• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی خالد محمود

کفارِ مکہ نے جب آقائے نامدار، فخر موجودات، امام الرسل، خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی بات ماننے سے انکار کردیا ، صرف انکار ہی نہیں کیا، بلکہ مسلسل آپ ﷺ کو اِن کفار کی طرف سے اذیتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے طائف کا رخ کیا کہ شاید وہاں کے باشندے آپ کی بات سن لیں، مگر طائف والوں کی طرف سے آپ کو بڑا سخت اور اذیت دہ جواب ملا، طائف والوں نے ایذا رسانی میں مکہ والوں سے پیچھے رہنا گوارہ نہ کیا، اوباش لڑکے آپ کے پیچھے لگادیئے، آپ پر سنگ باری کی گئی ، آپ کو لہولہان کردیا گیا، نعلین مبارک خون سے رنگین ہوگئے، یہ بڑا المناک دن تھا ، واپس آتے ہوئے آپ ایک باغ میں نڈھال ہو کر بیٹھ گئے اور اللہ کے حضور اپنی عاجزی اور کمزوری، بے سروسامانی اور قوت کی کمی کی فریاد کی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : میں نے ایک مرتبہ عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! آپ پر اُحد سے زیادہ سخت دن کوئی گزرا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری قوم سے جو تکلیف مجھے پہنچی سو پہنچی، مگر سب سے زیادہ سخت دن وہ گزرا جس دن میں نے عبدیالیل کے بیٹے کے سامنے اپنی دعوت پیش کی اور اس نے میری بات رد کردی ، میں وہاں سے نہایت غمگین واپس ہوا‘‘۔

طائف میں انسانیت کے نجات دہندہ نے کرب و اضطراب کی آخری حد کو چھولیا ، مخالفین نے ہر ممکن کوشش کرلی، باطل نے اپنا پورا زور ختم کردیا تو اب حق سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے طلوع سحر کی نوید آئی ۔ نصرتِ الٰہی کی صبح نمودار ہوئی اور اللہ نے آپ کو مقامِ رفیع اور بلند مرتبہ سے سرفراز فرمانے کے لیے اپنے قرب خاص سے نوازا ،اور اپنے پاس معراج پر بلالیا۔ قرآن کریم نے معراج کے واقعہ کو سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ النجم میں بیان کیا ہے۔

معراج کا واقعہ مستند روایات کے مطابق رجب کی ۲۷ (ستائیس) تاریخ یعنی ۲۶ اور ۲۷ تاریخ کی درمیانی شب سن ۱۲ نبوی کو پیش آیا۔اس واقعہ کو ’’اسراء ‘‘اور ’’معراج‘‘ کہتے ہیں۔اسراء کے لغوی معنی ہیں رات کو چلانا یا لے جانا ،جب کہ اصطلاح شریعت میں اسراء کے معنی ہیں رات کے ایک حصہ میں رسول اللہ ﷺکا مسجد حرام (خانۂ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک براق پر تشریف لے جانا ہے، یہ زمینی سفر تھا اور چونکہ رات کے وقت ہوا تھا، اس لیے اسے اسراء کہا جاتا ہے۔جبکہ لفظ ’’معراج‘‘ عروج سے ہے اور عروج کے معنی چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں ،جب کہ ’’معراج‘‘ کے معنی زینے اور سیڑھی کے ہیں۔اصطلاح شریعت میں معراج سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم ﷺکو رات کے ایک مختصر حصے میں روح اور جسم کے ساتھ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس )سے ساتوں آسمانوں اور جنت ودوزخ کے مشاہدات اور سیر کرائی گئی اور آپ ﷺوہاں تک پہنچے جہاں تک اس سے قبل کوئی بشر نہیں پہنچا۔ آپ ﷺنے وہ کچھ مشاہدہ کیا جو اب تک دوسرے انبیاءؑ نے بھی نہیں کیا تھا۔ ان مشاہدات میں سب سے اہم، اعلیٰ اور ارفع مشاہدہ یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ، اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے ۔آپ ﷺنے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ، جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ، بے شک وہ ہر بات سننے والی اور ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے‘‘۔(سورۂ بنی اسرائیل،آیت۱)جب کہ معراج یعنی آسمانوں پر جانے اور دیدار الٰہی سے مشرف ہونے کا تذکرہ سورۃ النجم کی ابتدائی آیات میںہے۔

