• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرونا وائرس،حقائق، معلومات اور صحیح فیصلہ دیر سے لینے کی قیمت

حقائق، معلومات اور صحیح فیصلہ دیر سے لینے کی قیمت ۔ یہ وہ تین فقرات ہیں جو اس کرونا وائرس اور آج کے نظام کے تعلق کو واضح کر رہے ہیں۔

 دسمبر 2019ء میں چائنہ کے شہر ووہان Wuhan سے شروع ہونے والا COVID-19 اس وقت دنیا کے 202 ممالک میں اس تحریر کے لکھے جانے کے وقت تک 41000 سے کچھ ہی کم افراد کی جان لے چکا ہے جبکہ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہے ۔ 

مجھے معلوم ہے کہ اس تحریر کے ابتدائی فقرے سے پاکستان جیسے ملک میں حکومت ہی مراد لی جائےگی لیکن صرف یہی ایک مطلب حقیقی طور پر خطرے میں موجود عام آدمی کے کمزور اجتماعی کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ 

اس فقرے کی مزید وضاحت سے قبل آیئے واپس چین کے شہر ووہان چلتے ہیں جہاں دسمبر میں کورونا شروع ہوا اور دو سے زائد ماہ گزرنے کے بعد مارچ میں ڈبلیو ایچ او نے اسے ایک عالمی وبا قرار دیا ۔

 آگے بڑھنے سے قبل ہم معلوم تاریخ کی کچھ پرانی وباؤں کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں، 1346 سے لے کر 1353 تک جاری رہنے والا Bubonic plague یورپ، افریقہ اور ایشیا کے کئی حصوں تک پھیلا اور کروڑوں کی جان لے گیا، انتہائی کم ذرائع رسل و رسائل میں بندرگاہوں پر لنگر انداز جہازوں پر موجود چوہے اس کی وجہ قرار پائے۔

پھر 1852سے لے کر 1860 تک جاری رہنے والے بخار میں انسان خوش قسمت رہے کہ صرف ایک ملین کی جان گئی۔ 

1889 سے لے کر 1890 میں بھی ایک بخار کی وبا پھیلی اسے روسی بخار کا نام دیا گیا، اس میں 10 لاکھ لوگ مارے گئے۔ اس وقت تک بیکٹیریا لوجی اپنے تجربات کے ذریعے واضح انداز میں چیزیں سمجھنے کے قابل ہوچکی تھی۔ 

1910 سے 1911 تک انڈیا میں چیچک کی وبا پھیل گئی، اسے Sixth Cholera Pandemic کا نام دیا گیا،  اس میں 8 لاکھ افراد لقمئہ اجل بنے،  یہ بعد میں مڈل ایسٹ، نارتھ افریقہ، روس،ایسٹرن یورپ اور امریکہ تک بھی پہنچی لیکن اس دوران امریکی یہ سمجھ چکے تھے کہ متاثرہ مریضوں کو صحتمندوں سے الگ کرنا ہے۔ 

جنوری 1819ء میں نوع انسانی کا ستارہ پھر گردش میں آگیا، اب کے اس کا نام سپینش بخار تھا، یہ جنوری 1918ء سے دسمبر 1920ء تک جاری رہا اور دنیا بھر میں 50 کروڑ افراد کو متاثر کرنے کے بعد دنیا کی اس وقت موجود مجموعی آبادی کے مختلف حصوں میں 10 سے لے کر 20 فیصد کو قبر کی آغوش میں لے گیا۔ 

1956ء سے 1958ء کے درمیان ایک اور وبا آکھڑی ہوئی، اسے Asian Flue کہا گیا، یہ 1956ء میں چائنہ کے صوبے Guizhou سے شروع ہو کر سنگا پور پہنچا، ہانگ کانگ گیا اور وہاں سے امریکا جہاں 70 ہزار افراد اس کا لقمہ بنے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وبا میں 20 لاکھ لوگ مارے گئے ۔ 

 1968 میں Influenza Flue Pandemic نامی وبا آگئی، سنگاپور اور ویتنام سے شروع ہونے والی یہ وبا بھی تین ماہ میں ہی فلپائن، انڈیا، آسٹریلیا اور یورپ تک پھیل گئی ۔1969ء تک چلنے والی اس وبا سے 10 لاکھ افراد جان سے گئے۔ جن میں 5 لاکھ افراد کا تعلق ہانگ کانگ سے تھا۔ 

وباؤں کی یہ فہرست شاید کچھ طویل ہوگئی ہے لیکن انسان کے بہت سے وبائی تجربات میں سے ایک اور تجربے HIV/ AIDS کا ذکر نہ کرنا تشنگی کا سبب رہے گا۔ 

