• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! میر شکیل الرحمٰن کی غیرقانونی گرفتاری کے تناظر میں ’’آئینِ نو‘‘ کے جاری سلسلہ ہائے اشاعت میں، پاکستان میں بیباک اور آزادیٔ صحافت کے تاریخی کردار اس کے بدستور قومی اثاثہ ہونے کا تجزیہ تو کیا جا چکا۔

یوں کہ دو قومی نظریے، مسلم لیگ، اس کی راست قیادت اور انہیں حاصل آزاد نہیں، بلکہ متحدہ ہندوستان کی بیباک مسلم صحافت کے باہمی ملاپ نے بالآخر پاکستان بنا دیا۔

نومولود ریاست کو اس کے قیام کے عزائم کے مطابق ریاستی شکل دینے اور چلانے کے لئے راست باز سیاست کا تسلسل، مسلم لیگ کا بطور بانی جماعت، منظم مستحکم اور متحد رہنا اس کے ساتھ ساتھ دو قومی نظریے کی فلاسفی کے عکاس متفقہ آئین کی فوری تیاری اور اطلاق اور آزاد قومی صحافت اب نئی مملکت کے اتنے ہی بڑے لازمے تھے، جتنے قیامِ پاکستان کے متذکرہ چاروں نتیجہ خیز اثاثے تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد نہ راست قیادت کا تسلسل رہا، نہ مسلم لیگ بانی جماعت کے طور متحد، منظم اور مستحکم رہی۔ یہ جاگیردارانہ ذہنیت کے سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے ہر دو فیکشن، بابو اور خاکی کے ہتھے چڑھتی، بطور عوامی نظریاتی جماعت دم توڑ گئی۔

رہ گئی قومی صحافت، یہ بھی تحریک پاکستان کی طرح ایک بنیادی ایجنڈے پر قائم نہ رہ سکی بلکہ عملی اور بیمار قومی سیاست کے اس پر اثرات تو پڑے یوں یہ تقسیم بھی ہوئی۔

سیاسی جماعتوں کی حمایت و مخالفت کے حوالے سے بھی تاہم قومی صحافت کے ہی ایک بڑے حصے میں جمہوریت کا جذبہ اور عزم برقرار رہا اور اس نے حکومتوں کے آزاد صحافت کے خلاف فیصلوں اور قوانین کے خلاف مزاحمت بھی کی اور محدود آزادی یا صحافتی قدغنوں کے خلاف جرأت و بیباکی کا تسلسل سے مظاہرہ کرتے ہوئے آمر حکومتوں کو اس حد تک مطلق العنان نہ بننے دیا۔

حتیٰ کہ مارشل لا ادوار میں بھی کہ حق گوئی و بیباکی کو بند معاشروں کی طرح مکمل کچل دیا جاتا۔ یہ صورتحال پاکستان میں تا دم برقرار ہی نہیں بلکہ اب صحافیوں، ابلاغی اداروں کے مالکان (ناشران) اور کارکنوں کی مشترکہ حاصل شدہ آزادیٔ صحافت کا حق آج پاکستان کی قومی و سیاسی منظر پر غالب ہے۔ اسے دبانا، محدود تر کرنا، بڑی سے بڑی آمرانہ حکومت کے لئے ناممکن ہو گیا ہے۔

قارئین کرام! ناچیز، قومی صحافت کے متذکرہ تاریخی کردار اور موجود اور آئندہ کے پاکستان کے لازمے کی حقیقت کو زیر نظر تجزیےمیں تکرار کے ساتھ اِسی لئے ریکارڈ کر رہا ہے کہ نئی نسل باخبر رہے، خود غرض اور مختلف الشکل روایتی سیاسی اور غالب سیاسی مزاج کی مختلف قوتیں، ملک و قوم کے لئے قومی میڈیا اور اس کی آزادی کی حقیقت اور معاملے کو کلیت میں سمجھیں اور اپنی اپنی اَنا پر بڑے قومی مفاد کو اپنی نادانی سے خود ہی سبوتاژ نہ کریں کہ پاکستان کے اصل ارتقاسے تیار ہونے والے سب سے بڑے میڈیا گروپ کو سبوتاژ کرنا اور اس کے خلاف ایک ڈیزائنڈ مقابلہ گھڑنا کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں۔

اس سارے پس منظر اور اس کے تجزیے میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتار ی کے حوالے سے آزاد میڈیا پر پڑنے والی ضرب، میڈیا انڈسٹری کو حربوں سے تقسیم کرنے کو غیرمتنازع مطلوب قومی دھارے، (نیشنل کمیونی کیشن) جس کا سب سے بڑا اور غالب ذریعہ بلاشبہ قومی صحافت ہی ہے، کی قومی اور ریاستی ضرورت کو سمجھیں۔

یہ معاملہ فقط میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری یا جنگ/ جیو گروپ کے زیر عتاب ہونے کا نہیں ہے۔ یہ امر بالکل واضح اور ثابت شدہ ہے کہ جنگ/ جیو گروپ ہی خالص اور حقیقی رائے عامہ کی تشکیل کا سب سے بڑا ملکی ذریعہ ہے۔ بلاشبہ جنگ/ جیو گروپ کی پیشہ ورانہ لیڈر شپ میں پاکستان کی میڈیا انڈسٹری مطلوب فروغ پذیری کے عمل میں ہے۔

عمران حکومت خود اور اس کے دعوے کے مطابق اس کے اثر اور دبائو سے آزاد ’’نیب‘‘ متوجہ ہو کہ میر شکیل الرحمٰن کے مزید قومی ’’جرائم‘‘ کیا ہیں۔

یہ غالباً جنوری 1985یا 86ہے، جنرل اسمبلی میں افغانستان پر جاری روسی جارحیت ختم کرکے قابض سوویت افواج نکلنے کی 7-5قراردادیں بھاری اکثریت سے منظور ہونے سے ماسکو پر عالمی رائے عامہ کا بڑا دبائو پڑا۔ پاکستان کی پالیسی سے پاکستانیوں کی مخالفت کا دائرہ بڑھانے کے لئے بھارت اور پاکستان کی لیفٹ لابی کو استعمال کرنے کا ڈیزائن تیار ہوا، جس سے افغان مجاہدین کی تنظیم اپنے پاکستانی صحافی دوستوں کو آگاہ کرتی رہی۔

یکدم افغان مہاجرین کے خلاف پروپیگنڈہ شروع ہو گیا کہ ان کی آباد کاری پاکستان کے لئے بڑے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ طرح طرح کی خبریں اخبارات میں آنا شروع ہوئیں۔

جنگ پشاور سے بھی یہ سلسلہ شروع ہو گیا اور تیز ہونے لگا۔ دائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتیں مہاجرین کو پناہ دینے کی پُر زور حامی تھیں، بلکہ پی پی بھی کھلی تائید تو نہیں کر رہی تھی لیکن خاموش تھی۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ لاکھوں افغانوں کو مسلسل پناہ دیے جانے کی پاکستانی پالیسی پر دنیا بھر میں خصوصاً، امریکہ، یورپ اور اسلامی ممالک میں پاکستان کا امیج بہت بلند ہو رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نومبر 1997میں اپنے بھائی کے پاس مقیم بیمار والدہ کو لینے سویڈن گیا تو رات کا قیام کوپن ہیگن میں اپنے دوست اعجاز کے پاس کرنا تھا۔

ایئر پورٹ سے نکلنے سے پہلے سامان کی چیکنگ کے مرحلے پر میرا پاسپورٹ ہاتھ میں لیتے ہی ڈینش امیگریشن کے کارندے نے کہا کہ اچھا آپ پاکستانی ہیں، آپ کو ہم سیلوٹ کرتے ہیں، آپ لوگ کتنے اچھے ہیں کہ آپ لاکھوں مظلوموں کو اتنی فراخدلی سے پناہ دے رہے ہیں اور ہم ایک پاکستانی کو بھی چیکنگ کے بغیر نہیں جانے دیتے۔

اس کا افسوس ہے، یہ ہماری ڈیوٹی ہے۔ پھر اس نے سامان کی تفصیل ہی پوچھ کر جانے دیا۔ یقیناً ہماری اس وقت کی یہ پالیسی آج بڑی متنازع بنا دی گئی، اِس پر کچھ سطحی دلائل بھی دیئے جاتے ہیں لیکن اس کے تاریخی نتائج بہت سے اور بڑے بڑے نکل آئے اور ابھی نکلنا ہیں، لیکن تاریخ کو پروپیگنڈے سے دبانے اور مسخ کرنے کو اپنی سیاسی کامیابیاں سمجھنے لگے ہیں جو ملکی مفاد اور آنے والی نسلوں کے لئے مہلک ہے۔

ایسے میں میڈیا کا کردار بہت اہم بن جاتا ہے کہ وہ حقائق کو رپورٹ کرے اور قومی ضرورتوں کے مطابق رائے عامہ کی تشکیل میں اپنا پوٹینشل استعمال کرے۔

تازہ ترین