• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بہاولپور سیکرٹریٹ کا اعلان، عملدرآمد کب ہوگا؟

وزیراعظم کی صدارت میں ارکان اسمبلی میں علیحدہ سیکریٹریٹ بنانے اور اس کے صدر مقام بہاول پور کو بنانے کے حوالے سے فیصلہ ہوگیا ہے لیکن آثار یہی بتاتے ہیں کہ اس پر عمل درآمد کی نوبت مستقبل قریب میں نہیں ہوگی ، پنجاب کے دو بڑے ڈویژنوں میں اس فیصلے پر شدید مخالفت شروع ہوگئی ہے ملتان اور ڈیرہ غازیخان ڈویژن کے سیاسی و سماجی حلقوں ،قوم پرست تنظمیوں ،تاجروں ،صنعت کاروں ، وکلاء ، سیاسی عہدیداروں کارکنوں اور پی ٹی آئی کے اپنے حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے ، اور حکومت کی اس فیصلے کی شدیدمخالفت کی جارہی ہے اس لیے یہ ممکن نظر نہیں آرہا کہ حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کر سکے ،سیاسی مبصرین کا خیال یہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف پرجنوبی پنجاب علیحدہ سیکرٹریٹ کے حوالے سے مسلسل دباؤ بڑھ رہا تھا ، اسے کم کرنے کے لیے یہ اعلان کیا گیا ہے تاکہ وقتی طور پر اس دباؤ پر قابو پایا جا سکے لیکن یہ اعلان بھی پہلے اعلانوں کی طرح ثابت ہوگا اور اس پر عمل درآمد کی نوبت کم ہی آئے گی ،یادرہے کہ وزیراعظم عمران خان پہلے بھی اعلان کر چکے ہیں اور گزشتہ سال جولائی میں ملتان سیکریٹریٹ نے علیحدہ سے کام شروع کرنا تھا لیکن وہ اب تک فعال نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے عوامی پریشر بڑھ رہا تھا اور جنوبی پنجاب کے عوام کی جانب سے خصوصی ملتان اور ڈیرہ غازی خان کی جانب سے یہ بہت مطالبہ سامنے آ رہا تھا۔ 

اب ایک متنازعہ فیصلہ کر کے اس معاملے کو مزید کھٹائی میں ڈالنے کی کوشش کی گئی،اس فیصلہ کی وجہ سے سب سے زیادہ تنقید مخدوم شاہ محمود قریشی پر کی جارہی ہے اور مقامی حلقے تو انہیں وسیب کا غدار تک کہہ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملتان کا سپوت ہونے کے باوجود انہوں نے وزیر اعظم کی زیرصدار ت ہونے والے اجلاس میں ملتان کا کیس صحیح طور پر نہیں لڑا ،اور بہاول پور میں سیکرٹریٹ کے قیام کے فیصلہ کو منظور کیا ،دوسری طرف شاہ محمود قریشی کے قریبی حلقے اس فیصلہ کو تاریخی قرار دے رہے ہیں اور وہ شاہ محمود قریشی کو خطہ کے ہیرو کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ انہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کے لئے سنگ بنیاد رکھ دیا ہے ،ان کی جانب سے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ بہاول پور تحریک چلانے والوں کو رام کرنے کے لئے وقتی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے ،بالآخر سیکرٹریٹ اور صوبے کا صدر مقام ملتان ہی ہوگا۔

مگر مقامی حلقے ان کی یہ دلیل ماننے کو تیار نہیں ،ان کا کہنا ہے کہ سیاسی مصلحتوں اور ذاتی ضرورتوں کو اولیت دے کر خطہ کے مرکزی اہمیت کے حامل شہر کو نظرانداز کیا گیا ہے ،جہاں صدرمقام کے لئے تمام درکار سہولیات و وسائل بھی موجود ہیں ، پی ٹی آئی میں موجود شخصیات اپنے اپنے شہروں کے لیے اتنے بڑے فیصلے کو متنازعہ بنائے ہوئے ہیں؟ کیا یہ ضروری ہےکہ صدر مقام کا تعین کرتے ہوئے اتنے مسائل میں الجھا جائے؟ یہ آج سے نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے طے شدہ امر ہے کہ جنوبی پنجاب کا جب بھی صوبہ بنے گا ، تو اس کا صدر مقام ملتان ہوگا ، ایسے طے شدہ معاملات کے باوجود اگر صرف اس نکتہ پر اختلاف پیدا کیا جاتا ہے تو اس میں نیت کا فتور نظر آتا ہے، پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ میں شاہ محمود قریشی سمیت مقامی سیاستدانوں سے کوئی رائے لی ہی نہیں گئی ،وزیر اعظم عمران خان نے بظاہر تو یہ اجلاس مشاورت کے لئے بلایا ،مگر وہاں صرف فیصلہ ہی سنایا گیا ، شاہ محمود قریشی اور سمیع گیلانی نے رائے دینا چاہی تو ذرائع کے مطابق انہیں روک دیا گیا۔

