• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی اور کے بارے میں تو ظاہر ہے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ آپ نے یا کسی اور نے کیا محسوس کیا لیکن اپنے وزیراعظم کا یہ ’’اپیل‘‘ نما بیان پڑھ کے مجھ پر جو گزری، بیان نہیں کر سکتا۔ میں کوئی قادر الکلام قسم کا کالم نگار نہیں لیکن اچھا خاصا واجبی سا گزارہ کر لیتا ہوں۔

فالوورز بھی ماشاء اللّٰہ ملینز میں ہیں لیکن ایسی سچویشن کا سامنا کم کم ہی رہا کہ اپنی کیفیت بیان کرنے کے لئے لفظ نہ مل رہے ہوں اس لئے بغیر کسی تبصرہ کے صرف وزیراعظم کا بیان ری پروڈیوس کرتے ہوئے اتنا ہی کہوں گا کہ یہ ہے ہماری بہتر سالہ کل قومی کمائی کہ عمران خان جیسے شخص کو بھی کہنا پڑا’’ترقی یافتہ ممالک پاکستان جیسے ممالک کے قرضے معاف کرنے پر غور کریں‘‘۔

میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ ’’پاکستان جیسے‘‘ ممالک کیسے ہوتے ہیں اور ’’پاکستان جیسے‘‘ سے مراد کیا ہے؟ ملک میدانوں، پہاڑوں، صحرائوں، دریائوں، جنگلوں، سمندروں، بیابانوں، کھیتوں کھلیانوں وغیرہ کا مجموعہ ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی اصل اور حقیقی شناخت وہاں کے شہری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا بنیادی تعارف اس کے باسی ہوتے ہیں۔ 

مجھ کم فہم کے نزدیک پاکستان کا مطلب ہے پاکستانی یعنی میں اور آپ کیونکہ جغرافیہ اور جیالوجی وغیرہ تو نہ قرضے لیتے ہیں نہ چکاتے ہیں، نہ انہیں قرضے معاف کرانے میں دلچسپی ہوتی ہے تو میرے نزدیک وزیراعظم کی اس درد مندانہ اپیل کا مطلب یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے عوام ہم پاکستانیوں کے قرضے معاف کرنے پر غور کریں تو مجھے عربی زبان کا وہ محاورہ یاد آتا ہے جس کا فری سٹائل ترجمہ کچھ یوں ہو گا’’مقروض ذبح کئے گئے جانور کی مانند ہوتا ہے‘‘

۔پھر وہ بات بھی یاد آتی ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے، اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے برتر ہوتا ہے۔پھر اپنا ہی ایک ماہر اقتصادیات سابق وزیراعظم بھی یاد آتا ہے جس کا نام غالباً محمد علی تھا۔ اس نے عشروں پہلے کہا تھا کہ اگر قرضوں کا کلچر چل نکلا تو نوبت وہاں تک پہنچ جائے گی کہ قرضے چکانے کے لئے بھی قرضے لینے پڑیں گے۔ چشم بددور ہم نے یہ ہدف حاصل کر لیا جس کے نتیجہ میں آج ہمارے وزیراعظم کو سرعام سے بھی کچھ آگے جا کر یہ کہنا پڑا کہ ’’ترقی یافتہ ممالک پاکستان جیسے ممالک کے قرضے معاف کرنے پر غور کریں‘‘۔

کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایسا ہو جانے کے بعد (؟) ہم زیرو میٹر اور تازہ دم ہو کر نئے سرے سے قرضے لینے کے بعد پھر سے کسی کرونا وائرس کا انتظار کریں تاکہ اس کی بنیاد پر ایک بار پھر قرضے معاف کرانے جیسی درخواست داغ سکیں۔’’سہیلی ترا بانکپن لٹ گیا، آئینہ توڑ دے‘‘بیسیوں ملی نغمے میرے کانوں میں گونج رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کا حوالہ دینے کی ہمت نہیں۔ ہم اگر اپنی اجتماعی آپ بیتی لکھیں تو مناسب ترین عنوان ہوگا ’’قرضے سے کرونا تک‘‘۔ 

اس سے آگے میرے پَر جلتے ہیں، اس لئے اپنے پروڈیوسر فاروق کی ایک ’’آوارہ‘‘ سی نظم پر کالم تمام کرتا ہوں (ن م راشد سے معذرت کے ساتھ)’’کرونا تو تم بھی ہو، کرونا تو ہم بھی ہیں، کورونئے تو ہم سب ہیں ظلم بھی کرونا ہے، زیادتی بھی کرونا ہے، حق تلفی بھی کرونا ہے، بھوک بھی کرونا ہے، بھیک بھی کرونا ہے، قرض بھی کرونا ہے، بےکاری بھی کرونا ہے، کاروکاری بھی کرونا ہے، قبضہ بھی کرونا ہے، رشوت بھی کرونا ہے، بدکرداری بھی کرونا ہے۔

ان سے ہم نہیں ڈرتےبدمعاشی بھی کرونا ہے، گندگی بھی کرونا ہے، تجاوزات بھی کرونا ہے، کم تولنا بھی کرونا ہے، ملاوٹ بھی کرونا ہے، اسراف بھی کرونا ہے، نمود و نمائش بھی کرونا ہے، جہالت بھی کرونا ہے، جعلی ووٹ بھی کرونا ہے، ذخیرہ اندوزی بھی کرونا ہے، کرپشن بھی کرونا ہے، کمیشن بھی کرونا ہے، کک بیک بھی کرونا ہے، ٹی ٹی بھی کرونا ہے۔

ان سے ہم نہیں ڈرتےکرونا تو پروٹوکول بھی ہے، کرونا تو کشکول بھی ہے، کرونا تو ہڈ حرامی بھی ہے، کرونا تو کام چوری بھی ہے، کرونا تو سینہ زوری بھی ہے۔ان سے ہم نہیں ڈرتےدے جا سخیا راہِ خداترا اللہ ای بوٹا لاوے گا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین