• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاستدان اپنی ذہنی کم مائیگی، اخلاقی دیوالیہ پن اور نالائقی کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈلیتے ہیں، ہر معاملے میں ان کی ہاں میں ہاں ملانے اور سیاستدانوں کی معصومیت، پاکدامنی اور مجبوری کا ڈھونڈورا پیٹنے والوں کو یقین کرنا پڑتا ہے مگر اٹھارہ کروڑ عوام کی عقل گھاس چرنے نہیں چلی گئی کہ وہ مفادات اور تعصبات کے کھیل کو سمجھ نہ سکیں اور 16 مارچ سے اب تک تماشا بنی نیوکلیئر ریاست سے سیاسی اشرافیہ کے سلوک پر پریشان نہ ہوں۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کے قیام کا جو طریقہ کار وضع کیا گیا وہ انتہائی ناقص اور مضحکہ خیز تھا، مشاورت کا عمل اسمبلیوں کی تحلیل سے آٹھ دن قبل شروع کرنے کی ضرورت تھی مگر ہماری سیاسی اشرافیہ پوری دنیا کے سامنے اپنی دانشمندی اور دور اندیشی کا بھانڈا پھوڑ نا چاہتی تھی اور یہ بھی ثابت کرنا مطلوب تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ناقابل اعتبار مخلوق سیاستدانوں کی ہے صرف ناقابل اعتبار نہیں، متنازعہ اور جانبدار بھی، ورنہ صرف سابق ججوں، ماہرین معیشت اور وکیلوں کے نام پر بحث نہ ہوتی۔
مقصد سیاستدانوں پر عوام اعتبار قائم کرنا اور انتخابی ساکھ کے ساتھ سیاستدانوں کی انتظامی اہلیت و صلاحیت، دیانتداری اور غیر جانبداری ثابت کرنا ہوتا تو سردار عطاء اللہ مینگل، ایئر مارشل اصغر خاں، محمود خان اچکزئی میں سے کسی کی منت سماجت کی جاتی، ہاتھ جوڑ کر نگران وزیر اعظم بننے پر مجبور کیا جاتا۔ ایئر مارشل صاحب یہ کام بخوبی کرسکتے تھے لیکن لگتا یہی ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں شفاف انتخابات نہیں چاہتیں اور کسی تجربہ کار ایماندار سیاستدان سے اس لئے خوفزدہ ہیں کہ کہیں وہ یہ کام کرہی نہ گزرے۔
سیاستدانوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ذاتی خواہشات اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی و ملکی مفاد میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے تاحال عاری ہیں۔ باہمی مفادات کے لئے تو یہ اکٹھے بھی ہوسکتے ہیں اور بندر بانٹ میں بھی ماہر ہیں مگر ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی، معاشی اورانتظامی صورتحال، دہشت گردی کے خطرات ، ڈیفالٹ کے خدشات کو ذہن میں رکھ کر مضبوط و مستحکم اور قابل اعتبار نگران حکومت کا قیام ان کی پہلی کیا آخری ترجیح بھی نہیں۔ ورنہ راجہ پرویز اشرف اور نثار علی خاں، صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف مل بیٹھ کر یہ مرحلہ چند گھنٹوں میں طے کر سکتے تھے۔ فوجی قیادت آج ہی چھڑی ہلائے تو 1993ء کی طرح شام تک کسی نام پر اتفاق ہو جائے گا سیاستدان نہ سہی کوئی کالا چور ہی سہی۔
معاملہ الیکشن کمیشن میں لے جانے کے خواہش مندوں کا خیال تو یہی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ، الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی صورت میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججوں کی ذہنی ہم آہنگی ان کے لئے کامیابی وکامرانی کا پیش خیمہ پیش ثابت ہوگی مگر یہ قران السعدین انتخابات کی ساکھ کے لئے تباہ کن اور پری پول رگنگ سے خوفزدہ سیاسی جماعتوں کی شدید ناراضی کاسبب بن سکتا ہے جس کا احساس کسی کو فی الحال نہیں مگرکھچڑی اندر ہی اندر پک رہی ہے اور شکوک وشبہات کی فضا میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بائیکاٹ سے مطمئن شائد بعد میں پچھتائیں۔
اگر الیکشن کمیشن نے مرکز اور صوبوں میں گزشتہ دو تین ماہ کے دوران ہونے والی تقرریوں، تبادلوں اور ترقیوں کو کالعدم قرارنہ دیا، ترقیاتی فنڈز اور سرکاری وسائل کی بندر بانٹ کے احکامات منسوخ نہ کئے، سپریم کورٹ کی یہ شکایت دور نہ کی کہ الیکشن کمیشن اس کے احکامات کی تعمیل سے قاصر ہے اور نگران وزیر اعظم کے تقرر میں کسی ایک جماعت کی پسند و ناپسند کا خیال رکھا تو یقین مانیے آج جو لوگ بیسویں آئینی ترمیم کے تحت نگرانوں کے تقرر اورالیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر رطب اللسان ہیں اور سیاستدانوں کی دانش و بصیرت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں وہی سب سے پہلے تنقید و اعتراض کا باب وا کریں گے اور واویلا ہوگا کہ انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، عادی مجرموں اور بدنام زمانہ افراد کو اجازت ملی تو ساری قوم سراپا احتجاج ہوگی۔
اخباری اطلاعات کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے 125 خود کش بمباروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوچکی ہے، معیشت کا بیڑا مزید غرق ہونے میں چند ہفتوں کی دیر ہے۔ سیاسی اتحاد مزید شکست و ریخت کا شکار ہیں اور بہت سے الیکٹ ایبلز اپنی اپنی جماعتوں کا رسہ تڑا کر آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آنے کی تیاری کررہے ہیں ان میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے امیدوار شامل ہیں امریکہ، سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات اپنے اپنے سیاسی گھوڑوں کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ الیکشن نہیں پراکسی وار ہے جو مئی میں پاکستان کی سرزمین پر لڑی جائے گی مگر سیاسی اشرافیہ کا خیال ہے کہ امریکہ، عالمی مالیاتی ادارے، فوج اور ایسٹیبلشمنٹ ہار مان چکے ، بلی چوہے کے کھیل پر کسی کو اعتراض نہیں اور وہ سب کو چکمہ دینے میں کامیاب ہیں۔
1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو اور 1999ء میں میاں صاحب اس زعم میں مبتلا تھے۔ 1977ء کا عددی مجموعہ 6 ہے اور اتفاق سے 2013ء کا بھی۔1977ء میں انتخاب، احتجاج انتشار اور پھر …… خدا خیر کرے۔
سیاسی قوتیں اب بھی ہوش کے ناخن لیں، ناک کے آگے کی سوچیں اور جماعتی مفادات اور گروہی تعصبات کی سطح سے بلند ہونے کی کوشش کریں اور ملک و قوم کی فکر کریں جو مزید کسی کھیل تماشے کے متحمل نہیں ۔ نگران حکومت بنائیں، کٹھ پتلیاں نہیں جو اپنے حلف کے تقاضوں سے بے خبر محض اپنے تخلیق کاروں کے اشارے پر ناچتی ہیں۔
تازہ ترین