صدائے تکبیر … پروفیسر مسعوداختر ہزاروی قدرت کی طرف سے انسان کی جسمانی، روحانی، نفسیاتی اور سماجی نشوونما کیلئے خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ ان مراحل سے گزرتے ہوئے خود انسان پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان میں سے اہم ذمہ داری وجود کے اس ڈھانچے کی دیکھ بھال کرنا اور خصوصا صفائی کا ہرحال میں اہتمام کرنا ہے۔آج کل پوری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔ ڈاکٹرز اور تمام طب کے تحقیقی ادارے اس موذی مرض سے بچنے کیلئے صفائی کے اہتمام کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ طہارت کے طریقہ کار کی وڈیوز بھی عام کر رہے ہیں۔جملہ ماہرین طب اس بات پر متفق ہیں کہ ایک صحت مند وجود میں ہی ایک صحت مند دماغ پرورش پاسکتا ہے۔ نفسیاتی علوم کے ماہرین کے نزدیک بھی صفائی انسانوں کو ذہنی سکون مہیا کرتی ہے۔ دین اسلام میں صفائی کو بہت اہمیت دی گئی۔ فقہ اسلامی کی ہر کتاب کا پہلا باب طہارت اور پاکیزگی کے آداب سے ہی شروع ہوتا ہے۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ’’بے شک اللہ تعالی صاف ستھرے لوگوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ہمارے پیارے نبی محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ جہاں بھی ہم لوگ رہ رہے ہوں وہاں کے گلی محلے سے لیکر اپنے گھروں تک کی صفائی کا خیال رکھنا ہم سب کی دینی، اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ میڈیکل سائنس بھی تحقیق و جستجو کے بعد ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گندگی سے وائرس اور جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو کئی جان لیوا بیماریوں کا سبب بن جاتے ہیں۔ ستر فیصد کے قریب انسانی اور حیوانی بیماریوں کا سبب غلاظت اور گندگی ہے۔ حکومتوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ صفائی کا اہتمام کریں۔ گندہ پانی پینے سے بھی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں بھی ہم رہ رہے ہوں اپنے گھروں اور ارد گرد کی صفائی ہماری انفرادی اور اجتمائی ذمہ داری ہے۔ بچوں میں بیماریوں سے بچاؤ کیلئے قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا گندگی کی صورت میں بیماریوں کا زیادہ تر اثر پھول جیسے بچوں کی صحت پر ہوتا ہے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ کھانے پینے میں صفائی کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔ کھانے پینے کے اشیائی مواد سے لیکر کچن اور برتنوں کی صفائی کی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق بہت اہمیت ہے۔ ورنہ اس گندگی سے پیچیدہ امراض جنم لے کر باعث پریشانی بنتے ہیں۔پانی اور کوڑا کرکٹ کئی دنوں تک ایک جگہ پڑے رہیں تو اسکی غلاظت سے ایسے موذی مچھر اور خطرناک جراثیم پیدا ہوتے ہیں جو جان لیوا امراض کا سبب بنتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے پاکستان میں ’’ڈینگی وائرس‘‘ کا نام میڈیا پر عام رہا۔ یہ ایک قاتل وائرس ہے جس کی وجہ سے چھ ہزار کے لگ بھگ قیمتی جانیں ضائع ہو ئیں۔ یہ مچھر گندے پانی میں پایا جاتا ہے۔ پرانے ربڑ کے ٹائروں اور گملوں میں بچے ہوئے پانی کے علاوہ جوہڑوں،اورتالابوں میں پرورش کے ساتھ ساتھ اس کی افزائش نسل بھی ہوتی ہے۔ اب کرونا وائرس نے ہر ملک کو پریشان کیا ہوا ہے۔ اس سے بچنے کیلئے جہاں اور بہت سی احتیاط کرنا لازم ہے وہاں صفائی کا خیال رکھنے کو بھی لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔ گندگی انسانی اور حیوانی زندگی کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ بدقسمتی سے ایشیائی اور افریقی ممالک میں حکومتیں صفائی کی طرف توجہ دیتی ہیں اور نہ ہی عوام الناس۔ سڑکوں اور بازاروں میں گندگی بکھری نظر آتی ہے۔ سبزی منڈیوں، چھوٹے ریستور انوں اور بازاروں میں غلاظت کی وجہ سے اکثر و بیشتر تعفن اور بدبو آتی ہے۔ یہاں تک کہ مساجد کے وضوخانے میں ٹائلٹ استعمال کرنے کے بعد صابن بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ وہاں تو شاید لوگ عادی ہوچکے ہوں لیکن جنہیں ٹائلٹ کے بعد صابن سے ہاتھ دھونے کی عادت ہے انہیں سخت کوفت ہوتی ہے۔ یورپ میں حکومتیں صفائی کے بہت انتظامات کرتی ہیں۔ شاہراہوں اور بازاروں کی صفائی پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ گھروں میں ڈسٹ بن کا اہتمام ہے۔ ہفتہ وار کونسل کی گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھا کر لے جاتی ہیں لیکن جن علاقوں میں ایشیائی یا افریقی اکثریتی آبادی ہے وہاں کی سڑکوں پر گندگی نظر آتی ہے۔ حسب عاد ت کچھ لوگ کھا پی کر بوتلیں اور ڈبے سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔۔ گھروں کے باہر باغیچوں اور گلدانوں کا خاص خیال نہیں رکھتے۔ بعض اوقات چلتی گاڑیوں سے کوڑا سڑکوں پر پھینکتے بھی دیکھا گیا جو انتہائی نازیبا حرکت ہے۔البتہ اب یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ حلال و حرام کے جو ضابطے رب کریم نے مقرر کیے انہیں نظر انداز کر کے جو چاہے کھاتے پھریں تو اس کے بھی مہلک اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ اسی کی ہی ایک مثال کرونا وائرس بھی ہے۔ پندرہ صدیاں پہلے ہادی برحقﷺنے ہمیں آگاہ کردیاتھا کہ اگر زندگی میں سکون چاہتے ہو، بیماریوں سے محفوظ رہ کر صحت مند زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہو تو صفائی کا خیال رکھو بلکہ صفائی اور پاکیزگی کو نصف ایمان قراردیا۔ ہمیں رستے میں پڑی گندگی ہٹانے کا حکم دیا گیا تاکہ کوئی گزرنے والا بیزار نہ ہو۔ راستے میں پتھر، کانٹے اور کنکر ہوں تو ہٹانے کا حکم دیا تاکہ کسی کو تکلیف نہ ہو۔ ہمیں حکم دیا گیادن میں پانچ دفعہ نماز کیلئے وضو کرکے پاک صاف ہوں۔ جمعہ کے دن اچھی طرح نہا کر، صاف ستھرے کپڑے پہن کر نماز جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ ’’صفائی نصف ایمان‘‘ کا فلسفہ ہمیں تب ہی سمجھ آسکتا ہے جب ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات کے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں۔ اکثر و بیشتر یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان عوام الناس اسلام کو کوزے میں بند کر کے کچھ لوگوں کو ٹھیکے پر دے کر خود آزاد ہوگئے ہیں۔ جو من کو بھایا کرلیا اور جوکام مشکل ہوا اسے چھوڑ دیا۔ یقینا یہ رویے قابل تحسین نہیں۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ صفائی اور پاکیزگی کا جو تصور محسن کائناتﷺ نے دیا ہے وہ ہم دنیا تک تبھی متعارف کرا سکتے ہیں جب ہم خود صاف ستھرے ہوں گے اور گھروں، کوچوں اور بازاروں کی صفائی پر نظر رکھیں گے۔