محمد فاروق دانش
ایک زمانہ تھا کہ نوجوان فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے بہ جائے اپنے آپ کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھتے تھے۔ان کے اس انداز کوہر کوئی قدر کی نگاہ سے دیکھتا، پزیرائی کرتاتھا۔نوجوانوں میں تعریفوں کے لیے مسابقت کا دور بھی فروغ پاتا رہا،علم و ہنر کے میدان میں ترقی کرنے اوراس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ان میں مقابلے کی فضا پروان چڑھتی، وہ اپنے گھروالوں کا نام روشن کرنے کے لیےپوری تن دہی سے کوشاں رہتے تھے ۔یہ نوجوان اپنی علمی قابلیت اور اخلاقی خصوصیات کی وجہ سےگھر ہی میں نہیں بلکہ محلے میں بھی سب کی آنکھ کا تاراہوتے۔ دن کے تمام کاموں سے فارغ ہو کر بڑوں کی صحبت میں کچھ وقت ضرور گزارتے تھے تاکہ ان کے تجربۂ زندگی سے مستفید ہو سکیں۔مگر آج، جب ہم اپنے گرد و نواح کا جائزہ لیتے ہیں، تو عجیب سی بے چینی اور اضطراب کی کیفیت نظر آتی ہے۔
نسل نو کے پاس کھیل کود ،تفریح اور وقت گزاری کے لیے خاصا وقت ہے، جب کہ وہ کارآمد سرگرمیوں اور تعلیم کے حصول کے لیے اپنے اندر ہمت پاتے ہیں نہ ہی اس کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔فضول ، خطر ناک یا ایڈونچرس کاموں کو کرنےکے لیے وہ ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔ایسا ہی ایک شوق ’’سیلفی‘‘ کا بھی ہے، پہلے پہل تو بس یہ تصویریں کھینچنےکی حد تک ہی محدود تھا ، مگر اب اس میں ایڈونچر کا پہلو بھی شامل ہو گیا ہے،اس جنون میںمبتلا افراد اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی قسم کا خطرہ لینے سے گریز نہیں کرتے، اسی وجہ سے کئی گھرانوں کے چراغ بجھ چکے ہیں ، جب کہ کئی نوجوان معذوری کا بھی شکار ہو گئے ہیں۔
جدید دورکے تقاضوں کو پورا کرنا، دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنااور جدید ایجادات سے فائدہ اٹھانا ہر فرد کا حق ہے، لیکن ساتھ ہی اس کے منفی اثرات اور رحجا نات سے بچنے کی کوشش بھی ضرورکرنی چاہیے۔ نوجوان اپنی خوشی کو تو مقدم رکھتے ہیں، لیکن انہیں اپنے گھروالوںاور بڑوں کا ادب ولحاظ ہے نہ پروا، وہ ان کی نصیحتوں کو یکسر نظر انداز کرکے اپنی من مانی میں مصروف رہتےہیں، کسی کی بات کو بھی خاطر میں لانا گوارا نہیں کرتے۔
ہمارے ایک دوست کے بیٹے نے ضد کی کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر کھڑا ہو کر سیلفی بنائے گا، تاکہ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرے اور اس کے دوست دیکھ سکیں کہ وہ کتنا ’’بہادر ‘‘ ہے۔ اس وقت تو اسےسمجھا بجھا کہ روک دیا گیا، لیکن چند دنوں بعدایک شام وہ گھر والوں سے چھپ کر اپنا ’’ایڈ ونچر‘‘ پورا کرنے ٹینکی پر چڑھ گیااور سیلفی لیتے لیتے،بے دھیانی میں گِر گیا۔۔۔موقع پہ ہی اس کی موت واقع ہوگئی،اس کی زندگی تو ختم ہو ئی مگر اس کے والدین آج بھی زندہ لعش بنے جی رہےہیں۔ابھی کچھ دنوں پہلے ہی کی بات ہے ، جب سکھر بیراج پر چڑھ کر ایک نوجوان سیلفی بناتے بناتے پانی میں جا گرا، وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی، جو دس ، بارہ دنوں بعد زندہ باہر آگیا، مگر قسمت ہر وقت ، ہرکسی پر مہربان نہیں ہوتی۔
آئے دن ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں کہ، نوجوان سیلفی بناتے ہوئے گر کر زخمی یا معذور ہو گیا۔ہمارا معاشرہ نہ جانے کس ڈگر پہ چل رہا ہے کہ، والدین اپنی اولاد پرکثیر رقم تو خرچ کرتے نہیں تھکتے، لیکن ان کی تعلیم وتربیت پر توجہ دینے کا وقت ہی انہیں میسر نہیں ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ نسل نو بنا سوچے سمجھے یا احتیاطی تدابیر کےبغیر پُر خطر کام کرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔صحت مندانہ تفریح قوم کے ہر فرد کا حق ہے، اسی طرح ایک صحت مند معاشرہ اور نسل پروان چڑھتی ہے،لیکن جان لیوا تفریحات کسی طور بھی مناسب نہیں ۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی کثیر تعداد سوائے اپنی تصاویر لگانے کے اور کچھ نہیں کر رہی ، ان کے علمی کارناموں کی بات کی جائے تو وہ صفر بٹا صفر ہیں۔مجموعی طور پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ،ایسی ہر سرگرمی کو یک سر مسترد کردیں، جو ایڈونچر کے نام پر ہمارے لیے مصیبت بنی ہوئی اور ہماری نسل کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ان کے بہتر مستقبل کے لیے ہمیں موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی اور باشعور طبقے کو اپنی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے انہیں پر خطر سیلفیوں اور خطر ناک کھیلوں سے روکنا ہوگا۔ ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہیےکہ ہم جو کام کر رہے ہیں ،کیا وہ ہمارےیا قوم کے لیے فائدہ مندہے؟ اگر جواب نفی میں ملتا ہے تو پھر اس طرح کے کاموں سے باز رہنے میں ہی عافیت ہے۔ سیلفی بنانے سےبہتر ہے کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو مفیداور کارآمد سرگرمیوں میں استعمال کریں، جن سے ملک و قوم کی بھی بھلائی ہو اور وہ ترقی کرے۔