• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشرافیہ کے ایک صاحبِ ثروت رکن، سفالوس کے گھر محفل سجی ہے۔ اس محفل میں علم و دانش کی علامت سقراط، افلاطون کے بھائی، گلاکن اور ایڈیمانتوس کے علاوہ اس دور کا اہم سوفسطائی مفکر تھریسائی مارکس بیٹھے ہیں۔ سوال و جواب کا سیشن چل رہا ہے۔ سوالوں کا مقصد حقیقت تک رسائی کی کاوش بھی ہے اور ایک دوسرے کو دلائل سے زچ کرکے اپنے مکتبِ فکر کو درست ثابت کرنے کی تہذیبی حکمتِ عملی بھی۔ قبل مسیح کا سوفسطائی معاشرہ اور آج۔۔۔ سقراط سفالوس سے پوچھتا ہے، بھلا بتاؤ تو سہی، اتنی زیادہ دولت سے تمہیں سب سے بڑی برکت اور فضیلت کونسی حاصل ہوئی۔ سفالوس فخر سے کہتا ہے کہ میرے عملی تجربے نے مجھے بتایا اور سمجھایا ہے کہ کثیر دولت باعث فضیلت و برکت ہے۔ اسی دولت کی بدولت میری فیاضی، دیانتداری اور انصاف وجود میں آئے۔ لوگوں کے میرے بارے میں ایسے خیالات اور رویے کے پسِ پشت میری بیشمار دولت ہے۔ دولت طاقت بھی ہے اور دنیا طاقت کو مانتی ہے۔ اگر آج لوگ مجھے فیاض، دیانت دار انصاف پسند سمجھتے ہیں تو ان کی سوچ کو میری ثروت نے اس سمت راغب کیا ہے۔ سقراط ایک اور سوال پوچھتا ہے، اچھا یہ بتاؤ، انصاف سے تمہاری کیا مراد ہے۔ سفالوس ہر سوال کے جواب میں گھوم پھر کر ایک ہی استدلال کو سامنے لاتا ہے۔ اس کی بیان کردہ انصاف کی تعریف سے سقراط مطمئن نہیں ہوتا کیونکہ وہ تمام تعریفیں دولت اور طاقت کے اردگرد گھومتی ہیں۔ اس موقع پر تھریسائی مارکس بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سقراط پر غصہ کرتا ہے اور کہتا ہے، اگر تم معلوم کرنا چاہتے ہو کہ انصاف کیا ہے تو اس سوال کا جواب دو۔ سوال پر سوال نہ کرو۔ تمہیں اس بات پر فخر نہیں ہونا چاہئے کہ تم دوسروں کے دلائل کا جواب دے سکتے ہو۔ سوال کا کیا ہے۔ سوال تو کوئی بھی کر سکتا ہے۔ مشکل کام جواب دینا ہے۔ تم اس سوال کا جواب دو۔ سقراط خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے سوالوں کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تاکہ منطقی طریقے سے حاضرینِ محفل کو آفاقی سچائیوں اور انصاف کے نظریے کی طرف لے جا سکے۔ وہ ایسے سوال جاری رکھتا ہے جن کے اندر جواب بھی پنہاں ہوتا ہے لیکن اس کے اشاروں کو سمجھ کر عقلی طریقے سے آگے بڑھنے کے بجائے، تھریسائی مارکس مشتعل ہوکر کر انصاف کی تعریف لاگو کرتے ہوئے کہتا ہے۔ اگر جواب سننا چاہتے ہو تو سنو۔ میں کہے دیتا ہوں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، طاقت صداقت ہے اور انصاف میں طاقتور کا مفاد پنہاں ہوتا ہے۔ حکومت کا کوئی بھی نظام ہو۔ برسراقتدار لوگ ہمیشہ اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھ کر قانون بناتے ہیں۔ وہ اس سے واسطہ نہیں رکھتے کہ ان قوانین سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا بلکہ وہ صرف یہ پیش نظر رکھتے ہیں کہ اس میں ان کا مفاد کیا ہوگا۔ اپنے مفاد کے لیے بنائے گئے قوانین وہ رعایا پر لاگو کرتے وقت اعلان کرتے ہیں کہ یہ انصاف ہے اور جو شخص ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے یہ کہہ کر سزا دیتے ہیں کہ تمہارا عمل انصاف کے پیمانوں کے خلاف ہے۔ یہاں میرے مدِنظر وہ بےانصافی ہے جو بڑے پیمانے پر ہوتی ہے کیونکہ اس حکومتی سطح پر، اربابِ اقتدار بڑے پیمانے پر معصوم اور محکوم رعایا کو فریب دے کر جبر سے ان کا مال ہتھیا کر اس طرح انہیں غلام بنا لیتے ہیں کہ وہ حاکموں کو بجائے چور اور فریب کار کہنے کے انہیں معتبر اور معزز سمجھتے اور پکارتے ہیں۔ جو لوگ ناانصافی کو برا بھلا کہتے ہیں ان کے مطمح نظر یہ نہیں ہوتا کہ کہیں وہ خود ناانصافی کے مرتکب نہ ہو جائیں بلکہ انہیں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ ناانصافی سے انھیں تکلیف نہ پہنچے۔ افلا طونی فکر پر چلنے والوں نے سچ اور انصاف کو خیر سے جوڑ کر نیکی کا نتیجہ مسرت اخذ کیا۔ دنیا کو طاقت کی لاٹھی سے ہانکنے والوں نے، سقراط، افلاطون اور ارسطو کے زریں خیالات، زمانے کی جھولی سے نکال کر لائبریریوں میں محدود کردیے مگر زمین کی گردش آج کے انسان کو پھر قبل مسیح کے اس مقام پر لے آئی ہے جہاں وقت کے سقراط کو سوفسطائیوں نے گھیر رکھا ہے۔ جو میں کہتا ہوں وہ سچ ہے اسے مانو، کا راگ اونچی آواز میں نشر ہو رہا ہے۔ اپنی یا اپنے ہم مکتب کی کسی کوتاہی پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ سوال کا جواب بھی سوال ہی میں ملتا ہے کہ مقصد خود کو اچھا ثابت کرنا نہیں بلکہ صرف دوسروں کو جھٹلانا ہے لیکن جب تک دن کو طلوع ہونے سے روکا نہیں جا سکتا امید برقرار ہے۔ دیکھیں کل کا سورج زمانے کے کشکول میں دانش کی دستار رکھتا ہے یا زہر کا پیالہ۔ سوالیہ معاشرے میں اک سوال یہ بھی ہے کہ کیا صرف زمین گردش کرتی پرانے مقامات سے باربار گزرتی ہے یا انسانی ذہن بھی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین