانہ گیا ۔ میاں نور محمد کی وفات کے میاں محمد مراد یاب مسند نشین ہوا۔ 1759ء کے دوران میاں غلام شاہ کلہوڑو نے شاہ گڑھ سے نصرپور تک کا علاقہ حاصل کرلیا 1786ء کے دوران میاں عبدالنبی نے قلات کے خان کی مددیہ علاقہ فتح کرلیا۔ بعدازاں یہ تالپوروں اور انگریزوں کی حکومت کا اہم ترین مرکز رہا‘‘۔

نصرپور صنعت و حرفت کا مرکز رہاہے۔ زمانہ قدیم سے ہی یہاں انتہائی نفیس سوتی کپڑا تیار ہوتا تھا جب کہ کاشی گری کے کام میں بھی یہ ایران کے بعد دوسرا بڑا شہر بن گیا۔ بعض محققین کے مطابق ،یہاں کی ململ کا ذکر توریت میں ’’سندن‘‘ یا ’’سندس‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں بابل کا بادشاہ جو سوتی لباس زیب تن کیا کرتا تھا، وہ سندن ہی سے تیار کراتا تھا۔ روم کا بادشاہ اگسٹوس ، قسطنطنیہ اور روم کی شہزادیاں سندن سے تیار کردہ لباس شوق سے پہنا کرتی تھیں۔

9ویں صدی عیسویں کاعرب سیاح سلیمان تاجر اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ ’’یہاں کاسوتی کپڑا، اتنا نفیس اورملائم ہوتا ہے کہ ایک مٹھی میں آجائے‘‘۔ بدھ مت دورمیں سندھ خصوصاً ہالا اور اس کے اطراف میں تیار کردہ ململ، راجا کی اجازت کے بغیر باہر لے جانا ممنوع تھا۔ 18؍ویں صدی عیسوی میں سندھ کا خطہ تاج برطانیہ کے زیرنگین ہواتو انگریز سندھ بھر سے کپڑے کی خریداری کیا کرتے تھے۔نصرپور اس حوالے سے سرفہرست تھا۔سندھ کے عظیم صوفی بزرگ شاعر حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے’’ سر کا پاٹی‘‘ میںاسی صنعت کی ترجمانی کی ہے، بھٹ شاہ نصرپور سے چند کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

قدیم دور میں نصرپور میں کپڑے کی صنعت کے لئے کچا ریشم چین، ایران اور ترکمانستان سے منگوایا جاتا تھا، ریشمی کپڑوں پر سونے اور چاندی کے دھاگوں سے شان دار بھرت کا کام کیا جاتا تھا، جسے ’’کم خواب‘‘ کہتے تھے، نصرپور کے 30مربع کلومیٹرعلاقے میں ساڑھے 3ہزار سے زائد کارخانے تھے، جن میں سوتی و ریشمی کھیس، لنگی، پنج پٹو، موڑرا، اونی کپڑا، کھادی، سوسی، شوہی، جوڑی شوہی، اجرک تیار ہوتی تھیں۔ قیام پاکستان کے وقت سوت کا کوئی بھی کارخانہ نصرپور سمیت سندھ میں نہیں تھا، صرف احمد آباد اور کلکتہ میں یہ کارخانے موجود تھے اور وہیں سے تیار کردہ سوت نصرپور منگوایا جاتا تھا۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی نے نصرپور میں کپڑے کی بڑی مارکیٹ قائم کی۔ یہاں کی جفا کش خواتین گھروں میں بیٹھ کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں، جس کی وجہ سےگھریلو صنعتوں اور دست کاری کو فروغ حاصل ہوا۔کپڑے کی صنعت سے وابستہ مرد و خواتین کومعقول اجرت ملتی تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نصرپور کی کپڑا سازی کی صنعت دم توڑ گئی ہے۔ 1986ءمیں نصرپور کی کھیس سازی کی صنعت کو زندہ رکھنے کے لئے محکمہ ثقافت نے ’’تحفظ کھیس وہنر‘‘ نامی پروگرام شروع کیا تھا، مگر محکمے کے افسران کی عدم دل چسپی کے سبب اس منصوبے کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، جس کا یہ حقدار تھا۔ نصرپور میں صنعت و حرفت کی دم توڑتی سانسوں کو کاشی گری کے ہنر نے زندہ رہنے پر مجبور کیا ہوا ہے، کاشی گری کا فن 8سو برس پہلے اس شہر میں ایران سے پہنچا تھا۔سندھ میںحضرت لال شہباز قلندرؒ، سچل سرمست، ہلڑی شاہ کریم، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی سمیت لاتعداد درگاہوں، مزاروں، عمارتوں پر نصرپور کے کاشی گروں کی فن کارانہ مہارت کے شاہ کار نظر آتے ہیں۔ نصب ہیں۔ کاشی گری کے فن پارے چینی اورمٹی کے ظروف کی شکل میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

نصر پور کی گوناگوں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کی مخصوص مٹھائی ’’کھیر پیڑا‘‘ ہےجسے سب سے پہلے مقامی حلوائی مشتاق احمد میمن نے دودھ اور زعفرانی رنگ کی مدد سےتیار کیا تھا۔ یہ مٹھائی سندھ بھر کے عوام میں پسند کی جاتی ہے اور یہاں آنے والے افراد اس کی لذت سے اپنے کام و دہن کو تسکین دینے کے ساتھ اپنے اہل خانہ اور عزیزوں کے لیے بھی لے کر جاتے ہیں۔ اس شہر کے باسی اس مٹھائی کو سوغات کے طور پر اندرون و بیرون ملک مقیم اپنے عزیزو اقارب کو خصوصی طور سے بھجواتے ہیں۔

تازہ ترین