1976ء میں کانگو سے شروع ہونے والی اسی ایک وبا سے اب تک دنیا بھر میں 32 ملین افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ان میں سے 25 اعشاریہ 7 ملین کا تعلق افریقہ سے تھا اور ابھی بھی ہے۔ 2005ء سے لے کر 2012ء تک یہ وبا اپنے عروج پر نظر آئی۔ 

ڈبلیو ایچ او کے مطابق گو آج اس بیماری کا علاج اور اس کی ادویات دستیاب ہیں لیکن مختلف ممالک میں دستیابی کے موجود فرق کے سبب یا یوں کہہ لیجیئے کہ عدم دستیابی کے باعث صرف 2018ء میں اس بیماری کی وجہ سے 7 لاکھ 70 ہزار افراد جان کی بازی ہارے۔

آج اس وائرس سے متاثر 62 فیصد کو(  Antiretroviral therapy  ART) نامی علاج میسر ہے جبکہ 53 فیصد علاج کے بعد اس قابل ہوگئے تھے کہ یہ مرض ان سے دوسروں کو منتقل نہ ہو لیکن اس سب سے اہم بات یہ ہے کہ 2018 میں ایڈز کا شکار 79 فیصد افراد یہ جانتے تھے کہ یہ وائرس ان میں موجود ہے ۔

ان تمام وباؤں سے گزرنے کے بعد آج انسانیت کو پھر سے ایک وباء کا سامنا ہے۔

 گلوبلائزیشن کے انتہائی تیز رفتار پہیئے پر سوار ہو کر اگر یہ 200 سے زائد ممالک تک جا پہنچی ہے تو اسی گلوبلائزیشن کے نتیجے میں دنیا بھر میں پھیل چکے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذرائع کے سبب ہی گذشتہ صدیوں کی طرح انسان اب تک بڑے جانی نقصان سے محفوظ ہے۔ 

 اس وائرس کو لیباٹری میں بنایا گیا یا یہ بھی پہلے کی طرح قدرت کے تاریخی دائرے ہی کا ایک سفر ہے، مجھے خوشی ہے کہ پوری دنیا میں موجود اسٹیبلشمنٹ نے مال کے مقابلے میں انسانی جان کو اہمیت دی، جمع شدہ زر سے معیشت ناپنے کے اس دور میں بقائے نسل آدم کی کوششیں انتہائی لائق تحسین اور شرف آدمیت کا خوبصورت اظہار ہیں ۔ 

اس کا ایک سبب ابلاغ اور معلومات کی وہ رسائی بھی ہے جو ایک عام شخص کو اپنے بارے میں بہت حساس بنا دیتی ہے، یہی شاید وہ واحد سبب بھی ہے جس نے امریکی صدر ٹرمپ اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن جیسے نقیبان معیشت کو انسان اور معیشت کے درمیان چنائو میں مزید دیر کرنے سے روک دیا۔

اگر ہندسے پیش نظر رہیں تو 7 ارب آبادی، 200 ملکوں تک وبا کا پھیلاؤ اور تین ماہ میں 40 ہزار کے قریب اموات بظاہر بری گنتی نہیں لیکن گزشتہ تین ماہ کا تجربہ یہ بھی بتارہا ہے کہ معلومات تک رسائی کے نتیجے میں زندگی کا پہیہ مکمل طور روک دینے پر آمادہ انسانوں کے درمیان جہاں بھی جنازوں کو کاندھے میسر نہ آ سکے وہاں فیصلہ سازی میں تاخیر ایک اہم عنصر رہا۔ 

خدا کرے کہ جس وائرس کے سبب بستیاں اپنے مکینوں سے محروم ہوئیں وہ میری سرزمین تک پہنچتے ایک سے دوسرے کو منتقلی کی صلاحیت کھو چکا ہو لیکن میری اس خواہش کو اگر شکست ہوئی تو تاریخ کے آئندہ اوراق میں یہ تجربہ بھی شوق سے پڑھا جائے گا کہ ایک ملک کے باشندوں نے بھوک کو موت پر ترجیح دی تھی۔ اور بادشاہ نے آبدیدہ دل کے ساتھ ان کا کہا مان لیا تھا۔

پس تحریر ۔۔۔

میں اپنی بات کہہ چکا ہوں لیکن نہ جانے کیوں اک ہوک ہے جو اندر سے اٹھ رہی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنے لوگوں سے صاف کہدوں کہ اپنے وزیراعظم کی تمام تر دردمندی کے باوجود بھوک کے مقابل موت کو مت ترجیح دو۔ رزق شاید آج بہت کم ہو لیکن اس وائرس کے سبب اپنے حصے کا رزق لیے بغیر مت جانا۔

تازہ ترین