واقعہ اسراء و معراج چار مراحل پر مشتمل ہے۔سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ آپ ﷺکے ساتھ اس سفر میں مسجد الحرام سے لے کر ساتوں آسمانوں کی سیر دیدار الٰہی اور پھر مکہ مکرمہ واپسی تک کیا حالات پیش آئے؟دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اس سفر میں آپ ﷺنے کچھ ایسے عجائب قدرت کا مشاہدہ کیا کہ جن میں آپ کو اچھے اعمال کی جزاء اور بُرے اعمال کی سزا مثالی شکل میں دکھائی گئی۔تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ اس سفر اسراء معراج کے مقاصد کیا تھے؟ چوتھا مرحلہ یہ ہے کہ جب آپ ﷺنے یہ واقعہ بیان فرمایا تو کفار مکہ اور مسلمانوں کا کیا ردِّ عمل تھا اور اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا کیا کردار تھا؟

جہاں تک پہلے مرحلے کا تعلق ہے کہ سفر معراج میں کیا کیا اُمور کس کس طرح پیش آئے،اس کی تمام تفصیلات اور کیفیات تو اس مختصر جگہ میں بیان نہیں کی جاسکتیں، البتہ احادیث نبویہ اور تاریخی روایات کے مطابق جن اُمور کا تذکرہ آیا ہے اور ان کی جس قدر کیفیت بیان کی گئی ہے، ان کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے:ماہ رجب کی ستائیسویںشب آپ ﷺاپنی چچا زاد بہن اُمِّ ہانی ؓکے گھر محو استراحت تھے۔مکان کی چھت شق ہوئی، اس میں سے حضرت جبرائیلؑ وارِد ہوئے اور آپ ﷺکو اُٹھایا۔کچھ سوتے کچھ جاگتے (نیم بیداری) کی حالت میں آپ ﷺ کو مسجد الحرام میں حطیم میں خانہ کعبہ سے بالکل متصل زمزم کے کنویں کے قریب لٹا دیا گیا۔ اب آپ مکمل طور پر بیدار تھے اور تمام حالات کا مشاہدہ فرمارہے تھے۔آپ کے سینہ مبارک کو حلق کے گڑھے سے لے کر ناف تک چاک کیا گیا، آپ ﷺکا قلب مبارک نکال کر اسے زمزم کے پانی سے بھرے ہوئے ایک سونے کے طشت میں دھویا گیا، پھر ایک اور طشت آیا جس میں ایمان وحکمت اور نور نبوت تھا، وہ قلب میں بھر دیا گیا اور پھر قلب اطہر کو اس کے اصلی مقام پر رکھ کر آپ ﷺکا سینہ دُرست کردیا گیا۔آپ ﷺکے سامنے ایک سفید جانور لایا گیا جو جسامت میں گھوڑے سے کچھ چھوٹا تھاجس کا نام ’’بُرَّاق‘‘ تھا۔بُرَّاق برق سے ہے۔ برق کے اصلی معنی بجلی کے ہیں اور ’’براق‘‘ کے معنی بجلی کی طرح تیز دوڑنے والے کے ہیں۔ چونکہ اس جانور کی رفتار بہت زیادہ تھی، یہاں تک کہ اس کا ایک قدم وہاں جاکر پڑتا تھا جہاں تک انسان کی نگاہ پہنچ سکتی۔آپ ﷺ براق پر سوار ہوگئے، آپ ﷺکے ساتھ حضرت جبرائیلؑ تھے۔

