• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یو سی ایل اور مسلم عورتوں کو پھر زندہ دفنانے کا سلسلہ

ہمارے اکثر مذہبی رہنما اور علمائے کرام ہر موقع پر بڑی بلند آواز سے یہ کہتے کبھی نہیں تھکتے کہ ہمارے ہاں عورتوں کو مکمل بھرپور اور قابل فخر حقوق حاصل ہیں ۔وہ اپنے اس دعوے کو درست ثابت کرنے کے لئے برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے لوگوں کو آنکھیں بند کرکے ادھر ادھر کے وعظ سنا کر چپ کرا دیتے ہیں۔ زبانی کلامی باتوں میں اپنی معصوم عورتوں پر بھی دھاک بٹھا دیتے ہیں۔ ہم بیچاریوں کے پاس ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب ان ہی عورتوں کے ساتھ ہمارے مذہبی رہنماؤں کے ہمنوا پالتو جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں تو یہ سب کے سب کان اور آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ان کو اس پر بولنے کے لئے مجبور کیا جائے تو یہ لوگ اپنی روایات کے نام پر ہر غلط بات کو صحیح ثابت کر دیتے ہیں پھر عورتوں کو دبا کر رکھنے والے ہر حربے کو عورتوں کے تحفظ اور ان کی بہتری کے نام پر مذہب اور روایات کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
میری اس بات کا کھلا ثبوت یونیورسٹی کالج لندن میں رونما ہونے والا ایک واقعہ بھی ہے جس میں منعقد ہونے والے ایک مباحثے کی تقریب میں عورتوں کو مردوں سے علیحدہ بٹھایا گیا۔ انسانی حقوق پر یقین رکھنے والوں نے اس پر کھل کر احتجاج کیا۔ اس یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ا س واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایسا کرنے والی تنظیم ‘اسلامک ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اکیڈمی‘ کی تقریبات پر پابندی لگا دی ہے۔
ایک ترقی یافتہ ملک کی اتنی بڑی یونیورسٹی میں اس طرح کا غیر تدریسی اور اودھم مچانے کی خبر جنگ لندن میں چند انتہائی افسوسناک تبصروں کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک تبصرہ لندن کی ایک پاکستان نژاد لیڈی کونسلر کا بھی ہے۔ انہوں نے انتہا پسند طلبہ کے اس افسوسناک اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے بڑے فخر سے کہا ہے کہ وہ تو خود بھی بارہ ربیع الاول کے جلسے میں عورتوں اور مردوں کو علیحدہ بٹھاتی ہیں۔ لندن جیسے شہر میں الیکشن لڑ کر کونسلر بننے والی ایک خاتون کے منہ سے ایسی بات سننا کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیں۔میرے دل میں بار بار یہ سوال آتے ہیں کہ کیا وہ اپنی کونسل کی اسمبلی میں بھی مرد کونسلروں سے علیحدہ بیٹھتی ہیں، کیا انہوں نے علیحدہ راستہ بھی بنا رکھا ہے۔ کیا وہ صرف عورتوں کے ووٹ لے کر کونسلر بنی ہیں- کیا انہوں نے عورتوں کے لئے علیحدہ پولنگ سٹیشن بنوایا تھا- کیا ان کی نظر میں عورتوں کے لئے غیر محرم مردوں کے آگے کنونسنگ کرنا ان سے ووٹ مانگنااور ان کا ووٹ حاصل کرنا جائز ہے۔ اگر وہ میرے ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتیں تو ذرا یونیورسٹی کالج کے ان انتہا پسند طلبہ سے مشورہ کر کے ہی کوئی جواب دے دیں۔ میں پھر دیکھوں گی کہ وہ اس شہر میں کیسے کونسلری کرتی ہیں کیسے آزاد فضا میں سانس لیتی ہیں۔ دو تین علمائے کرام نے بھی اس افسوسناک خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے انتہا پسند طلبہ کے اس اقدام کو اپنا تشخص قائم رکھنے کے نام پر صحیح قرار دے دیا ہے۔ ان علما نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ لڑکیاں علیحدہ بیٹھنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتی ہیں۔ میں ان سے احترام کے ساتھ یہ جاننا چاہتی ہوں کہ انہوں نے یہ بات اکیسویں صدی کی کس مسلمان لڑکی سے پوچھ کر کہی ہے یا کہ وہ ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر عورت کو زندہ معاشرے سے کاٹنے کی وکالت کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان علما نے اپنے بیان کو بیلنس کرنے کے لئے ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہئے-۔