• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں برطانیہ میں کم عمر نوجوانوں سے متعلقہ دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے چونک جانا یا خوفزدہ ہوجانا ہر ذی فکر اور ذی حس شہری کے لئے لازمی امر ہے۔ ایک واقعہ 16 سالہ نوجوان سے متعلق (نام مخفی رکھا گیا ہے) اخبارات کی سرخی بنا۔ نارتھمٹن شائر میں رہنے والے ایک 16 سالہ نوجوان کو برطانوی پولیس نے FBI کی نشاندہی پر حراست میں لے لیا۔ یہ نوجوان انٹرنیٹ پر اپنے سکول میں قتل عام کی خود تیار کردہ منصوبہ بندی کی بابت بتا رہا تھا کہ کس طرح وہ ہینڈ گنز کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سکول میں ایک بڑی خون ریزی کرنے کے بعد خود کو بھی ختم کردینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انٹرنیٹ پر کسی شخص سے چیٹنگ کے دوران اُس نے بتایا کہ اب سے ٹھیک 20 منٹ کے بعد وہ ایک میگنم 44 ریوالور ایک Bavelta 92 اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ مسلح ہوگا۔ اُس نے بتایا کہ وہ شوٹنگ یا قتل و غارت گری کے اس سلسلے کو پولیس کے پہنچنے تک جاری رکھے گا اور آخر میں خود کو بھی ختم کرلے گا۔ اُس نے اپنی متعدد تصاویر بھی جن میں وہ مختلف ہتھیاروں سے مسلح ہے ایک سوشل ویب سائٹ پر پوسٹ کی ہیں۔اِس سے پیشتر کہ یہ نوجوان اپنے اس خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہناتا یہ اطلاع امریکی FBI کو مل چکی تھی اور آناً فاناً یہ انفارمیشن برطانوی پولیس تک پہنچ چکی تھی اور یوں 26 فروری کو اس نوجوان کو پولیس نے حراست میں لے کر ذہنی نگہداشت کے ایک یونٹ میں منتقل کردیا۔ پولیس نے اس نوجوان کے گھر پر چھاپہ کے دوران ایسے کیمیکلز کے کنٹینر برآمد کئے جو کہ حملے کے لئے گن پاؤڈر بنانے میں استعمال ہونے والے تھے۔ دوران تلاشی نوجوان کے گھر سے ایسا اشاعت شدہ مواد بھی برآمد ہوا جو اس دہشت گردی کے منصوبے کی تیاری میں مددگار ثابت ہوسکتا تھا مثلاً بم بنانے کی گائڈ، ”داٹیررسٹ ہینڈ بک“ "The Terrorist handbook" اور The CIA Explosions for sabutage mannal" وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی پولیس نے اس چھاپے کے دوران متعدد ڈائریاں اور ہاتھ کے لکھے ہوئے نوٹس جو کہ سکول میں کی جانے والی خونریزی کی منصوبہ بندی سے تعلق رکھتے تھے برآمد کئے۔ نوجوان کے بنائے ہوئے اس منصوبے کے نقشہ جات اور نوٹس میں باقاعدہ کلاس رومز، ڈیسکوں اور اُن پر بیٹھے ہوئے وہ سارے سٹوڈینٹس کا نقشہ بنایا گیا تھا جو اِس مبینہ کارروائی میں نشانہ بننے والے تھے۔
بعد ازاں تحقیقات سے جو شواہد سامنے آئے اُن کے مطابق یہ نوجوان اپنے ہم عمروں اور اپنے ہم جماعتوں کی بلنگ کا شکار تھا اور خود کو اُن سے کم تر اور کمزور محسوس کرتا تھا۔ اُس کے کلاس فیلوز اسے اپنے ساتھ سوشل سرگرمیوں میں شامل نہیں کرتے تھے جبکہ ڈاکٹروں کا کہنا یہ بھی ہے کہ وہ Asperger syndrom اسپرجرسنڈرم کا بھی شکار ہے۔ ڈاکٹرز اور ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سکول شوٹنگ کے واقعات اور سیریلز کلرز سے متاثر ہو کر اُس نے اس قسم کی فینٹسی یا تخیل پسندی کو اختیار کیا ہے۔ نوجوان نے خود بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ سب اُس کے لئے ایک فینٹسی تھا۔
دوسرا واقعہ گو کہ اپنی نوعیت میں اُس سے مختلف ہے لیکن وہ بھی دل ہلا دینے والا ہے۔ کوبھم کینٹ کا رہائشی ایک 16سالہ نوجوان چارلی بوتھ جو اپنے سکول کا ذہین ترین طالب علم اور رگبی اور فٹبال کا بہترین کھلاڑی تھا نے اپنے باپ کی گن سے خود کو شوٹ کرکے خودکشی کرلی۔ زندگی سے بھرپور نوجوان چارلی بوتھ نے اپنی موت سے 24 گھنٹے پہلے 7 مارچ بروز جمعرات 6 بجکر 45 منٹ پر انٹرنیٹ پر ایک مختصر سا پیغام لکھا ہے ”میں نہیں جانتا وجہ کیا ہے مگر میں اس وقت انتہائی خراب موڈ میں ہوں اور مجھے اس کیفیت سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے“۔
اس سے پہلے چارلی نے ٹیوٹر پر یہ میسج لکھا تھا:
"Hopefully my last ever maths exams done:)"
بروز 28فروری چارلی کا ایک اور پیغام اُس کی گہری اداسی کی طرف اشارہ کرتا ہے "Everything seems to turn into an arguments"
چارلی بوتھ کی موت پر سکول کی ہیڈ ٹیچر ڈیوڈ گریگز کا کہنا ہے ”چارلی اپنی قوتِ ارادی اور قائدانہ صلاحیتوں کی بناء پر دیگر طالب علموں سے الگ اور نمایاں نظر آتا تھا۔“