راستے میں آپ ﷺ کا گزر ایک ایسی زمین پر ہوا جہاں کھجور کے درخت بہت کثرت سے تھے، اس زمین پر آپ ﷺنے دو رکعات نماز نفل پڑھی۔ حضرت جبرائیل ؑنے بتایا کہ یہ مدینہ کی زمین ہے جہاں آپ ﷺہجرت کرکے آئیں گے۔آپ ﷺکی اگلی منزل طورِ سینا تھی۔ یہاں بھی آپ نے شجر طور کے پاس دو رکعات نماز نفل پڑھی۔ حضرت جبرائیل امینؑ نے بتایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں اﷲ تبارک وتعالیٰ حضرت موسیٰؑ سے ہم کلام ہوئے۔آپ ﷺکی تیسری منزل ’’بیت اللحم تھی، یہاں بھی آپ نے دو رکعات نماز نفل پڑھی۔ حضرت جبرائیلؑنے بتایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ہوئی۔وہاں سے آپ ﷺ مسجد اقصٰی (بیت المقدس ) تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے انبیاء کی امامت فرمائی، اس طرح آپﷺ ’’امام الانبیاء‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے، جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے تو شراب اور دودھ کے دو پیالے خدمت اقدس میں پیش کئے گئے، آپ نے دودھ کا پیالہ اُٹھالیا، حضرت جبرائیلؑ نے کہا کہ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا، شراب سے آپ کی اُمت گمراہ ہوجاتی، وہاں سے آپ ﷺحضرت جبرائیلؑ کے ہمراہ پہلے آسمان کے دروازے پر پہنچے جسے ’’باب حفظۃ‘‘ کہاجاتا ہے۔فرشتوں نے پرتپاک استقبال کیا۔ یہاں ایک بزرگ ہستی سے ملاقات ہوئی تو حضرت جبرائیل ؑنے بتایا یہ نسل انسانی کے بانی ابوالبشر حضرت آدمؑ ہیں، آپﷺ نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے اے صالح بیٹے اور نبی کے الفاظ استعمال کیے۔ ان کے دائیں بائیں جانب بے شمار لوگ تھے۔ دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور بائیں جانب نظر پڑتی تو غمگین ہوجاتے۔آپﷺ نے سوالیہ نظروں سے جبرائیلؑ کو دیکھا؟ انہوں نے کہا، یہ نسل آدم ہے، سیدھی جانب نیک لوگ ہیں اور بائیں جانب بُرے۔اس کے بعد آپ ﷺ دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے۔ یہاں دو نوجوان پیغمبروں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے تعارف ہوا۔تیسرے آسمان پر جو ہستی تھی، یہ حضرت یوسفؑ تھے۔چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ نے استقبال کیا۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ نے استقبال کیا۔اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ کلیم اللہ سے ملاقات ہوئی۔ساتویں آسمان کے عجائبات ہی کچھ اور تھے۔ زمین پر کعبۃ اللہ کے عین اوپر بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے۔ ایک وقت میں ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کر رہے تھے، پھر دوبارہ ان کی باری نہیں آتی تھی۔ اس سے ٹیک لگائے حضرت ابراہیمؑ بیٹھے تھے۔ وہ حضورﷺ کے ہم شکل تھے۔ انہوں نے ابن صالح اور نبی صالح کے الفاظ کے ساتھ سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’آپ اپنی اُمت کو میرا سلام پہنچائیے اور انہیں بتائیے کہ جنت کی مٹی خوشبودار ہے اور اس کا پانی شیریں ہے۔ وہ وسیع وہموار ہے، اس کے بیل بوٹے ’’سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ہیں۔ یعنی جو شخص جس قدر یہ الفاظ پڑھے گا اُس کے لیے جنت میں پھل دار درخت لگتے چلے جائیں گے۔ساتویں آسمان سے آپ ﷺ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ سِدرہ ایک بیری کا درخت ہے، اس کی جڑیں ساتویں آسمان میں ہیں اور یہ بہت بلند ہے۔ اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر ہیں اور پھل مٹکوں کی طرح، فرشتے جگنوؤں کی مانند ان پتوں پر تھے۔ وہ حالت قیام میں ’’سُبْحَانَ اللہ ‘‘کا وِرد کر رہے تھے۔ یہیں انہوں نے معزز مہمان اور آخری نبی ﷺ کا دیدار کیا۔

