• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہمارے آباؤ اجداد نے کوئی اچھا کام نہیں کیا !‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 37 ویں برسی 4 اپریل کو منائی جا رہی ہے ۔ بھٹو کی پھانسی ( جسے پیپلز پارٹی والے عدالتی قتل کا نام دیتے ہیں ) کے 37 سال بعد پاکستان کے حالات اس سے کہیں زیادہ خراب ہیں ، جن کے بارے میں خدشات کا اظہار خود بھٹو نے اپنی کتاب ’’ اگر مجھے قتل کیا گیا ‘‘ میں کیا تھا ۔ صرف ہمالیہ ہی نہیں رو رہا بلکہ قراقرم ، ہندوکش اور سلیمان سے بھی ماتمی صدائیں گونج رہی ہیں ۔ پوری وادی سندھ خون آلود ہو چکی ہے ۔ بھٹو پاکستان کو ایسی صورت حال سے بچانا چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے پاکستان کو سامراجی کیمپ سے نکالنے کی کوشش کی ۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ ایک کمیونسٹ ملک سے کسی نان کمیونسٹ ملک کی دوستی میں مشکلات ہوتی ہیں لیکن امریکا اور مغرب کے ساتھ دوستی انتہائی خطرناک ہے ۔ ‘‘ آج اندازہ ہو رہا ہے کہ امریکا اور مغرب کے ساتھ دوستی کا کس قدر خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ بھٹو کا ’’ جرم ‘‘ یہ تھا کہ وہ ایک سچے اور بہادر سامراج دشمن تھے ۔ وہ پاکستان کا سامراج نواز کردار ختم کرکے اسے ایک حقیقی خود مختار قومی ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ بھٹو کے بعد کسی نے بھی سامراج کو نہیں للکارا ۔ زبور مقدس میں ایک جگہ لکھا ہے ’’ خدا اور کائنات کے ساتھ صلح جوئی اختیار کرو اور اپنی زندگی کو محبت سے صیقل کرو ۔ ‘‘ بھٹو سے پہلے اور بھٹو کے بعد فوجی اور غیر فوجی لیڈرز نے یہ مقولہ اختیار کیا کہ ’’ امریکا اور سامراج کے ساتھ صلح جوئی اختیار کرو اور اپنی زندگی کو دولت سے صیقل کرو ۔ ‘‘ بھٹو کی پھانسی کی بعد پاکستان سامراج نوازی کی دلدل میں پھنستا چلا گیا اور اب کوئی بھٹو اسے اس دلدل سے نکالنے والا نہیں ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی آزادی اور جمہوریت کی تحریکوں نے زور پکڑا اور ان تحریکوں نے عوام کے مقبول اور سامراج دشمن لیڈر پیدا کیے لیکن سرد جنگ کے خاتمے سے پہلے ایشیا ، افریقا اور لاطینی امریکا کو مقبول اور سامراج دشمن قوتوں کا قبرستان بنا دیا گیا ۔ 50 اور 70 ء کی دہائیوں کے درمیان تیسری دنیا میں جتنے مقبول لیڈرز پیدا ہوئے اور ان سب کو بھٹو کے انجام سے دوچار کیا گیا لیکن دیگر ممالک میں مقبول لیڈرز کی موت سے سامراج کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اس طرح ختم نہیں ہوئیں ، جس طرح بھٹو کی موت سے پاکستان میں مزاحمتی تحریک ختم ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں ۔ کوثر نیازی مرحوم اپنی کتاب ’’ دیدہ ور ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ بھٹو کسی عالمی طاقت کے خلاف صف آرائی یا تصادم سے گریز چاہتے تھے لیکن وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر یہ ناگزیر ہو جائے تو پھر صورت حال کا فوراً اور مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے ۔ تاخیر اور تذبذب کی پالیسی کو وہ چھوٹی اقوام کے لیے زہر قاتل تصور کرتے تھے ۔ ‘‘ فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ کے وزیر کی حیثیت میں بھی بھٹو نے دنیا بھر کے ترقی پسند اور سامراج دشمن حلقوں میں اپنے آپ کو ایک انقلابی اور سچے قوم پرست لیڈر کے طور پر تسلیم کرالیا تھا ۔ ایوب خان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کو سامراجی کیمپ سے نکالنے کے لیے کئی غیر معمولی اقدامات کیے ۔ انہوں نے چین اور روس کے ساتھ تعلقات استوار کیے ۔ انہوں نے ایوب خان کے وزیر ایندھن ، بجلی اور قدرتی وسائل کی حیثیت سے پاکستان میں مغربی آئل کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کی اور دو مغربی کمپنیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ۔ انہوں نے روس کے ساتھ تاریخی آئل ایگریمنٹ کیا ۔ ایوب خان کے وزیر صنعت کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان کے 22 خاندانوں کی لوٹ مار کو روکا اور ان کی دشمنی مول لی ۔ پاکستان کو اپنے شکنجوں میں جکڑے ہوئے عالمی سامراج نے نوجوان بھٹو کے ارادوں کو بھانپ لیا تھا ۔ جب ایوب خان نے بھٹو کو اپنی کابینہ سے نکالا تو برطانیہ کے عظیم ترقی پسند ، فلسفی ، مورخ اور مصنف برٹرینڈ رسل ( Bertrand Russell ) نے دنیا بھر میں احتجاجی مہم شروع کی اور عالمی رہنماؤں کو احتجاجی مراسلے ارسال کیے ، جن میں رسل نے کہا کہ ’’ مغرب کی مفاد پرستانہ سیاست عوام کی امنگوں سے ہم آہنگ قائدین کو اپنا نشانہ بنا رہی ہے ، جو افرویشیائی استحکام اور خود مختارانہ پالیسی کے خالق ہیں ۔ بھٹو واحد لیڈر ہیں ، جنہوں نے نہر سویز کے مشرق میں بنائی جانے والی پالیسیوں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ۔ پس پردہ امریکی سازشوں نے بھٹو کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا ۔ بھٹو کا یوں ہٹا دیا جانا اس ملک کے مستقبل کے لیے ایک عظیم خطرہ ہے ۔ ‘‘ رسل 1970 میں انتقال کر گئے تھے ۔ بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار سنبھال کر پاکستان کو امریکی کیمپ سے نکالنے کی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا ۔ 6 جولائی 1973 کو بھٹو کا نیویارک ٹائمز میں ایک انٹرویو شائع ہوا ، جس میں بھٹو کے یہ الفاظ نمایاں طور پر بکس میں شائع کیے گئے کہ ’’ کبھی پاکستان امریکا کا انتہائی جانبدار دوست کہلاتا تھا ۔ اب ہم انتہائی غیر جانبدار ہیں ۔ ‘‘ بھٹو نے اپنے تئیں پاکستانی ریاست کا سامراج نواز ڈھانچہ بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اب استحصالی قوتوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے تھے ۔ پھر 4 اپریل 1979 ء کا سانحہ رونما ہوا ۔ سامراجی قوتوں نے پاکستان کو اپنی مرضی سے چلایا اور آج شہر شہر ، قصبہ قصبہ ، گاؤں گاؤں ، گلی گلی 4 اپریل برپا ہو رہا ہے ۔ بھٹو کو پھانسی اس لیے دی گئی کہ انہیں کوئی خرید نہیں سکا تھا ۔ برٹرینڈ رسل لکھتے ہیں کہ ’’ بھٹو ایسے سیاست دان ہیں ، جو بہادر ہیں اور جن کی دیانت ، صداقت اور ترغیب و تحریص سے بے نیازی تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہے ۔ ‘‘ جنرل ضیاء الحق کے ’’ قرطاس ابیض ‘‘ ( وائٹ پیپر ) میں بھٹو پر بہت سے الزامات لگائے گئے تھے لیکن بھٹو کو جس بات پر سب سے زیادہ دکھ ہوا ، وہ یہ تھی کہ انہیں کرپٹ کہا گیا تھا ۔ اس قرطاس ابیض کے جواب میں بھٹو نے جو خط سپریم کورٹ کے نام لکھا اور جسے ’’ اگر مجھے قتل کیا گیا ‘‘ نامی کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ، اس میں ذوالفقار علی بھٹو لکھتے ہیں کہ ’’ ان تمام سالوں میں نے اپنی ساکھ کا غیرت و حمیت کے ساتھ تحفظ کیا ۔ میری بہت کمزوریاں ہیں ، جن کا میں نے بڑے عوامی اجتماعات میں اعتراف بھی کیا ہے ۔ میں غلطیوں سے بھرپور ہوں لیکن میری جو بھی غلطی ہو ، میں کرپٹ آدمی نہیں ہوں ۔ یہ بات انتہائی دکھ دینے والی ہے کہ مجھے غیر آبرومندانہ طریقے سے بدنام کیا گیا ۔ میرے مخالفین نے پاکستان کو بدنام کیا ہے ۔ وقت بتائے گا کہ میرا نام برصغیر کے جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ جڑا ہوتا ہے یا ان ہیروز کے ساتھ منسلک ہے ، جنہوں نے اپنے وطن کے لیے جان قربان کر دی ۔ میرا نام اور میری ساکھ عوام کی تحویل اور تاریخ کے قلب میں محفوظ ہے ۔ ‘‘ آج پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیاں نہ صرف سیاست دانوں کے ہاتھ میں نہیں ہیں بلکہ پاکستان کی کسی قوت کے ہاتھ میں بھی نہیں ہیں ۔ دہشت گردی ، خونریزی اور بدامنی کا سامراجی عفریت تمام پالیسیوں کو کنٹرول کرتا ہے ۔ بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’ تاریخ میں بدلہ یا انتقام ( Retribution ) جیسی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ ‘‘ آج پاکستان میں مقتدر حلقے ، انتہا پسند ، فرقہ پرست ، تنگ نظر قوم پرست اور نسل پرست حلقے آپس میں برسرپیکار ہیں ، جو کبھی بھٹو کے خلاف ایک دوسرے کے اتحادی تھے ۔ اس آپس کی جنگ کا کوئی اچھا نتیجہ بھی نہیں نکلنے والا ہے ۔ عاشق بزدار کی ایک نظم والے نئی نسل کے اس فقیر کی صدا سنائی دے رہی ہے ، جو یہ کہتا ہے کہ ’’ بھٹو کا قتل کرکے ہمارے آباؤ اجداد نے کوئی اچھا کام نہیں کیا ۔ ‘‘
تازہ ترین