میری نظر میں انہوں نے یہ بات اپنے اندر کے طالبان کو غلاف میں چھپا کر رکھنے کی ایک چال کے طور پر کہی ہے ورنہ ان کو بھی پتہ ہے کہ عورت گھر میں بیٹھ کر کیسے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔میں نہیں سمجھتی کہ آج کے دور میں جو لوگ عورتوں کو علیحدہ بٹھانے کی حمایت کرتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں عورتوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔ دراصل جب وہ عورتوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے حق میں بات کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں عورت کیلئے بتیس روپے کی حق مہر کی ڈگری کے علاوہ کوئی اور اعلیٰ ڈگری نہیں ہوتی۔ ایسے علما سے اب تو شاید یہ پوچھنا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ کیا عورت غیر محرم ڈاکٹر سے علاج کرا سکتی ہے؟ چلیں یہ مسئلہ تو پھر بھی لیڈی ڈاکٹر کے پاس جا کر حل ہو سکتا ہے لیکن کبھی یہ سوال بھی تو پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا عورت غیر محرم سرجن سے آپریشن کرا سکتی ہے؟ اس کا جواب تو یو سی ایل کے انتہا پسند طلبہ شاید نہ میں ہی دیں گے لہٰذا عورت کو علیحدہ رکھنے کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ غیرت کے نام پرآپریشن نہ کراتے ہوئے مر جائے۔پھر یہ مرد یہ بات بھی یہ کہتے ہوئے عورت پر ڈال دیں گے کہ ّعورت خود ہی مرد ڈاکٹر سے آپریشن نہیں کرانا چاہتی تھی ہمارا کیا قصور ہے۔ با لکل ایسے ہی جیسے انہوں نے کہہ دیا کہ عورتیں تو خود ہی علیحدہ بیٹھنا چاہتی تھیں۔جن لڑکیوں کو علیحدہ بٹھایا گیا کیا وہ انڈر گراؤنڈ، بسوں اور ہوائی جہازوں میں غیر محرموں کے ساتھ سفر کرکے یونیورسٹی تک نہیں پہنچتیں۔ اگر ہمارے بعض سادہ لوح علما کے توسط اور مہربانی سے انتہا پسند طلبہ نے عورتوں کو علیحدہ بٹھانے کی بات منوا لی تو پھر کل کو یہ طلبہ یہ بھی کہیں گے کہ عورتوں کے لئے ایسے جہاز، انڈر گراؤنڈ یا بس میں بیٹھنا بھی جائز نہیں جس کو کوئی غیر محرم چلا رہا ہو۔ میں برطانیہ کے ایسے انتہا پسند طلبہ کے ساتھ رات دن پھرتی رہی ہوں اس لئے ساؤتھ آل کی محترمہ لیڈی کونسلر کو بتانا چاہتی ہوں کہ وہ تو آپ کی اس جمہوریت کو بھی کفر کہتے ہیں جس کے ذریعے آپ کونسلر جیسے قابل قدر عہدے تک پہنچی ہیں لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ بعض علمائے کرام کی زبان ان کے ایسے انتہائی قدامت پرستانہ اقدام پر کانپ رہی ہے۔
افسوس کہ برطانیہ جیسے جدید ملک میں رہنے والے ہمارے ایسے بعض رہنما انتہا پسند طلبہ کی چالوں میں آگئے ہیں۔میں سمجھتی ہوں کہ ہماری ایسی کونسلرز اور ایسے مذہبی رہنما حضرات میر سے بھی کہیں زیادہ سادہ نکلے بلکہ ڈبل سادہ نکلے۔ یوں لگ رہا ہے کہ یہ تو’اسی ّعطار کے لونڈے‘ سے ڈبل دوا لیتے ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ انتہا پسند طلبہ کی اس دوا سے انتہا پسندی کے مرض میں افاقے کے بجائے اضافہ ہو گا۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو وہ دن دور نہیں جب ّ‘ عطار کے لونڈوں‘ سے آپ کو یہ بھی پوچھنا پڑے گا کہ کیا غیر محرم پروفیسر کا لیکچر سننا، غیر محرم طلبہ کی کلاس میں بیٹھا جائز ہے؟ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا پھر وقت آئے گا کہ جب وہ یہ پوچھنے پر بھی مجبور کر دیں گے کیا کسی اسلامی ٹی وی پر غیر محرم مرد کی نعت سننا، چیرٹی کا پروگرام دیکھنا، واعظ سننا یا تلاوت کلام سننا عورتوں کے لئے جائز ہے۔ایسے وقت کا سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ میری کپکپی مجھے کہہ رہی ہے کہ کہیں ایسا وقت نہ آ جائے جب ہم معصوم مسلمان عورتوں کو یہ پوچھنے پر بھی مجبور کر دیا جائے کہ کیا غیر محرم مرد کی آواز میں اذان سننا جائز ہے۔
میری باتوں کا برانہ منائیں میں تو بس یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ یہ سب طالبانائزیشن کا کیا دھرا عمل ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو اس کے دوسرے قدم کے طور پر اسی یونیورسٹی کی طالبات کو مردوں کے ساتھ کلاسوں میں بیٹھنے اور پھر یونیورسٹی میں ہی جانے سے روک دیا جائے گا۔ پھر گھر کی قید ہو گی اور اس کے بعد جہالت کے غار سے ہی اکیسویں صدی کی مسلمان عورت کی لاش ملے گی۔ یہ ان مسلمانوں کے لئے انتہائی افسوس ناک مرحلہ ہو گا جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ًمسلمانوں نے14سو سال قبل عورتوں کو زندہ دفنانے کا سلسلہ بندکیاتھا۔کیا یہ ہمارے لئے کم از کم برطانیہ کے مسلمانوں کے لئے شرمناک مقام نہ ہو گا جب ہم خدا نخواستہ اپنی عورت کو 14سو سال پہلے کی قبر کے دہانے پر پہنچا دیں۔
تازہ ترین