بعدازاں اس فیصلہ کو متفقہ کارنگ دینے کے لئے شاہ محمود قریشی کو آگے کیا گیا اور انہیں ’’ حکم ‘‘ دیا گیا کہ وہ اس فیصلہ کے حوالے سے پریس کانفرنس کریں اور طوہاًً کروہاًً اس کا اعلان کرنا پڑا ، اس سے سارا بوجھ ان پر عائد ہوگیا اور مقامی حلقوں کی تنقید کی زد میں وہ آگئے ، گزشتہ ہفتہ وہ ملتان آئے تو وہ ہر جگہ اس فیصلہ کی وضاحت کرتے ہی نظر آئے ، ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب صوبے کی طرف آگے بڑھنے کے لئے 2سیکرٹریٹ بنانے پر اتفاق ہوا، غلط فہمیاں نہ پھیلائی جائیں ،سیکرٹریٹ ملتان اور بہاول پورپر مشتمل ہوگا ، صوبے کا دارلخلافہ کہاں ہو گا اس کا فیصلہ اس خطے کی نئی بننے والی اسمبلی کے اراکین کریں گے،مگران کی یہ وضاحتیں مقامی حلقوں کو مطمئن نہیں کرسکیں ،کیونکہ دوسری طرف طاہر بشارت چیمہ کا کہنایہ تھاکہ سیکرٹریٹ بہاول پور میں ہی ہوگا اور وزیر اعظم نے دوٹو ک انداز میں یہ کہہ دیا ہے۔

اس صورتحال کی وجہ سے ابہام پیدا ہوگیا ہے ، مقامی حلقوں کاکہنا ہے کہ صرف تاخیر ی حربے ہیں تحریک انصا ف علیحدہ صوبہ یا علیحدہ سیکرٹریٹ بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ،اس لئے جان بوجھ کر اس معاملہ کو متنازعہ بنادیا گیا ہے ،اس طرح یہ نیا تنازعہ کھڑا کرکے تحریک انصاف باقی ماند ہ مدت بھی گزارنا چاہتی ہے اور اگلے قومی انتخابات میں عوام کے سامنے اس کا سارا ملبہ مقامی سیاستدانوں کی چپقلش کا نتیجہ قرار دے کر ایک بار پھر عوام کی سادگی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی ۔سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ تحریک انصاف کب تک چلاسکتی ہے ، کیونکہ اب یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ تحریک انصاف نے صرف الیکشن جیتنے کے لیے علیحدہ صوبہ کاشوشہ چھوڑا تھا ،اب اس متنازعہ فیصلہ نے اس پر مہر ثبت کردی ہے ۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بہاول پور میں پی ٹی آئی کو شکست ہوئی تھی جبکہ ملتان میں پی ٹی آئی نے تقریباً کلین سویپ کیا تھایہاں سے تعلق رکھنے والے اراکین علیحدہ سیکرٹریٹ ملتان میں قیام کے حوالے سے کوشاں رہے ،اس فیصلے پر انہوں نے بظاہر تو سر تسلیم خم کیا ہے ،مگر ان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ کو انہوں نے بھی مایوس کن قرار دیا ہے ،ان کا کہناہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو کیا جواب دیں گے ۔ ادھر مخدوم جاویدہاشمی بھی اس فیصلہ پر کافی نالاںنظر آئے ،ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ پر سب کو یوم سیاہ منانا چاہیے جنوبی پنجاب سب سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنانے سے صوبے کی تحریک کو بہت نقصان پہنچے گا ملتان کی گلی گلی میں جنگ چھڑ جائے گی، اس تاریک فیصلے پر بہاولپور کی عوام بھی خوش نہیں ہے تحریک انصاف اب جنوبی پنجاب سے ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکے گی بد قسمتی سے ملتان کے سیاست دانوں نے بھی آج تک اپنے شہر کے لیے کچھ نہیں کیا،صوبہ بنانے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس سے کبھی بھی صوبہ نہیں بن سکتا۔

تازہ ترین
تازہ ترین