سِدرۃ المنتہیٰ عالم خلق اور رب السموات والارض کے درمیان حد فاصل ہے۔ یہاں تمام مخلوقات کا علم ختم ہوجاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں زمین سے اوپر جانے والی اور اوپر سے اترنے والی اشیاء رک جاتی ہیں۔ اس سے آگے عالم الغیب ہے، جس کا علم نہ کسی مقرب فرشتے کو ہے اور نہ کسی رسول کو ہے۔ اسی مقام پر جنت المأویٰ ہے جس کا ذکر سورۃ النجم میں ہے۔ رسول اﷲﷺ جنت میں داخل ہوئے، اس میں وہ تمام نعمتیں ہیں جسے کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا۔مشاہدۂ جنت کے بعد حضرت جبرائیلؑ سدرہ سے کچھ آگے ایک مقام پر رُک گئے اور عرض کیا: ’’اگر اس مقام سے بال برابر بھی آگے بڑھوں تو جل کر خاک ہوجاؤں گا۔‘‘بیت المعمور سے آپ ﷺ کو مقام مستوی تک عروج ہوا۔حضرت جبرائیل ؑنے عرض کیا کہ اب آپﷺ کا اور آپﷺ _کے رب کا معاملہ ہے۔

حضرت ابن عمر ؓنے ابن عباسؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہﷺ نے اپنے رَب کو دیکھا تھا؟ تو کہا، ہاں۔ اور زیادہ مشہور ان سے یہ ہے کہ اپنے رب کو اپنی آنکھ سے دیکھا۔ ان سے یہ بات کئی طرح سے روایت کی گئی ہے۔ کہا اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ ؑکو کلام کے ساتھ، ابراہیمؑ کو خلّت کے ساتھ اور محمد ﷺ_کو دیدار کے ساتھ خاص کیا ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں سلام عرض کرنے کے لیے یہ الفاظ القا ء ہوئے:اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبٰتُ (تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں) اﷲ تعالیٰ کا جواب آیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ (سلام ہو آپ (ﷺ ) پر اے نبیؐ اور اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔ آنحضرت ﷺ نے دوبارہ عرض کیا: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصّٰلِحِیْنَ (سلام ہو ہم پر اور اﷲ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں پر) اس پر حضرت جبرئیلؑ اور ملائکہ میں سے ہر ایک کی آواز سنائی دی: اَشْھَدُ اَنْ لَّآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔اس ملاقات میں اﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو تین ایسی چیزیں عطا فرمائیں جو آپﷺ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیں۔ (۱) معراج کا تحفہ پانچ فرض نمازوں کی صورت میں دیا گیا۔ (۲) سورۃ البقرہ کی آخری تین آیات براہ راست حق شانہ سے عطا ہوئیں ۔(۳) آپﷺ _کی اُمت کو گناہوں کی سزا یا بغیر سزا کے بخشنے کے بعد جنت میں داخلے کی خوش خبری سنائی گئی، بشرطیکہ وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں‘‘۔یہ وہ تحائف ہیں جو جنت کے خزانوں میں حضورﷺ کے توسط سے ان کی اُمت کو عطا ہوئے۔چھٹے آسمان پر تشریف لائے تو حضرت موسیٰ ؑنے پوچھا معراج کا کیا تحفہ لائے؟ فرمایا: پچاس نمازیں۔ حضرت موسیٰ ؑنے کہا مجھے اپنی اُمت کا تجربہ ہے، اس کی پابندی آپ ﷺ کی اُمت سے بھی نہ ہوسکے گی۔ تخفیف کی درخواست پر کم ہوتے ہوتے پانچ فرض نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ ؑنے مزید کمی کا مشورہ دیا۔ آپﷺ نے فرمایا، مجھے بار بار اپنے رب سے عرض کرتے ہوئے حیا آتی ہے۔ اتنے میں ندا آئی، پانچ نمازیں نافذ کردی گئیں ،لیکن اس کا ثواب پچاس کے برابر ہوگا۔ اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور عمل نہیں کیا، اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی، اگر عمل کرلیا تو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ جس نے برائی کا ارادہ کیا اور عمل نہیں کیا تو نامۂ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جائے گا۔ عمل کرے تو ایک گناہ لکھا جائے گا۔سِدرۃ المنتہیٰ پر آپ ﷺ نے حضرت جبرائیلؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا۔ ان کے چھ سو پر تھے، ان کے پروں سے مختلف رنگوں کے موتی، یاقوت جھڑ رہے تھے۔ ان کے پروں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جس سے زمین اور آسمان کا خلا پُر ہوجائے۔ اس سفر میں واقعات، حقائق، شرف ہم کلامی اور دیدار الٰہی سے مشرف ہونے کے بعد آپ ﷺنمازِ فجر سے پہلے دوبارہ مکہ مکرمہ حضرت اُمّ ہانیؓ کے گھر پر تشریف لے آئے ۔

