میزبان:محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی.
رپورٹ:طاہر حبیب
عکّاسی: اسرائیل انصاری
امریکا کو پروا نہیں کہ اس کے جانے کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا؟ لیکن وہ اس خطے سے لاتعلق بھی نہیں رہے گا۔ صدر ٹرمپ گاجر اور چھڑی والی حکمت عملی جاری رکھیں گے۔
امریکا اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے طالبان کو سپورٹ کرسکتا ہے۔ ہمیں آئندہ کے حالات پر نظر رکھنا ہوگی۔ افغان کبھی بھی پاکستان کے احسان مند نہیں رہے،پاکستان کو دو تین سال ملے ہیں۔ اس دوران پاکستان کو اپنی معیشت اور سیکورٹی کے لئے قدم اٹھانا ہوگا۔
اکرام سہگل
یہ امن معاہدہ نہیں، امریکا اور طالبان کے درمیان ایک ڈیل ہے، امریکا، افغانستان سے باہر نہیں نکلے گا کیوں کہ وہ اس خطے میں رہ کر پاکستان، ایران، روس اور چین پر نظر رکھ سکتا ہے۔
افغان وار سے پاکستان میں معاشرتی نقصان ہوا لیکن ہم نے معاشی فائدہ بھی اٹھایا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اسی عرصے میں مکمل ہوا، افغانستان کی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لئے امریکا کی ضرورت طالبان کو بھی ہوگی، امریکا اپنا معاشی کردار جاری رکھے گا
ڈاکٹر ہما بقائی
افغانستان میں تمام فریقوں کے درمیان مفاہمت ضروری ہے، پاکستان کا کردار صرف سہولت کار کا ہے وہ کسی شرائط کا حصہ نہیں ہے۔ یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کی آئندہ انتخابی مہم کا حصہ ہے، وہ نوبل پرائز حاصل کرنے کے بھی خواہش مند ہیں۔
اس معاہدے سے طالبان مضبوط ہوئے ہیں پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا،افغانستان میں تمام فریقوں کے درمیان مفاہمت کا عمل شروع نہیں ہوا ہے، افغانستان کی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ البتہ شدت میں کمی یا اضافہ ہوسکتا ہے
پروفیسر نوشین وصی
امریکا اور طالبان ایک میز پر بیٹھے اور برسوں سے جاری جنگ، کش مکش، بربادی، بے چینی، تشدد اور لہو میں ڈوبی ایک ایسی داستان ختم ہونے کے آثار پیدا ہوچلے جو چالیس سال سے اس خطے کا مقدر بنی ہوئی تھی۔ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوا، کمپرومائز ہوا، ڈیل ہوئی یا مفاہمت۔ نام چاہے کچھ بھی ہو، ایک نئی صبح کا آغاز ہوا ہے۔ اس معاہدے کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد خطے کی صورت حال کیا ہوگی۔ اس معاہدے کا کیا نتیجہ نکلے گا، خون میں ڈوبی ہوئی سرزمین امن کا گہوارا بنے گی یا افغانستان میں خانہ جنگی کے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوگا۔ افغان جنگ سے صرف افغان عوام ہی متاثر نہیں ہوئے۔ پاکستان بھی اس جنگ سے شدید متاثر ہوا، چالیس لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین ہماری معیشت و معاشرت پر بوجھ بنے۔
ان کی ’’میزبانی‘‘ نے ہمارے لئے مسائل پیدا کئے، سرزمین پاک تشدد اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آگئی۔ تقریباً ستر ہزار پاکستانی اپنی جان کھو بیٹھے، اربوں کھربوں روپے کا مالی نقصان ہوا، اس معاہدے کے بعد اب کیا ہوگا، پاکستان پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، پاکستان کا کیاکردار ہوگا اور کیاکردار ہونا چاہئے تھا یہ معاہدہ جو امریکا اور طالبان کے درمیان ہوا، کیا اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس خطے کے دیگر ممالک کا کیا ردعمل ہوگا؟ یہ سب جاننے کے لئےپاتھ فائنڈر گروپ کے آڈیٹوریم میں جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرِ عالمی امور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی ڈاکٹر ہما بقائی، کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی اور دفاعی و سیاسی تجزیہ کار اکرام سہگل نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جنگ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
جنگ:۔ طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے سے اس خطے بالخصوص پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ جو کبھی نہیں ہوسکتا وہ ہوگیا ہے۔ ایک ڈیڑھ سال کی کاوشوں کے بعد افغان امن ڈیل ہوگئی ہے۔ نام غلط ہے۔ یہ افغان امن معاہدہ نہیں، طالبان اور امریکا کے درمیان ایک ڈیل ہے۔ ہمارے سامنے دو طرح کی خبریں آرہی ہیں ایک خبر میں طالبان افغان عوام کے ساتھ اس ڈیل پر خوشیاں منا رہے ہیں، دوسری خبر افغان قیادت کے حوالے سے ہے یعنی وہاں جو اقتدار کا منبع ہے وہاں اس حوالے سے ابہام ہے تحفظات ہیں اور کچھ انکاری بھی لوگ ہیں، تو دو دن کے اندر یہ ڈیل خراب ہوئی اور تقریباً ستر حملے ہوئے، ایک حملہ تو بہت ہی خطرناک تھا جس میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ بال بال بچے، اس حوالے سے تین پہلو ہیں۔
پہلا یہ کہ امریکا کا اب کیا کردار ہے یا ہوگا۔ کیا امریکا کا اب بھی کردار کلیدی رہے گا۔ صدر ٹرمپ نے ملا برادر سے بات کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک خطرناک انٹرویو بھی دیا ہے۔ جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم افغانستان کو کب تک ہاتھ پکڑ کر چلا سکتے ہیں اور وہ خود اپنے کام کے لئے ذمے دار ہے، خود امریکا میں جو پالیسی میکر ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ ویت نام جیسی صورت حال لگ رہی ہے، جب امریکا افغانستان سے نکل جائے گا تو طالبان طاقت کے زور پر حکومت پر قابض ہوجائیں گے۔ امریکا میں فی الحال اس حوالے سے کھل کر بات نہیں ہورہی ہے لیکن وہاں بہرحال خدشات موجود ہیں۔ افغانستان میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔
پاکستان کے لئے یہ ایک ناخوش گوار بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان کو ایک آئینی فریم ورک میں لایا جائے۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا جائے ۔ ماضی سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ اس حد تک نہیں ہے کہ ان کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی لائی جاسکے۔ بھارت ناراض ہے، ایران ناراض ہے۔ چین کوروناوائرس کی وجہ سے بیک فٹ پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک رہ جاتا ہے جو تنہا بھارتی اور امریکی دبائو کا سامنا کرے گا۔ افغانستان کے اندر یہ صورت حال ہے کہ اشرف غنی اپنے آپ کو صدر کہتے ہیں دوسری طرف عبداللہ عبداللہ بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں۔ اشرف غنی کو امریکا نے مبارک باد دی ہے اور عبداللہ عبداللہ پر ہاتھ نہیں رکھا ہے۔
