• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاک ڈائون، کرفیو، قرنطینہ مراکز کے قیام، گرفتاریوں، سزائوں، جرمانوں اور دوسری امتناعی تدابیر کے باوجود کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں کا پھیلائو پاکستان سمیت پوری دنیا میں کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ مریضوں، متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس کے علاج کی دنیا بھر میں ابھی تک کوئی دوا دریافت نہیں ہو سکی۔ عالمی عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں کم از کم ایک سال لگے گا اور امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے حکام نے بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عام تاثر کے برخلاف کورونا سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال مزید 6ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ریسرچ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس وبا سے دنیا کی پونے 8ارب آبادی میں سے سات ارب انسان متاثر ہوں گے جن میں سے چار کروڑ مارے جائیں گے۔ ایسے میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے ہی بنی نوع انسان کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں کورونا کی وبا پھیلنے کی رفتار روز بروز تشویشناک ہوتی جا رہی ہے، پیر کے روز تک اس موذی مرض سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 20ہو گئی ہے جبکہ مصدقہ مریض 16سو سے زیادہ ہیں اور جن افراد کے متاثر ہونے کا شبہ ہے ان کی تعداد ایک ماہ میں 13ہزار 3سو 24تک پہنچ چکی ہے۔ پچھلے 24گھنٹے میں 54نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر کئے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں بہتری کی توقع بجا ہو گی لیکن ایسے حالات میں ہمارے معاشرے کی عمومی مزاج میں جو لاپروائی اور بےاحتیاطی پائی جاتی ہے اس کے نقصانات بہت خوفناک ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ حکومتی پابندیوں کے باوجود غریب، نادار اور مزدور طبقے کا روزگار متاثر نہ ہو اور اسے دو وقت کی روٹی ملتی رہے۔ انہوں نے جہاں ایسے لوگوں کیلئے مفت راشن کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے ہیں وہاں کسی بھی علاقے میں اشیائے خور و نوش کی قلت پیدا نہ ہونے دینے کا بندوبست بھی کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے خوراک اور دوسری ضروری اشیا پہنچانے والی گاڑیوں کیلئے شاہراہیں کھولنے کے علاوہ اضافی مال بردار ٹرینیں چلانے کا بھی حکم دیا ہے تاہم مسافروں کی آمدورفت پر پابندی برقرار رہے گی۔ اشیائے خوردنی کی ترسیل کیلئے شاہراہیں کھولنا لازمی اقدام ہے تاکہ کسی بھی جگہ قحط جیسی صورتحال پیدا نہ ہو اور بنیادی انسانی ضروریات پوری ہوتی رہیں مگر اس سلسلے میں فیصلے اچھی طرح سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں تاکہ کوئی اس سہولت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے۔ کورونا کی تشخیص کیلئے نئی لیبارٹریوں کا قیام اور حفاظتی کٹس کی تیاری بھی حکومت کے منصوبے میں شامل ہے۔ چین سے وینٹی لیٹرز، ماسک اور دوسرا حفاظتی سامان منگوایا جا رہا ہے جس کی چوتھی کھیپ پاکستان پہنچ چکی ہے۔ چین نے کورونا وائرس پر جس طرح قابو پایا ہے وہ پوری دنیا کیلئے قابلِ تقلید ہے۔ اس سلسلے میں چینی ڈاکٹروں نے پاکستان میں کام شروع کر دیا ہے۔ پنجاب میں جہاں کورونا کے مریضوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے، وبائی امراض کے انسداد کے لئے آرڈیننس نافذ کیا گیا ہے جس سے صورتحال میں بہتری کی توقع ہے۔ ملک اس وقت بہت بڑے بحران سے دوچار ہے جس سے نمٹنا قیادت کے تدبر کا امتحان ہے۔ وزیراعظم درست کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا سے حکومت تنہا نہیں نمٹ سکتی۔ بڑے فیصلے کرنے کے لئے اجتماعی سوچ درکار ہوتی ہے، کوئی غلط فیصلہ ہو گیا تو اس کے نتائج بھی درست نہیں ہوں گے۔ اس لئے حکومت، سیاسی جماعتوں، دینی مکاتبِ فکر کے رہنمائوں اور ریاستی اداروں کو مل جل کر اور سوچ سمجھ کر چلنا ہو گا تاکہ پیش آمدہ مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔

تازہ ترین