عجائب قدرت کا مشاہدہ

سفر معراج میں آپ ﷺنے عجائب قدرت کا مشاہدہ کیا۔ آپﷺ کو نیک اعمال کی جزا اور بُرے اعمال کی سزا کو ’’ممثل‘‘ (مثالی شکل) میں دکھایا گیا اور ان کے تفصیلی مشاہدے کا موقع دیا گیا۔ ان میں سے کچھ واقعات آسمان پر جانے سے پہلے کے ہیں اور بعض واقعات بعد کے ہیں اور بعض واقعات کے سلسلہ میں اختلاف ہے، ان کی تفصیلات کتب حدیث میں موجود ہیں۔

مقاصدِ معراج نبویؐ

معراج کا یہ واقعہ کیوں پیش آیا، اس واقعے کے ذریعے اللہ تعالیٰ ،نبی کریم ﷺکی ذات اقدس پر اور اُمت مسلمہ پر کن حقائق کو منکشف کرنا چاہتے تھے اور اس واقعے کے اندر اُمت مسلمہ کے لیے کیا پیغام ہے۔واقعۂ معراج کا سب سے اولین مقصد نبی کریم ﷺکا اعزازواکرام اور آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کے لیے جو تکلیف برداشت کی تھی، اس میںمزید ثابت قدمی اور ہمت اور برداشت کی تلقین تھی ۔ اس لیے کہ واقعۂ معراج جن حالات میں پیش آیا ،وہ حالات کم وبیش اس طرح تھے کہ نبی کریم ﷺدس گیارہ سال سے مکہ کی سنگلاخ زمین پر بت پرستی اور جہالت کے انتہائی متعصب ماحول میں دین کی تبلیغ فرمارہے تھے، اس تبلیغ کے جواب میں بہت کم لوگ مسلمان ہوئے اور ان میں بھی بیش تر بڑے بڑے سردار نہیں، بلکہ عام طبقے کے لوگ تھے ،ان دس سالوں میں آپ اپنے رب ذوالجلال کے جس پیغام کو پہنچارہے تھے، اسی کی پاداش میں آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ہر طرح کی تکالیف سہنا پڑیں ،باطل نے اپنے ترکش کا ہر تیراستعمال کیا اور آپ ﷺہر تیر کو خندہ پیشانی سے سہتے رہے ،یہاں تک کہ سن دس نبوی میں آپ نے طائف کا سفر کیا۔ وہاں بھی آپ نے اسی حق کے پیغام کو پہنچایا، وہاں کے لوگوں نے نہ صرف قبول حق سے انکار کیا، بلکہ آپ کے قدموں کو لہولہان کردیا، یہ حالات اس بات کا تقاضا کررہے تھے کہ جس خدائے بزرگ وبرتر کے دین کے لیے آپ یہ تکالیف برداشت کررہے ہیں، وہ آپ کو اپنے دربار میںبلائے، آپ کو دیدار الٰہی سے مشرف کردے ،تاکہ اس کے ذریعے آپﷺ کے جذبہ تبلیغ دین کو مزید قوت عطا ہو اور آپ کے جذبہ وشوق کو مزید مہمیز کیا جائے ،اگر چہ آپ ﷺ دین کی دعوت وتبلیغ کاکام حضرت جبرائیل امین ؑکی وساطت سے وحی الٰہی کی روشنی میں جاری رکھے ہوئے تھے ،لیکن جو مزہ اور لطف براہ راست ہم کلام ہونے اور دیدار کرنے میں ہے، وہ قاصد کے توسط سے کہاں۔واقعۂ معراج کا دوسرا اہم مقصد نبی کریم ﷺکو اور آپ کی وساطت سے اُمت مسلمہ کو اچھے اعمال اور برے اعمال کو مثالی شکل میں دکھانا مقصود تھا ، اسی طرح اچھے اور برے اعمال کرنے والوں کی جزا اور سزا ثواب اور عذاب کا ایک نمونہ اور جھلک دکھانا مقصود تھا، تاکہ اچھے اور برے ،حق او رباطل کے درمیان فرق اچھی طرح واضح ہو کر سامنے آجائے ۔واقعہ معراج کا تیسرا اور اہم مقصد انسانیت کے مقصد تخلیق یعنی عبادت کے اظہار کا ایک طریقہ تحفہ کی شکل میں دینا تھا، انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت ہے اور عبادت کا سب سے بہتر اور جامع طریقہ نماز ہے، یہ طریقہ نبی کریم ﷺکو شب معراج میںعطا کیا گیا، شب معراج کے حوالے ہی سے کہا جاتا ہے کہ ’’الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘ نماز مومنین کی معراج ہے۔ معراج اسے کہاجاتا ہے جس کے ذریعے بلندی اور عروج کی طرف بڑھاجاسکے ،نمازکے ذریعے انسان روحانی ترقی کے اعلیٰ درجات پر اور بلندترین مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔

ایک اہم نکتہ

واقعۂ معراج نبوی کیوں پیش آیا ،اس ضمن میں ایک نکتے کی وضاحت مناسب ہوگی اور وہ یہ کہ بے شک معراج کا مقصد آنحضرتﷺ کا اعزازواکرام تھا ، اعمال کا مشاہدہ کرانا اور نماز کاتحفہ عطا کرنا تھا، یہ مقصد اس سے بھی پورے ہوسکتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنے جائے سکونت یعنی مکہ مکرمہ مسجد حرام سے براہِ راست آسمانوں کی طرف لے جایاجاتا، آسمانوں سے قبل مسجد اقصیٰ (بیت المقدس )لے جانے میں کیا حکمت تھی، اس حکمت کو سمجھنے کے لیے تین بنیادی نکات کا سامنے رکھنا ضروری ہے۔پہلا نکتہ یہ کہ اس دنیا میں جتنے بھی انبیائے کرامؑ مبعوث ہوئے ،ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ان انبیائے کرامؑ کی ہے، جن کی یا تو پیدائش بیت المقدس میں ہوئی یا ان کی بعثت اس علاقے میں ہوئی ، یہی وجہ ہے کہ بیت المقدس کو انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے، یہاں تک آنحضرت ﷺ ۱۵؍شعبان ۲ ھ تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز ادا فرماتے تھے اور پھر تحویل قبلہ کے ذریعے مکہ مکرمہ (خانہ کعبہ) کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا۔تیسرا نکتہ یہ کہ بے شک اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے، لیکن آنحضرتﷺ کی بعثت صرف اہل مکہ یا اہل حجاز یا اہل عرب کے لیے نہیں تھی، بلکہ آپ کی بعثت تمام عالم کے لیے قیامت تک کے لیے ہے۔ان تین نکات کو سامنے رکھ کر یہ بات بخوبی سمجھی جاسکتی ہے ،درحقیقت آپﷺ کو صرف صاحب معراج نہیں ،بلکہ ’’امام الانبیاء‘‘ یعنی تمام انبیاء کی امامت کرنے کا شرف بھی حاصل ہونا تھا اور تمام انبیاء کی امامت کے لیے بیت المقدس سے بہتر کون سی جگہ ہوسکتی تھی کہ جہاں بہت سے انبیاء مبعوث ہوئے اور پھر بیت المقدس کی طرف جانے اور وہاں سے آسمانوں کی طرف جانے میں اس بات کی طرف اشارہ بھی تھا کہ اسلام صرف ان لوگوں کے لیے نہیں آیا جو صرف خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں ،بلکہ اسلام بیت المقدس والوں کے لیے بھی ہے اور اب نبی کریمﷺ کی بعثت سے بیت المقدس والے اور مکہ مکرمہ والے سب ایک ہی نبی حضرت محمدﷺ کے تابع فرمان ہوجائیں، اب یہودیت اور عیسائیت منسوخ ہوگئیں ،بلکہ بیت المقدس کی طرف سفر اور وہاں سے آسمانوں کی طرف جانے میں ایک حکیمانہ انداز میں یہودیت اور عیسائیت کو اسلام کی طرف راغب کیا گیا کہ تمہارے مقامات مقدسہ مسلمانوں کے بھی مقدس مقامات ہیں یہودیت کے اور عیسائیت کے جو اصل خدوخال تھے، اسلام بھی اُن اصولوں کی دعوت دیتا ہے۔

