• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بغداد میں چند روز قبل امریکی اور نیٹو کے فوجی کیمپ پر راکٹ سے حملہ کیا گیا جس سے دو امریکی اور ایک برطانوی سپاہی ہلاک ہوگیا کچھ اسلحہ خانے کو نقصان پہنچا۔جواباً دوسرے دن امریکا نے حزب اللہ کی اتحادی شیعہ ملیشیا کے پانچ کیمپوں میں الگ الگ راکٹ حملے کرکے شیعہ ملیشیا کے بیشتر جنگجوں کو ہلاک اور زخمی کردیا اس کے علاوہ ان کے اسلحہ خانے بھی تقریباً تباہ کردیئے۔ پینٹاگون کے ذرائع کے مطابق بغداد میں جرف الخیر، کربلا، المصیب، عرب نواز میں واقع شیعہ ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایاگیا۔امریکا کے اس جوابی حملے اور شیعہ ملیشیا کے بڑے پانی اور اسلحہ خانوں کے نقصان پر ایران اور امریکاکے مابین مزید کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ امریکی وزیر دفاع مارک السپرنے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ امریکا نے واضح کردیا تھا کہ اگر کسی بھی امریکی یا اس کے اتحادی فوجی پر حملہ ہوا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔ مارک السپرکا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ حملہ جان بوجھ کرکیا گیا تھا اور حزب اللہ کی اتحادی شیعہ ملیشیا پہلے ہی جارحانہ حملے کرچکی ہے۔ امریکا کے راکٹوںکے جوابی حملے میں خیال ہے کہ پچاس سے زائد جہادی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں اس کے علاوہ ان کے اسلحہ خانوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ 

جس کی وجہ سےفی الفور شیعہ ملیشیا کوئی کارروائی کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ یہ پینٹاگون کی بڑی کامیابی ہے۔ عراقی سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کے راکٹوں کے حملے میں جرف الخیر کے علاقے میں دو عراقی پولیس افسران بھی ہلاک ہوگئے ہیں۔ عراقی فوجی ذرائع کا بھی کہنا ہے کہ عراقی حکومت نے اس حملے پر مذمتی بیان جاری کردیا ہے یہ حملہ علی الصباح ہوا اور امریکا نے پہ درپہ راکٹوں کی بارش کردی اس سے عراق کی نویں فوجی بریگیڈ کی پی ایم جی یونٹ کو بھی زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ موبائل یونٹ اچانک راکٹوں کے حملے کی زد میں آگئی۔ امریکی وزیر دفاع مارک الپسر نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ نے انہیں یہ اختیار دیا تھاکہ میں جوابی کارروائی کردوں۔ میں نے بروقت درست فیصلہ کیا حملہ کامیاب رہا ۔ اس پر ایران اور اس کے حامیوں کو سوچنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پھر کوئی ایسا واقع ہوتا ہے تو ہم اس کا بھی زبردست جواب دیں گے۔ ایک بار بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ امریکی یااس کے اتحادیوں پر حملہ ہواتو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے متعلقہ ذمہ داران کو بھی بتادیا گیا ہے ان کے پراکسی اگر حملہ کریں گے تو ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہمارا جوابی حملہ درست اور بروقت تھا آگے دیکھتے ہیں ہمیں کیا قدم اٹھانا چاہیئے۔ 

امریکی مسلح افواج کے سربراہ جنرل مارک ہیلے نےاپنے بیان میں کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ حملہ کس نے کیااس پر ہمیں جوابی کاروائی کرنا پڑی۔ کیپٹل ہل میں مشر ق وسطیٰ کے امریکی فوجی کمانڈر جنرل میکنزی نے ایوان نمائندگان کی دفاعی کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت ایران نے یہ حملہ کرواکر سرخ لائن عبورکرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ ایران یہ جانتا ہوگا کہ ریڈ لائن کہاں ہے۔ اخباری نمائندوں نےوزیر دفاع مارک الپسر سے سوال کیا کہ کیا ایک بار پھر حملہ ہوا تو کیا امریکا بھی حملہ کرے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ فی الفور عراق میںموجود شیعہ ملیشیا اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرنے اور اسلحہ حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ ہم نے ان پر نظر رکھی ہوئی ہے۔دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کی اتحادی شیعہ ملیشیا خاصی سرگرم اور منظم تنظیم ہے اس کے پاس جدید اسلحہ، راکٹ اور دیگر سامان حرب موجود ہے اس کی نقل و حرکت بھی وسیع تر ہے اس لئے اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ جنرل میکنزی نے ایوان نمائندگان کی دفاعی کمیٹی کو بتایاہے کہ اس حملے کے بعد امریکا نے مزید اہم اسلحہ عراق روانہ کردیا ہے امریکی اور نیٹو اپنی صف بندی کرچکے ہیں اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو اس کا جواب بھی بھرپور انداز سے دیا جائے گا۔

ایک طرفہ شیعہ ملیشیا عراق میں امریکی اور نیٹو فوجیوں پر حملے کرکے حالات مخدوش کررہی ہے، امریکا عراق سے اپنے فوجی نکالنے کی بھی تیاری کررہا ہے۔ دوسری طرف ایران عراق ، شام اور دیگر علاقوں میں پراکسی گروپ بھی تیار کررہا ہے۔اگرخطہ میںامن قائم کرنا ہے تو ان تیاریوں کی ضرورت نہیں ہے اس پر امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایران خطہ کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ اگر ایران اپنی پالیسی میں تبدیلی نہیں لائے گا تو پورا خطہ جنگ وجدل میں الجھا رہے گا۔

عراق کے سیاسی اور مذہبی رہنما آیت اللہ سیستانی نظریاتی طور پر لبرل ، اعتدال پسند اور امن کے خواہاں ہیں۔ وہ مذہبی، سیاسی شدت پسندی کے خلاف ہیں ۔ ان کا نظریہ ایرانی مذہبی رہنمائوں سے قدرے جدا ہے۔ وہ ہر جمعہ کے خطبے میں اپنے مذہبی سیاسی نظریات پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی عراق میں بیرونی قوتوں کی مداخلت کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں تمام قوتیں اور ان کے اتحادی عراق سے نکل جائیں ان کی وجہ سے عراق غیر مستحکم ہورہا ہے، معیشت تباہ ہورہی ہے سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے،عوام گومگو کا شکار ہیں۔ عراق کے نوجوانوں کی اکثریت آیت اللہ سیستانی کی حامی ہے کیونکہ نوجوانوں کو یقین ہے کہ وہ شیعہ ازم کے سخت گیر ضابطوں کےخلاف ہیں۔ وہ ملک میں لبرل شیعہ ازم ، مستحکم سیاسی حکومت اور سب سے دوستی کے خواہاں ہیں۔ آیت اللہ سیستانی ملک میں بنیادی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے حامی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں پابند معاشرے مستحکم نہیں ہوسکتے۔

دنیا 1979کے دور سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اگر ہم دنیا کے ساتھ نہیں رہیں گے تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ عراق کے بعض آزادذرائع کہتے ہیں کہا کہ ایران، انقلا ب ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی کے انداز فکر سے باہر نہیں نکل پارہا وہ انقلابی دور کے نظریات کا فروغ چاہتا ہے اور دنیا میں جہاں جہاں شیعہ معاشرے قائم ہیں وہاں اپنا مذہبی اور سیاسی اثر قائم رکھنا چاہتا ہے اس لئے نہ صرف خطے میں بلکہ امت مسلمہ میں اتھل پتھل ہورہی ہے ۔ عراق امن کا داعی ہے۔ امکانات ہیں کہ جلد امریکی اور نیٹو فوجی عراق سے نکل جائیں گے۔ مگر بیشتر عراقی حلقے تذبذب کا شکار ہیں۔ مثلاً پی ایم یوملیشیا کے سربراہ قیس الغزالی کہتے ہیں عراق اور امریکا کی کشیدگی تنازعات امریکا کے عراق پر حملے سے شروع ہوئے جو بڑی ناانصافی تھی۔ قیس کا کہنا ہے کہ ہم امریکا اور اس کے اتحادی فوجیوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔ امریکا نے اعلان کیا کہ ہم نے عراق سے داعش کو نکال دیا ہے۔ عراق اب کلیئر ہے۔ اس کے باوجود امریکا نے عراق سے نکلنے کا اشارہ نہیں دیا ۔ 

داعش نے عراق کے بعد شام میں ٹھکانے تلاش کرلیئے ہمیں اب شام اور عراق کی سرحدوں کی بھی نگرانی کرنا پڑتی ہے ہمارے پاس ڈیڑھ لاکھ مجاہد ہیں جو سردھڑ کی بازی لگانے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ قیس کا کہنا تھا کہ جنگ اور کشیدگی کی اصل وجہ عراق میں امریکی اور اس کے اتحادیوں کا اجتماع ہے۔ امریکا درحقیقت ایران اور لبنان کے  کوریڈور سے پریشان ہے لبنان میں حزب اللہ مضبوط ہے۔ عراق کے عوام کی قطعی اکثریت کا مطالبہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی عراق سے نکل جائیں۔ اب جبکہ شام میں ترکی اور روسی آمنے سامنے ہیں۔ 

وہاں پاور پلے ہورہا ہے۔ اسلامی دنیا کو دوحصوں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں ہم امریکا سے باربار مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اپنی فوجیں واپس بلواکر جبکہ عراق کی سنی آبادی اور کردوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پی ایم یو ملیشیا کو غیر مسلح کیا جائے ان سے اسلحہ واپس لیا جائے۔مگر پی ایم یو کے ملیشیا اور شیعہ ملیشیا غیر مسلح ہونے کے لئے راضی نہیں ہے۔ عراق کے مذہبی رہنما کہتے ہیں پہلے غیر ملکی فوجی واپس جائیں تاکہ عراق میں امن قائم ہو۔ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں کشیدگی بڑھے گی۔ ایک دوسرے پر حملے ہوں گے۔ اب مغربی طاقتوں کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ عراق میں رہیں۔

تازہ ترین