اس سے محسوس ہورہا ہے کہ امریکا، افغانستان سے اس طرح نہیں نکلے گا جس طرح افغان جہاد کے موقع پر نکل گیا تھا۔ وہ مرکزی حیثیت سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہے اور افغانستان میں اپنا کردار کم کرنے کا خواہش مند ہے، وہ جنگ کا مزید حصہ بننا نہیں چاہتا بس اپنی اتنی موجودگی ضرور چاہے گا کہ معاملات پر نگاہ رکھ سکے۔ کیوں کہ وہ اس خطے میں اپنی موجودگی کے ذریعے ایران، پاکستان، روس اور چین پر نظر رکھ سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ امریکا، مکمل طور پر افغانستان سے نہیں نکلے گا بلکہ وہ چاہے گا کہ افغانستان میں سیکورٹی کی صورت حال اس حد تک خراب رہے کہ طالبان اور افغان حکومت دونوں ہی اس پر انحصار کرتے ہیں۔
جنگ:۔ کہا جارہا ہے کہ یہ معاہدہ امریکا کی شکست کے مترادف ہے؟
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ یہ معاہدہ امریکا کی شکست کے مترادف اس لئے نہیں ہے کہ افغانستان کی معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لئے امریکا کی ضرورت طالبان کو بھی ہے۔ جو سرمایہ، امریکا افغانستان میں خرچ کرتا ہے چاہے وہ افواج پر ہو یا دیگر امور پر، اگر وہ نہ رہا تو افغانستان کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ لہٰذا امریکا اپنا معاشی کردار جاری رکھے گا ویسے بھی امریکی مفادات جن کا میں نے ذکر کیا، افغانستان میں موجود ہیں۔
جنگ:۔ امن معاہدے کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی:۔ ڈاکٹر ہما بقائی نے بڑی تفصیل سے واضح کردیا ہے کہ اس ڈیل کے خطے پر کیا اثرات ہوں گے، میں اس میں تھوڑا اضافہ کرتے ہوئے کہوں گی، پہلی بات یہ کہ اس میں سے پیس (امن) کا لفظ ہٹا دیں کیوں کہ یہ صرف ڈیل ہے۔ اس میں امریکا اور طالبان کی جانب سے افغانستان کے زمینی حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں امن کے لئے چار شرائط رکھی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ قیدیوں کی رہائی ہوگی یعنی طالبان کے پاس موجود ایک ہزار قیدی رہا کئے جائیں گے اور افغان حکومت بھی طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرے گی لیکن افغان صدر اشرف غنی نے قیدیوں کی رہائی سے انکار کردیا ہے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ افغانستان کی سرزمین تشدد کے لئے استعمال نہیں ہوگی، امریکی افواج کے انخلاء کے لئے چودہ ماہ کا ٹائم فریم طے پایا ہے۔ پہلے مرحلے میں امریکی فوجیوں کو جزوی طور پر نکلنا تھا، افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لئے دس مارچ کی تاریخ دی گئی تھی۔ دو شرائط تو پہلے ہی چار دن میں ختم ہوگئیں۔ 29؍فروری کو طالبان اور افغان حکومت کو مہلت دی گئی تھی کہ افغانستان میں تشدد کم سے کم ہونا چاہئے لیکن اشرف غنی نے قیدیوں کی رہائی سے انکار کردیا تو افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں پھر سے شروع ہوگئیں۔ افغانستان میں ستر حملے ہوئے پھر امریکا نے بھی ایک بڑا حملہ کیا۔ اب افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوں گے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے۔ افغان حکومت راضی ہوگی یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ کیوں کہ افغانستان میں تمام فریقوں کے درمیان مفاہمت کا عمل شروع نہیں ہوا ہے۔ مجھے اس بات پر بہت حیرانی ہے کہ معاہدے پر دست خط ہونے سے قبل افغان حکومت کو آن بورڈ کیوں نہیں لیا گیا۔ امن شرائط بریک ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں قیادت کا مسئلہ بھی اس معاہدے پر اثرانداز ہوگا یہ بھی ایک اہم بات ہے۔ افغانستان کا پندرہ فی صد حصہ طالبان کنٹرول کرتے ہیں۔ پچیس فی صد حصہ متنازعہ ہے نہ اس پر افغان حکومت کلیم کرتی ہے نا ہی طالبان،افغان حکومت کا تسلط بہت کم رقبے پر ہے، تو کس طرح امن قائم ہوگا۔ یہ ابھی دیکھنے کی بات ہے۔ ایران نے اپنے تحفظات کا اظہار کردیا ہے، پاکستان کا کردار تو صرف سہولت کار کا ہے، پاکستان کسی شرائط کا حصہ نہیں ہے۔ معاہدے پر دست خط کی تقریب میں بھارت کا نمائندہ بھی موجود تھا۔ جہاں تک امریکی مفادات کا تعلق ہے، امریکا اپنے تمام مفادات حاصل کرچکا ہے۔لیکن اس کے باوجود وہ خطے میں موجود رہے گا کیوں کہ اب وہ اپنی توجہ چین پر مرکوز کرے گا۔ صدر ٹرمپ کا ایک جملہ بہت ہی خطرناک ہے، انہوں نے کہا کہ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ہم مزید فورس کے ساتھ حملہ کریں گے۔ اور حملہ ایسا ہوگا جو کسی نے سوچا تک نہ ہوگا۔ اس جملے سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ افغانستان میں آئندہ کیا ہوگا اور کیا ہونے جارہا ہے۔ معاہدے میں جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ بھی کم تعجب خیز نہیں ہے۔ طالبان نے لکھوایا ہے کہ یہ معاہدہ افغان امارات اسلامیہ اور امریکا کے درمیان ہے۔ ریاست کو ریاست کے مقابلے میں رکھنا بین الاقوامی سیاست میں بہت اہم ہے۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا امریکا افغان امارات اسلامیہ کو تسلیم کرے گا؟
جنگ:۔ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کے کیا اسباب تھے؟
اکرام سہگل:۔ پہلے تو آپ کو تاریخ کو دیکھنا پڑے گا۔ سوویت یونین، افغانستان میں کیوں داخل ہوا؟ اس کی سیاسی وجوہ کے ساتھ ساتھ جیوپولیٹیکل عوامل بھی تھے۔ سوویت یونین کا زار پیٹر کے زمانے سے بحرہند تک پہنچنا ایک خواب تھا۔ چوں کہ وہ فوجی لحاظ سے بالادست تھے اور سمجھتے تھے کہ افغانستان سے ان کی دوستی ہے لہٰذا وہاں ان کی فوجی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور وہ وہاں پہنچ کر اپنا آئندہ قدم اٹھائیں گے۔ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے تاریخ کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں کیا۔ اگر وہ تاریخ پڑھتے تو دیکھتے کہ اس خطے میں سکندر اعظم بھی ناکام ہوگیا تھا۔ یہاں ویت نام کی مثال دی گئی، ویت نام کی جنگ معمولی نہیں تھی۔ 1975ء میں جس طرح امریکیوں نے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سفارت خانے سے انخلاء کیا، اس کی افغانستان میں ضرورت پیش نہیں آئی۔ آج وہی ویت نام امریکا کا دوست ہے۔ اب آپ آجائیں اس سوکالڈ پیس ڈیل پر! یہ صرف ایک فریم ورک معاہدہ ہے۔ جس طرح صدر امریکا جانسن نے اپنے ایک سینئر جنرل کو ویت نام بھیج کر پوچھا تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے تو اس کا جواب تھا کہ فتح کا اعلان کریں اور واپس آجائیں، سو صدر ٹرمپ نے بھی یہی کیا ہے، کیوں کہ یہ انتخابات کا سال ہے۔ صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ امریکا افغانستان سے نکل جائے گا۔ انہوں نے پینٹاگون اور اپنے درمیان توازن رکھا ہے۔ بتدریج امریکی دستوں کا انخلاء ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ امریکا، افغانستان سے ضرور چلا جائے گا اسے کوئی پروا نہیں ہے کہ اس کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا، لوگ لڑیں گے، طالبان قابض ہوجائیں گے۔ تاریخ کیا کہتی ہے، سوویت یونین نے زبردست افغان آرمی کھڑی کردی تھی وہ دو مہینے میں طالبان میں تبدیل ہوگئی۔ افغان آرمی کمانڈ کرنے والے زیادہ تر افراد ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی امریکا چلا گیا کوئی روس چلا گیا، وہ واپس تب آئے جب طالبان حکومت ختم ہوئی۔ ابھی امریکا نے جو افغان آرمی بنائی ہے۔ انہیں تربیت دی ہے، اس کی کمپوزیشن دیکھ لیجئے۔ اعلیٰ افسران تاجک ہیں یا ازبک، اس کے بعد پشتو اسپیکنگ ہیں۔ جس دن امریکی واپس گئے یہ بکھر جائیں گے پچھتر فی صد افغان رقبہ طالبان کے پاس ہوگا۔ حکومت صرف ہرات، مزار شریف یا کابل تک محدود ہوجائے گی۔ہر ایک طرح سے فیس سیونگ مرحلہ ہے۔ مجھ سے پہلے ایک اچھی بات کہی گئی ہے کہ معاہدے میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا، اگر افغان حکومت کو شامل کرتے تو بھارت بھی شامل ہوتا۔ بھارت نے افغانستان کے ذریعے پاکستان کے خلاف پراکسی وار لڑی ہے۔ پہلے سوویت یونین کے پیسوں سے ان کی لاشوں پر اور بعد میں امریکیوں کی لاشوں پر اور ان کے پیسوں سے۔ اس پراکسی وار میں بھارت کو ایک دھیلا بھی خرچ کرنا نہیں پڑا۔ بس ایک آدھ لائبریری بنادی یا چھ سات سڑکیں بنادیں۔ یہ بھارت کا ایک بہت بڑا کھیل تھا، امریکیوں نے اس کو سمجھا ہے لیکن وہ بولتے نہیں ہیں۔ اسی طرح سوویت یونین نے بھی بھارت کو تمام مذاکرات سے باہر رکھا تھا۔ بھارت کی گفت و شنید میں کہیں بھی موجودگی نہیں تھی۔ بھارت کا پراکسی افغان حکومت ہے۔ افغان حکومت وہی سب کچھ کرتی ہے جو بھارت کی طرف سے کہا جاتا ہے۔ اب دیکھئے افغان حکومت نے پہلے ہی دن کہہ دیا کہ طالبان قیدی رہا نہیں کئے جائیں گے۔ صدر اشرف غنی کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے وہ تو کابل سے باہر تک نکل نہیں سکتے۔ حالیہ حملے کو دیکھ لیجئے جہاں اعلیٰ افغان شخصیات موجود تھیں وہاں حملہ ہوا اگرچہ حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی ہے۔ افغان پیس ڈیل سے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو عزت مل گئی ہے لیکن آپ یاد رکھیں کہ دنیا میں افغان سے زیادہ ناقابل اعتبار قوم کوئی نہیں ہے۔ پینتیس ملین افغان پناہ گزین ہمارے ہاں رہ کر گئے حامد کرزئی نے چودہ پندرہ سال پاکستان میں گزارے وہ اور ان کا پورا خاندان پاکستان میں پلا بڑھا، تعلیم حاصل کی۔ حامد کرزئی سمیت آٹھ سو افغان لیڈر آئی ایس آئی کے پے رول پر تھے۔ اس کے بعد کرزئی امریکا چلے گئے۔ دولت مند بن گئے آج افغانوں کی دولت مند ترین کمیونٹی دبئی میں بڑے بڑے بنگلوں اور ولاز کی مالک ہے۔ افغان کو خوراک پاکستان دیتا ہے، سفری سہولیات مفت فراہم کرتا ہے۔ لاکھوں افغانوں کو پاکستان نے تعلیم دی ہے، آج پاکستان کے ہر بڑے شہر میں افغان موجود ہیں۔ پشاور میں تو بہت ہی زیادہ ان کی املاک ہیں۔ کچھ دن پہلے تک خیبر پختونخوا کے اسپتالوں میں افغان مریض آتے تھے، لیکن یہ پاکستان کے احسان مند نہیں ہیں پاکستان کو اہمیت ملی ہے تو اس وجہ سے کہ پاکستان نے پہلے تحریک طالبان پاکستان کو ختم کیا، لیکن تھوڑا بہت حصہ باقی ہے، ختم نہیں ہوا، اس انفرا اسٹرکچر کو ختم کرنا ضروری ہے کیوں کہ یہ بعد میں پھر منظم ہوجائیں گے۔ جب افغانستان کے پشتون علاقوں میں افغان طالبان کو حیثیت ملے گی پاکستان کے افغان سرحدی علاقوں کے آس پاس افغان طالبان کی بیلٹ ہے، اثر و رسوخ ہے تو چنانچہ افغان طالبان قیادت سے رابطے ہوں گے، احسان اللہ احسان فرار نہیں ہوا۔ اسے بھگایا گیا ہے تاکہ وہ ڈیل کرسکے، مجھے توقع نہیں کہ افغان طالبان پاکستان کے خلاف جائیں گے لیکن ہوسکتا ہے کہ دو چار سال بعد انہیں یہ خیال آئے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کیوں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو پاکستان کو دو تین سال ملے ہیں۔ اس دوران پاکستان کو اپنی معیشت اور سیکورٹی کے لئے قدم اٹھانا ہوگا اور انتظامات کرنا ہوں گے، دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے امریکا کے ساتھ تعلقات روایتی اور اتار چڑھائو پر مبنی ہیں۔ وہ ابھی ہمیں استعمال کررہے ہیں۔ جب آپ کی ضرورت ختم ہوجائے گی تو وہ خدا حافظ کہہ دیں گے۔ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کو زبردست موقع ملا ہے۔ سڑکیں بہتر ہوگئی ہیں اس دوران اگر تین چار بڑے ڈیم بن جاتے ہیں تو پانی کا مسئلہ بھی کسی قدر کم ہوجائے گا۔
جنگ:۔ پانی کے حوالے سے بھارت کا بہت بڑا دبائو ہے؟
اکرام سہگل:۔ یہ سرکاری سطح کا دبائو ہے، ایک چھوٹی سی بات بتاتا ہوں جب آپ پاور اسٹیشن بناتے ہیں تو اس میں چھبیس ملین ڈالر لگتے ہیں، مین جنریٹر بائن اور بوائلر ہوتے ہیں۔ یہ دونوں چین میں بنتے ہیں، جنرل الیکٹرک کے لائسنس کے تحت تو ہمیں بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا۔
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ افغانستان دراصل ایک تجربہ گاہ ہے، یہاں امریکا نے ہر طرح کی فورس استعمال کی ہے۔ ڈیزی کٹر بم بھی استعمال کیا ہے جسے تمام بموں کی ماں کہا جاتا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ امریکا نے اپنی تمام تر طاقت استعمال کرنے کے بعد بھی گھٹنے ٹیکے ہیں اور مذاکرات کی طرف آیا ہے یہ جو ڈیل ہوئی ہے، اس میں سب اپنے اپنے موقف اور مقام سے پیچھے ہٹے ہیں، امریکا کہتا تھا کہ ہم کبھی طالبان سے بات نہیں کریں گے۔ طالبان اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹے ہیں کہ افغانستان میں غیرملکی قابض فوجوں کی موجودگی تک وہ امریکا سے مذاکرات نہیں کریں گے اور افغان حکومت بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹی ہے۔ مفاہمت ہوئی ہے لیکن یہ طالبان کی مجبوری نہیں تھی۔ یہ امریکا اور افغان حکومت کی مجبوری تھی۔ اس ڈیل کو بریک کرنے کے باوجود بھی طالبان کی حیثیت برقرار رہے گی اور پاکستان کی بھی، لیکن مشکل بھی آسکتی ہے۔ ہمیں دونوں پہلو پر نظر رکھنا ہوگی۔
جنگ:۔ اس ڈیل میں افغان حکومت کی کیا حیثیت ہے؟
