• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے کورونا وائرس (Covid-19) کی قیامت ہے کہ پھیلتی جاتی ہے۔ گزشتہ چار وائرسوں کے مقابلے میں یہ زیادہ سُرعت انگیز اور تباہ کُن ہے، جو ہر لحظہ ارتقائی عمل میں اپنی اثرانگیزی بڑھاتا جاتا ہے اور ضربوں کے حساب سے زقندیں بھرتا کرۂ ارض کے ہر کونے کھدرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ 

اس کے شکار مریض تین ماہ میں ایک لاکھ ہوئے، اگلے ایک لاکھ 12دنوں میں، تین لاکھ فقط 4روز میں اور پانچ لاکھ مریض محض ڈیڑھ روز میں۔ اس کے بعد ماہرین کی گنتی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے ہاتھوں اموات کا تخمینہ امریکہ جیسے دولت مند ملک میں 80ہزار تک لگایا جا رہا ہے۔ 

اس سے نبٹنے کے لیے تین طرح کے حکومتی ردّعمل سامنے آئے۔ اوّل چین جہاں اس سے ابتداً غفلت برتی گئی لیکن پھر انتہائی سبک رفتاری اور انتہائی سخت و موثر اقدامات سے نہ صرف اس پہ قابو پا لیا گیا بلکہ اب اس کی دوسری لہر سے نبرد آزما ہونے کی تیاری ہے جبکہ پچھلی لہر کو تھام لیا گیا ہے۔ 

دوم، جنوبی کوریا میں جہاں چین میں پہلا کیس سامنے آنے کے ساتھ ہی حفظِ ماتقدم کے وسیع اقدامات کیے گئے جن میں پوری آبادی کی طبی چھان بین کی گئی اور مرض کو پھیلنے سے پہلے ہی روک دیا گیا۔ سوم، وہ ممالک تھے جنہوں نے اس وبا کو اہمیت نہ دی، کنفیوژن رہا، بروقت اقدامات نہ کیے گئے اور جب وبا سر سے گزر گئی تو ہوش آیا۔ 

نتیجتاً آج اٹلی، اسپین، برطانیہ اور اب امریکہ اس وبا کی زد میں سب سے آگے ہیں۔ اس تیسری قسم میں ایران بھی شامل ہے، جہاں ایک ’’اجتہادی غلطی‘‘ ایرانی عوام پر عذابِ الٰہی بن کر ٹوٹی۔ انہی ممالک میں پاکستان کی حکومت بھی شامل ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے نزدیک کورونا کا ممکنہ حملہ اہم تھا نہ اس سے نبٹنے کی کوئی حکمتِ عملی مارچ کے وسط تک سامنے آئی اور یہ تفتان کے راستے اور وہاں بنائے گئے قرنطینہ میں کسی مناسب انتظام کے بغیر ہزاروں مریض اس جراثیم کو لیے پورے ملک میں پھیل گئے۔ 

اگر کوئی اس وبا کے سامنے کھڑا ہوا بھی تو سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور وہ ڈاکٹر اور صحت کا عملہ جو جان پر کھیل کر فرضِ مسیحائی ادا کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پاکستان ایران سے سبق سیکھتا، اجتماع ہوئے اور مساجد میں باجماعت نماز پر اصرار کا کفارہ اب پورا ملک ادا کر سکتا ہے۔ 

گناہگاروں کی معافی تو کیا ہونا تھی، ناکردہ گناہوں کی سزا پوری قوم بھگت سکتی ہے۔ جس پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے اس کا فقط ایک چوتھائی غریبوں اور متاثرین کے لیے وقف ہے، باقی لیپا پوتی ہے۔ فقط تین ہزار روپے سے ایک کروڑ گھرانوں کا گزارا کہاں ہونے لگا۔ 

غربت کی لکیر سے نیچے چھ کروڑ لوگوں میں مزید چھ کروڑ کا اضافہ ہونے جا رہا ہے جو اب اس وبا کے ہاتھوں پھیلی بےروزگاری کے باعث 12کروڑ ہو جائیں گے۔ ڈالر سے روپیہ کا تناسب 170روپے تک جا پہنچا، مہنگائی آسمانوں سے جا لگی اور شرحِ منافع 11فیصد پر آگری تو 2ارب ڈالر کی ہاٹ منی بھاگ نکلی۔ اب دُنیا کو 1930ء سے بڑے ڈپریشن اور 2008ء کے مالیاتی بحران سے کہیں زیادہ معاشی و مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔ اگلے تین ماہ کے لیے دُنیا کے جی 20ممالک نے 5کھرب ڈالرز کا جو پیکیج دیا ہے، اس سے شاید اگلے تین ماہ گزارا ہو جائے اور اس پیشین گوئی کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر نے ابھی آنا ہے، تب تک عالمی مالیاتی نظام کا کیا بنے گا، کسی کو اندازہ نہیں۔ 

پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے وہ اور بھی ہولناک ہوں گے اور اب ان کے لیے قرضوں سے جان خلاصی کے علاوہ چارہ نہیں۔ جو امر انتہائی تشویشناک اور افسوسناک ہے، وہ یہ ہے کہ عالمی سرمایہ دار دُنیا اور اس کے حکمرانوں کے سامنے فقط عالمی کارپوریشنز اور بڑے سرمایہ داروں کی منافع خوری مقدم ہے۔ آزاد منڈی، نیو لبرل معاشی حکمت اور ریاست کی کاروبارِ زندگی سے بےدخلی پہ اصرار کرنے والوں کو اگر نجات کا راستہ دکھائی بھی دیا تو ریاست کی مداخلت میں۔ 

سرمایہ دار ریاستیں جو پیسہ عوام کو دیں گی بھی تو وہ بھی واپس سرمایہ داروں ہی کی جیب میں چلا جائے گا۔ کورونا وائرس کے حملے نے نہ صرف سرمایہ داری نظام کی منافع خوری کو ظاہر کیا ہے، بلکہ انسانی صحت، ماحولیاتی بقا اور سماجی تحفظ سے اس کی مجرمانہ غفلت کو بھی عیاں کر دیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلابات اور موجودہ ’’ترقی‘‘ کی ہوش رُبا پیش رفت کے باوجود آج کورونا وائرس و دیگر وبائی امراض کے سامنے انسان بےبس نظر آ رہا ہے۔ 

کیونکہ جب ساری سائنس و تحقیق کی توجہ ملٹری، انڈسٹریل کمپلیکس کی نت نئے اسلحے کی تباہ کُن دوڑ ہو یا پھر ادویات و دیگر اشیا کی صنعتوں کی منافع خوری کو بڑھانے پہ ہو تو پھر حشرات الارض کے حقِ زندگی، حقِ صحت اور حقِ نمو اور حقِ روزگار کو بڑی کارپوریشنوں کے مفادات پہ قربان کر دیا جاتا ہے۔ آج نیویارک جیسا عالمی سرمائے کا دارالحکومت اس قابل نہیں کہ کورونا وائرس کے مریضوں کی ایک چوتھائی تعداد کو طبی سہولتیں فراہم کر سکے۔ اس وائرس کے مہلک اثرات بھی طبقاتی ہیں۔ ناگزیر سماجی خلوت اور گھر بندی بھی وہی اپنا سکتے ہیں جن کے گھر میں دانے ہیں۔ 

غریب اور محنت کش عوام ہی اس کا لقمۂ اجل بننے جا رہے ہیں۔ ریاست صرف حکمران سرمایہ دار طبقوں ہی کی ماں کا کردار ادا کرتی رہے گی۔ تاآنکہ اس نظامِ زر اور منافع کی خاطر انسانوں کے استحصال اور تذلیل کا نظام نہیں بدلتا۔ تب تک وبائیں عوام الناس ہی کے لیے عذاب رہیں گی اور سرمایہ داروں کی منافع خوری کا ایک اور ذریعہ۔ یہ اب پوری انسانیت کی نجات کی جنگ ہے اور کرۂ ارض کو منافع خوروں کی پھیلائی آلودگی سے بچانے کی آخری لڑائی۔ 

اس سے نبٹنے کے لیے ریاستوں کو مضبوط کرنے کے بجائے لوگوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

اٹھو، وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی

دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا

تازہ ترین