کچھ دنوں قبل امریکہ کے موقر جریدے نیو یارک ٹائمزمیں شائع کردہ ایک مضمون بعنوان’’گاڈورسز کورونا وائرس‘‘ میری نظر سے گزرا، امریکی جریدے نے کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے تناظر میں دنیا کے مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی ویرانگی کو موضوع بنایا ہے۔ اسلئے میں نے ضروری سمجھا کہ اپنے اس کالم کے ذریعے دنیا کے ان تمام انسانوں کے موقف کی ترجمانی کی جائے جو دل و جاں سے سمجھتے ہیں کہ مذہبی تعلیمات پر عمل کرنا انسان کی نجات کا باعث ہے۔ صدیوں سے مسجد ، مندر، گرجاگھر ، درگاہ اور دوسرے مقدس مقامات کے دروازے دکھی انسانیت کیلئے کبھی بند نہیں ہوئے ، دنیا کی عارضی تکالیف سے دل برداشتہ لوگوں کا بہترین ٹھکانہ ایسے روحانی مقامات ہیں جہاں انسان خدا سے اپنا تعلق مضبوط کرتا ہے۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے مقدس مذہبی مقامات کی روایتی حیثیت پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے مقدس ترین شہرمکہ اور مدینہ بیرونی دنیا سے آنے والے عمرہ زائرین کے لئے تاحال بند ہیں، مقدس مقام کو صفائی اورجراثیم کش ادویات کے چھڑکاؤکیلئے عارضی طور پر بند کیا گیا جس کے باعث دنیا بھر کے مسلمانوں میںتشویش کی لہر دوڑ گئی،بہت سے مسلمان اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر رمضان المبارک کے مقدس مہینے اور حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔ اسی طرح ایران دنیا بھر کے زائرین کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے،تازہ اطلاعات کے مطابق ایران نے ملک بھر میں مذہبی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے اورعارضی طور پر نماز جمعہ کے اجتماعات روک دئیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کے مطابق کویت میں موذن لوگوں کو اذان میںمسجد کی جانب بلانے کی بجائے اپنے گھروں میں نماز کی ادائیگی پر زور دے رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر رواں برس ہولی کے رنگ بھی پھیکے نظر آئے ، بہت سے مقامات پر لوگوں نے ماسک پہن کر ہولی منائی، مختلف مندروں میں پرشاد دینے کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ یہودیوں کے مذہبی پیشوا نے بھی مقدس کتاب توریت کو چومنے سے گریز کرنے کی تلقین کردی ہے، مقبوضہ بیت المقدس کے تمام مذہبی مقامات بشمول مسجد اقصیٰ اور گرجا گھروں وغیرہ کو بند کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اٹلی میں واقع ویٹی کن شہر میں کرسچیئن پیشوا پوپ فرانسیس نے اتوار کے روایتی دعائیہ اجتماع میں کھڑکی میں آ کر دعا کرنے کی بجائے آن لائن انٹرنیٹ نشریات کا سہارا لیا۔امریکہ کے شہر واشنگٹن کے رہائشی پادری کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد بہت سے گرجا گھروں سے وابستہ پادریوں نے قرنطینہ اختیار کرلیا ہے، دنیا بھر کی عبادت گاہوں میں لوگوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملانے کی تلقین کی جارہی ہے۔ پاکستان میں بھی داتا دربار اور سیہون شریف جیسے عوامی مقامات کی تالہ بندی کردی گئی ہے جہاں صدیوں سے عقیدت مند اپنی روح کو تسکین پہنچانے کی خاطر حاضری دیتے آرہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کورونا وائرس جیسے مہلک وبائی امراض خدا کا عذاب ہوتے ہیں جو انسانوں کو خدا کی تعلیمات ایک مرتبہ پھر یاد دلانے کی غرض سے نازل کئے جاتے ہیں، ایسی آزمائشوں سے انسان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ خدا کے نزدیک ہوتا ہے یا موت کے ڈر سے خدا کے بندوں سے دور بھاگتا ہے، آج انسان چاند اور مریخ پرکمندیں ڈال رہا ہے لیکن اندر سے وہ اتنا کمزور ہے کہ دوسرے انسان کے قریب آنے سے گھبرا رہا ہے۔ آج دنیا بھر کا انسان کورونا سے ڈرتا ہے لیکن وہ خدا کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے سے نہیں ڈرتا۔ آج انسان خدا کے گھر بندکرکے یہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے کورونا جیسے عذاب سے اپنے آپ کو محفوظ کرلیاہے، میں سمجھتا ہوں کہ ایسی سوچ رکھنے والے خسارے میں ہیں کیونکہ دوا کے ساتھ دعا بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ آج ہمیں کورونا کے علاج کیلئے دوا ضرور تیار کرنی چاہئے لیکن خدا کی خوشنودی کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے، آج میڈیکل سائنس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ پاکیزگی اختیار کرنا ہی کورونا وائرس کا صحیح توڑ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپنے معاشرے سے برداشت، رواداری ، بھائی چارے اور خلوص کو ترک کرنے کا نتیجہ آج کورونا کی صورت میں سامنے آرہا ہے ۔ ہم سب کو خدا کے سامنے جھک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے، ہمیںمعصوم انسانوں پر ظلم کرنے سے گریز کرنا چاہئے، ہمیں دنیا کے ہر مذہب کو قابل احترام سمجھنا چاہئے، آج دنیا کے بیشتر مسائل کی بڑی وجہ مذہبی تعلیمات سے روگردانی ہے، ہم نے مذہب پر عمل کرنے کی بجائے ریاکاری اور دکھاوے کا آسان راستہ اپنا لیا ہے۔ کورونا جیسے وبائی امراض ماضی میں بھی تباہی مچاتے رہے ہیں لیکن موجودہ وائرس نے دنیا بھر کے مذہبی عقائدپر حملہ آور ہونے کی جسارت کی ہے،یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ آج انسان جغرافیائی سرحدوں اور مذہبی وابستگی سے بالاتر ہوکر مشترکہ خطرے سے نبرد آزما ہونے کیلئے ایک دوسرے کے تعاون کا طلبگار ہے۔میرےخیال میں خدا کے گھروں کا یوں بند ہونا خدا کی ناراضگی بھی ظاہر کرتا ہے، ہمیں چاہئے کہ ہم گھروں میں بیٹھ کر خدا کو راضی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہمیں مستقبل میں ایسے موذی مرض کا کبھی سامنا نہ کرنا پڑے اور خدا کا گھر ہمیشہ انسانوں سے آباد رہے۔ آج ہمیں ہرطرف کورونا کی عارضی فتح نظر آتی ہے لیکن خدا کے ماننے والے کسی صورت شکست نہیں کھا سکتے، مجھے یقین ہے کہ کورونا کا بحران لوگوں کو خدا اور مذہب کے قریب لانے کا باعث بنے گا جس کی بدولت خدا کی اس خوبصورت دھرتی میں آخرکارامن و محبت کا بول بالا ہوجائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)