واقعۂ معراج کا سبق

واقعۂ معراج کی جو تفصیلات اور معلومات آپ نے پڑھیں، اُن میں مسلمانوں کی عملی زندگی کے لیے چند اہم سبق ہیں:٭…ہر مسلمان کو پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے ، پنج وقتہ نمازایسی اہم عبادت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی واسطہ کے اپنے پیارے حبیبﷺ کو شب معراج کے تحفے کے طور پر اس اُمت محمدیہ کے لیے پیش کیا، اس لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے پیش کیے جانے والے اس تحفے کا حق یہ ہے کہ ان نمازوں کو اپنے وقت پر اس کے تمام فرائض ، واجبات اور سنن وآداب کا خیال رکھتے ہوئے ادا کیا جائے۔٭… واقعۂ معراج کی تفصیلات کو پڑھا جائے تو ان میں آپﷺ کو جن گناہوں کی سزا (مثالی شکل) میں دکھائی گئی، اُن گناہوں سے مکمل بچیں، ان کی سزائیں اتنی خطرناک اور اذیت ناک ہیں کہ ان کے تصور سے ہی انسان کو خوف آنے لگتا ہے، اللہ نا کرے اگر ہم ان بُرے کاموں میں مبتلا ہوگئے تو کیسے ان سزائوں کو برداشت کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان برائیوں سے ہماری اور تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔٭…واقعۂ معراج میں آپﷺ کو مسجد حرام (خانۂ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) لے جانے اور وہاں پر انبیاء کی امامت کے ذریعے یہ بتادیا گیا کہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کے لیے مقدس مقامات میں سے ایک ہے اور اس کا احترام اور تقدس مسلمانوں کے عقیدے کا حصہ اور اس کی حفاظت اور اس کو بے حرمتی سے بچانا اسلامی غیرت کا تقاضا ہے۔مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوری مکی اور مدنی زندگی کے تقریباً ایک سال چھ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کی، ان تمام حقائق کی روشنی میں مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) پر یہودیوں کا قبضہ غاصبانہ اور ظالمانہ ہے، لہٰذا مسلمانوں کو اپنے قبلۂ اول کو یہودیوں سے آزاد کرانے کی ہر جدو جہد میں حصہ لینا چاہیے اور ان شاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ مسلمان اس میں کامیاب ہوں گے۔

تازہ ترین