ان دو واقعات سے پیشتر بھی برطانیہ میں ٹین ایجرز کی خودکشیوں کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں سے ایک واقعہ 16 سالہ برٹش ایشن ازابیل نارائن کی خودکشی کا بھی ہے۔ ازابیل نارائن نے آن لائن ڈرگز خریدی تھیں اور ان ڈرگز کے ذریعہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔خودکشی کے یہ رجحانات، نوجوان کے پرتشدد رویئے اور اپنے کلاس میٹ کے خلاف بلنگ کے واقعات آج برطانوی معاشرہ کا ایک توجہ طلب مسئلہ ہے جو خطرناک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اپنے سکول کے ساتھیوں یا اردگرد کے ہم عمر افراد کے پر تشدد رویئے نوجوانوں کو شدید ذہنی بحران یا ڈپریشن میں مبتلا کردیتے ہیں۔
اسی طرح 9 سالہ بچے کی خودکشی کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں پیش آچکا ہے جس نے برٹش ایشیائی بچوں کی بلنگ سے تنگ آکر خودکشی کی۔ ٹین ایجرز میں بے چینی، غصہ اور تشدد کا رجحان کئی قسم کی نفسیاتی الجھنوں کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ 13 سال سے لے کر 20 سال کا عرصہ حیات عمر کا انتہائی اہم دور ہوتا ہے جو کہ شخصیت سازی کا دور کہلاتا ہے۔ نوجوانوں میں پایا جانے والا یہ ذہنی انتشار معاشرے میں پائی جانے والی کسی منفی تبدیلی کی طرف بھی اشارہ کررہا ہے۔
والدین کے پاس اپنے بچوں سے بات کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔ سوشل نیٹ ورکنگ کا چھا جانا بھی اِس بات کی علامت ہے کہ معاشرتی زندگی میں اور خاندانی روابط میں ایک دوسرے کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔ گینگ کلچر، نوجوانوں میں منشیات کا استعمال، تشدد اور جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحانات آج برطانوی معاشرے کیلئے لمحہٴ فکریہ ہیں۔
اگرچہ برطانیہ میں بچوں اور ٹین ایجرز کی سیف گارڈنگ اور ویلفیئر میں متعدد آرگنائزیشنز انتہائی فعال کردار ادا کررہی ہیں جن میں سکول، کالج سوشل کیئر ڈیپارٹمنٹ، پولیس، NSPCC، یوتھ سروسز اور متعدد رفاعی تنظیمیں شامل ہیں۔ NSPCC برطانیہ بھر میں چائلڈ لائن سروس کو بھی آپریٹ کرتی ہے اور کسی بھی طرح کی بلنگ اور چائلڈ abuse کے واقعات وسائل سے نمٹنے کی ذمہ دار ہے۔ لیکن اس کے باوجود برطانیہ میں بلنگ اور harassments کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور عام طور پر ٹین ایجرز اور بچے اپنے ہم عمروں اور ہم جماعتوں کے تشدد یا بلنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔ سائبر بلنگ کے امکانات اور خطرات بھی آج معاشرہ میں بہت بڑھ چکے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے جہاں معاشرہ میں بہت سی مثبت تبدیلیوں کو جنم دیا ہے وہاں بہت سے خطرناک مسائل کا بھی سامنا ہے۔ والدین کی عدم نگرانی میں انٹرنیٹ کا استعمال مضر رساں امکانات اور نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ اس قسم کے مضرات میں بلنگ، ذاتی معلومات اور شناخت کا اجنبی لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا یا چوری ہوجانا، تشدد اور پونو گرافی، سیکس گرومنگ، ڈرگز اور الکحل وغیرہ کی آن لائن خریداری اور دیگر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونا شامل ہے۔
Asperger Syndromاسپرجر سنڈرم کے شکار نوجوانوں کے لئے بھی خاص توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے انہیں مدد اور حوصلہ افزائی درکار ہوتی ہے تاکہ وہ اپنی زندگی کو درست سمت اور صحیح سوچ کے ساتھ بہتر طور پر گزار سکیں۔ ٹین ایج یا عہد بلوغت میں اسپرجرسنڈرم کا شکار افراد کے لئے اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ معاشرتی روابط میں دشواری پیش آتی ہے اور اُن کے لئے دوسروں کے رویوں کو سمجھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اُن کے اندر اپنے ہم عمروں سے دوستی کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی شرمیلا پن اور اندرونی جھجک بھی پائی جاتی ہے۔ انہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح ہوشیار اور چاق و چوبند نہیں ہیں اور یہ احساس اُن میں ایک طرح کی محرومی، احساس کمتری اور ذہنی بے چینی پیدا کردیتا ہے۔
چارلی بوتھ جیسے ذہین اور باصلاحیت نوجوان کی خودکشی کا واقعہ کسی اندرونی کرب اور احساس تنہائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔جبکہ دوسرا واقعہ وہ ہے جس میں ایک نوجوان اپنے سکول میں دہشت گردی اور خونریزی کرکے خود کو مارڈالنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس سارے خطرناک کھیل کو وہ 16 سالہ نوجوان اپنی ایک فینٹسی سے تعبیر کررہا ہے۔ وہ Asperger Syndrom کا بھی شکار ہے اور اپنی آس پاس کی دنیا میں اپنی ذات کے اظہار اور اپنی محرومی کا انتقام لینے کے لئے ایک خطرناک راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ سارے واقعات اور ان کے پیچھے موجود حقائق و عوامل برطانوی معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔
تازہ ترین