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ افغان حکومت نے اس ڈیل کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے نمائندوں کے بھی ڈائیلاگ ہوئے ہیں۔ میں امن معاہدے کے موقع پر دبئی میں تھی، وہاں وفد میں دو خواتین ایسی بھی تھیں جو ان ڈائیلاگ میں شریک تھیں اور انہوں نے طالبان سے کہا کہ آپ کی طرف سے خواتین کیوں نہیں ہیں تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ آپ موجود ہیں یہی بہت ہے۔ افغان طالبان سے گفت و شنید کرنا، امریکا اور افغان حکومت کی مجبوری ہے کہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ طالبان اپ پوزیشن آف پاور میں چلے گئے ہیں۔ وہ کوئی باقاعدہ فوج نہیں ہیں کہ جنرل کا حکم آجائے اور سب پیچھے ہٹ جائیں۔ یہ اپنے اپنے طریقے اور کاز پر چلیں گے۔
ڈاکٹر نوشین وصی:۔ افغانستان، صدر ٹرمپ کے لئے انتخابی مہم کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنی گزشتہ انتخابی مہم میں کئے جانے والے تمام انتخابی وعدے پورے کئے ہیں۔ انہوں نے یروشلم میں امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا، اب وہ جاتے جاتے افغانستان میں اپنی کام یابی دکھانا چاہتے ہیں کیوں کہ امریکا میں اس حوالے سے بہت دبائو موجود ہے، وہاں بہت سے وہائٹ پیپرز پبلک کردیئے گئے ہیں جن میں ماضی میں کئے جانے والے کام یابی کے دعووں کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ سیاست میں کوئی دشمن، کوئی دوست نہیں ہوتا، امریکا کے اس خطے میں مفادات ہیں میرا خیال ہے کہ افغانستان کی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔ البتہ شدت میں کمی یا اضافہ ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ معاہدے کے نتیجے میں طالبان زیادہ مضبوط ہوگئے ہیں اور ان کی حیثیت تسلیم کرلی گئی ہے۔ اس وقت بھارت کی اور ایران کی جو اندرونی صورت حال ہے اس میں ممکن ہی نہیں کہ وہ صورت حال کو تبدیل کردیں۔ میرے خیال میں اس وقت کا ماحول امن کے لئے سازگار نہیں ہے۔ میں افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی ہوتے دیکھ رہی ہوں۔ ہمیں زیاد خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان پر دبائو کا تعلق بھی افغانستان کی صورت حال سے ہے تاکہ پاکستان ڈومور کے تقاضے پورے کرتا رہے۔ پاکستان کے لئے اب زیادہ مشکلات نظر آرہی ہیں۔
اکرام سہگل:۔ ہمیں اس حوالے سے زیاد فکرمند نہیں ہونا چاہئے، ہاں! جب امریکا، خطے سے نکل جائے تو ہمیں آئندہ کے لئے غور کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ پاکستان گرے لسٹ میں ہے، ایران بلیک لسٹ میں ہے، افغانستان وہائٹ لسٹ میں ہے، یہی سیاست ہے۔
عبدالغفار خانانی:۔ امریکا اور افغانستان کی بات ہوئی لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا جارہا کہ پاکستان کی معیشت پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری معیشت افغان وار سے متاثر ہوئی لیکن ہم نے ’’جہاد‘‘ کے نام پر ڈالر بھی کمائے۔ صدر کارٹر نے جب ہمیں امریکی امداد کی پیش کش کی تو جنرل ضیاء الحق نے اسے مونگ پھلی کہہ کر مسترد کردیا تھا۔ پھر صدر ریگن نے پاکستان کی امداد میں اضافہ کیا، اسی دور میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رہا، بڑھتا رہا آج ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ بے شک ہمارے لئے مشکلات بھی آئیں، معاشرے میں اسلحے کی بہتات ہوئی، منشیات کا کاروبار بڑھا، معاشرہ تہہ و بالا ہوا، اخلاقی قدروں کو نقصان پہنچا۔ لیکن ہم نے معاشی فائدہ بھی اٹھایا۔ پہلے پاکستان جنگوں کا حصہ رہا، اب معاشی ترغیبات کا حصہ ہے۔ سی پیک ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی ہے۔ یہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ کوئی ملک اپنے کارڈ کس طرح کھیلتا ہے، سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنے کارڈ کس طرح کھیلے گا، افغان پناہ گزین، پاکستان میں بھی آئے تھے اور ایران میں بھی۔ لیکن پاکستان کا طرزعمل کچھ تھا اور ایران کا کچھ اور، عمران خاں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان اب کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ امن کا حصہ بنے گا۔ معاشی ترقی کا حصہ بنے گا۔ تو ہم نے شام کی جنگ میں حصہ لینے سے انکار کیا، یمن کی جنگ کا حصہ نہیں بنے۔ ہم نے ایران کے خلاف جانے سے بھی انکار کیا یہ بڑی اہم باتیں ہیں۔
ڈاکٹر نوشین وصی:۔ یہ معاہدہ نہیں ابھی تو صرف شرائط طے پائی ہیں۔ معاہدہ ایسا ہوکہ جس میں تمام فریق شامل ہوں۔
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ یہ معاہدہ نہیںہے، کمپرومائز ہے۔ بعض باتوں میں دانستہ طور پر ابہام رکھا گیا ہے۔ امریکا کا رویہ بدلنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ پہلے طالبان کو وہائٹ ہائوس میں بلایا تھا پھر ان ہی طالبان پر بم باری کی گئی۔ اگر امریکا کے مفادات ہوں گے تو پھر طالبان کو سپورٹ کریں گے۔
اکرام سہگل:۔ میں تائید کرتا ہوں، جس طرح امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات روایتی ہیں تو طالبان کے ساتھ بھی ایسے ہیں۔ ہم ایک چیز کو نظرانداز کررہے ہیں صرف انتخابی مہم ہی نہیں، نوبل پرائز کا حصول بھی صدر ٹرمپ کا ہدف ہوسکتا ہے۔ اوباما کو بھی تو ملا تھا۔ ان کے علاوہ ماضی میں دوسرے امریکی صدور کو بھی مل چکے ہیں۔
ڈاکٹر ہما بقائی:۔ امریکا کے مفادات کے مطابق یہ ڈیل ہوئی ہے تو معاملہ آگے چلے گا۔
ڈاکٹر نوشین وصی:۔ صدر ٹرمپ کو نوبل پرائز مل بھی سکتا ہے۔ امریکا کو ہمیشہ ایک خطرے کی ضرورت رہتی ہے۔ پہلے کمیونزم کا خطرہ اٹھایا تھا پھر اسلامی انتہا پسندی کا۔ اب وہ چین کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ آگے گا تو لہٰذا خطے میں امریکا کی موجودگی رہے گی۔ اگر اس مقصد کے لئے طالبان کی ضرورت پڑی تو وہ ایسا ہی کرے گا، طالبان کو بنانے والا بھی تو وہی ہے۔
جنگ:۔ یہ تو نظر آرہا ہے کہ وہاں امن قائم نہیں ہو رہا ہے، حملے بھی جاری ہیں؟ امریکی انتخابات سال کے آخر میں ہوں گے، اگر اس وقت تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوا تو کیا ہوگا؟
اکرام سہگل:۔ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی ان کی شخصیت سے واضح ہوتی ہے۔ وہ گاجر اور جھڑی والی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اگر وہ اشرف غنی کو ہٹانا چاہیں تو ایسا کر گزریں گے، امریکا نے وہاں ایک طویل جنگ لڑی ہے، اپنے فوجیوں کی جانوں کی قربانی دی ہے۔ آپ یقین رکھئے کہ امریکا اس خطے کو اس طرح نہیں چھوڑے گا۔