• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے اثرات سے نپٹنے کے لئے معیشت کے مختلف شعبوں کیلئے تقریباً 1ہزار ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے، یومیہ اُجرت پر کام کرنے والوں اور مزدوروں کو 2سو ارب روپے کا ریلیف دیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے برآمدی صنعت کو فوری طور پر ایک سو ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ دیں گے، اس کے علاوہ ٹیکس ادائیگیوں کو بھی موخر کیا جائے گا، ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو چار ماہ تک تین ہزار روپے دیں گے، اس کیلئے ڈیڑھ سو ارب روپے رکھ رہے ہیں، یوٹیلیٹی اسٹورز کیلئے 50ارب روپے رکھے گئے ہیں، بجلی اور گیس کے بلوں کی قسطیں کی جا رہی ہیں یہ قسطیں تین ماہ کیلئے ہوں گی، ان سے وہ صارفین مستفید ہوں گے جو 300یونٹ تک بجلی خرچ کرتے ہیں اور جن کا گیس کا بِل دو ہزار روپے ماہوار تک ہوتا ہے، کھانے پینے کی چیزوں بالخصوص دالوں، چینی اور گھی پر ٹیکس ختم یا کم کر دیے گئے ہیں، ایمرجنسی میں استعمال کیلئے ایک سو ارب روپے الگ سے رکھے گئے ہیں، انہوں نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 15روپے لیٹر کمی کا اعلان کیا اور بینکوں کے قرضوں پر شرح سود ڈیڑھ فیصد کم کرکے 11فیصد کر دی، اس کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے اقدامات کا اعلان کیا، جن کا مقصد کورونا بحران کے دوران معیشت کا پہیہ رواں رکھنا اور اس سے متاثر ہونے والوں کی امداد کرنا ہے، وزیراعظم نے ان اقدامات کا اعلان اسلام آباد میں سینئر صحافیوں اور اینکر پرسنز کے ساتھ ملاقات میں کیا۔

وزیراعظم نے اپنی گفتگو اور سوالات کے جوابات میں اپنے اقدامات کی وضاحت کی اور ایک بار پھر لاک ڈاؤن کے مسئلے پر تفصیلی بات کی اور کہا آج ہم جو اقدامات کر رہے ہیں ان کا نتیجہ مثبت نکلتا ہے یا منفی، اس کے بارے میں ابھی سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ انہوں نے کہا، ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن نہ کیا گیا تو ملک تباہ ہو جائے گا، سب سے زیادہ خطرہ ہمیں کورونا وائرس سے نہیں، بلکہ خوف کے اثر سے غلط فیصلے کرنے سے ہے، لاک ڈاؤن کی کئی قسمیں ہیں، لاک ڈاؤن کا آخری مرحلہ کرفیو ہے، آج بھی میں کہتا ہوں کہ کرفیو سے معاشرے پر بہت بُرا اثر پڑے گا، ہم ملک بھر میں کرفیو کے متحمل نہیں ہو سکتے، کرفیو سے غریب لوگ متاثر ہوں گے، میری سب سے پہلی ترجیح غریبوں تک کھانا پہنچانا ہے، یہ سوچنے والی باتیں ہیں کیا ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ کچی آبادیوں میں کھانا پہنچا سکیں، پاکستان کے فیصلے ایک چھوٹی سی ایلیٹ کلاس کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں، لاک ڈاؤن کو لیکر عمومی سوچ یہی ہے۔ غلط فیصلے کر کے معاشرے میں تباہی نہیں لانا چاہئے۔

ایک طرف وزیراعظم کی یہ تعمیری اور مثبت سوچ ہے، جس سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا لیکن اس کے نتیجہ خیز اثرات تبھی مرتب ہو سکتے ہیں، جب عملی اقدامات بھی اسی سوچ کی روشنی میں کیے جائیں، اگر سوچ تو مثبت ہو، لیکن عملی اقدامات اس سے لگا نہ کھاتے ہوں تو حسبِ منشا نتائج نہیں نکل سکتے۔ کورونا وائرس نے پوری دُنیا کو متاثر کیا ہے اور ہر ملک میں اپنے اپنے وسائل کو پیش نظر رکھ کر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ نے 10کھرب ڈالر سے بھی زیادہ مراعاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے، جس کا زیادہ تر فائدہ ان لاکھوں کروڑوں ملازمین کو پہنچانا مقصود ہے، جو کورونا بحران سے پیدا ہونے والی کساد بازاری سے متاثر ہوئے ہیں یا آئندہ ہوں گے۔ امریکہ ایک سپر طاقت ہے اور اس کے مالی وسائل کا بھی کوئی شمار و قطار نہیں، لیکن پاکستان بھی اگر اپنے مالی وسائل کو دانشمندی سے استعمال کرے تو یہاں بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے اور بحران سے بخیر و خوبی نپٹا جا سکتا ہے۔

کورونا وائرس نے جینے کے ساتھ مرنا بھی مشکل تر بنا دیا، اس وبا کی زد میں آ کر جاں بحق ہونے والوں کی تدفین بھی مشکل اور مہنگی تر ہو گئی کہ عام خاندان اس سے عہدہ برآ نہیں ہو پائیں گے۔ پشاور سے ملنے والی خبر کے مطابق کورونا سے متاثرہ مریض کی وفات پر میت کے غسل اور تدفین کے حوالے سے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں، ان کے مطابق میت کو غسل دینے والوں کو بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا، غسل سے تدفین تک میں حصہ لینے والے افراد کیلئے لازم ہوگا کہ وہ ماسک، دستانے اور لباس کا خصوصی اہتمام کریں، جبکہ میت کو پلاسٹک کے کور میں لپیٹا جائے اور غسل کے بعد لکڑی کے بکس میں بند کر دیا جائے۔ متوفی کی میت کو وصول کرنے سے غسل اور تدفین تک کے عمل میں حصہ لینے والوں کے استعمال شدہ کپڑے، آلات، دستانے اور ماسک وغیرہ جلا دیے جائیں۔ میت کے دیدار کیلئے اس کو ہاتھ لگانے سے بھی گریز کیا جائے اور چہرہ صرف لکڑی کے تابوت کے شیشے والے حصے سے دیکھا جائے۔ ان ہدایات پر سختی سے عمل کرنے کیلئے نگرانی بھی کی جائے گی جبکہ میت اور مریض کو گھر سے اسپتال اور اسپتال سے گھر منتقل کرنے کیلئے خصوصی ایمبولینس کا استعمال کیا جائے گا، جو جراثیم کش ادویات کے اسپرے سے صاف کی جائے گی۔ ان ہدایات پر اسی طرح سختی سے عمل کی ہدایت کی گئی ہے، جس طرح ٹیسٹ کے بعد کورونا سے متاثرہ مریض کے علاج کیلئے اسے بالکل الگ تھلگ آئسولیشن میں رکھنے کے بعد علاج کیا جاتا ہے اور کوئی بھی حفاظتی لباس کے بغیر اسے مل یا دیکھ نہیں پاتا۔ ان ہدایات کی روشنی میں عوام کا تاثر یہ ہے کہ اس وبا نے علاج تو علاج، مرنا بھی مشکل بنا دیا ہے کہ حفاظتی غسل و تدفین کیلئے اِس قدر اخراجات عام لوگوں کے بس سے باہر ہیں۔ اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو یہ بندوبست بھی کرنا ہوگا کہ جینا تو جینا، مرنا بھی مشکل ہو گیا۔

تازہ ترین