• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے انسداد کے لیے ہونے والے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کے مزدور اور محنت کش دہرے خطرات سے دوچار ہیں۔ ان کی معیشت اور روزگار کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کو بھی خطرہ ہے۔ یہ بات ’’ہیو من رائٹس واچ‘‘ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہی ہے۔ 

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی دوری، قرنطینہ اور کاروبار کی بندش کے باعث پاکستان کے مزدور اور محنت کش شدید معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان مشکلات کو کم کرنے کے لیے پاکستان کی حکومتوں کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ فاقہ کشی کا شکار لوگ باہر نکلنے پر مجبور ہوں گے۔ 

اس طرح ان کی صحت اور زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ اگلے روز کراچی کے علاقے قائدآباد، ملیر میں ہزاروں افراد راشن کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ ان کئی ہزار افراد میں خواتین، بچے اور بوڑھے بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اس سے دوسرے روز کراچی کے علاقے ماڑی پور میں ایسا ہی منظر دیکھا گیا، جہاں ہزاروں افراد ’’روٹی دو، راشن دو ‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ 

بیروزگار ہونے والے اور فاقہ کش لوگوں کے ایک دو بڑے احتجاجی مظاہروں سے سماجی دوری اور لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھنے کے لیے حکومت کے لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات غیر موثر ہو گئے۔ اس طرح کے جم غفیر میں شامل افراد نے نہ صرف خود اپنی صحت اور زندگیوں کو خطرے میں ڈالا بلکہ باقی لوگوں کے لیے بھی خطرے کا باعث بن گئے ہیں۔ 

راشن کے لیے صرف کراچی شہر میں مختلف مقامات پر درجنوں مظاہرے ہو چکے بلکہ ہو رہے ہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے جو خوف پیدا ہوا تھا اور جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور رہنے لگے تھے، بھوک اور فاقوں نے غریبوں میں یہ خوف ختم کر دیا ہے۔ ان کے باہر آنے اور سینکڑوں اور ہزاروں افراد کے ایک ساتھ اجتماع سے ان لوگوں میں کرونا کا مزید خوف پیدا ہو گیا ہے، جنہیں بھوک اور فاقوں کا خوف نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس اور دیگر شعبوں پر معاشی اثرات کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار بھی دیے گئے ہیں تاہم رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کا کوئی ریکارڈ یا ڈیٹا نہیں ہے کیونکہ وہ کارخانوں، دکانوں اور دیگر کاروباری اداروں میں تقرر نامے کے بغیر کام کرتے ہیں۔ ملک میں لیبر قوانین بہت کمزور ہیں اور انہیں کوئی تحفظ نہیں۔ پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں بہت بڑی تعداد میں محنت کش ایسے ہیں، جو روزانہ کی بنیاد پر اپنا روزگار حاصل کرتے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے غریبوں اور محنت کشوں کو راشن اور مالی امداد کے لیے پیکیجز اور پروگرامز کا اعلان کیا ہے لیکن ان پر عمل درآمد میں بہت تاخیر ہو گئی ہے۔ بارہ تیرہ روز سے لوگ گھروں میں بند ہیں اور زیادہ تر لوگوں کو امداد یا ریلیف میسر نہیں ہو سکی۔

 لوگوں کی بےچینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تادم تحریر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے راشن کی تقسیم کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن راشن کی تقسیم یا مالی امداد کی فراہمی کا جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے، اس میں نہ صرف شدید خامیاں ہیں بلکہ اس میں ان لوگوں کو فائدہ پہنچنے کا امکان نہیں ہے، جو سب سے زیادہ لاک ڈاؤن اور کاروبار کی بندش سے متاثر ہوئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے راشن اور مالی امداد دینے کے لیے جس ڈیٹا پر انحصار کیا ہے، اس سے حقیقی متاثرین تک پہنچنا ممکن نہیں۔ 

یہ ڈیٹا یا تو احساس پروگرام کا ہے یا زکوٰۃ کونسلز کا، جسے سیاسی بنیادوں پر مرتب کیا گیا ہے۔ اگر اس ڈیٹا سے ہٹ کر بھی لوگوں کو رجسٹریشن کے لیے حکومتوں کی طرف سے کچھ نمبرز بھی فراہم کیے گئے ہیں لیکن بہت کم ضرورت مندوں کو رجسٹر کیا جا رہا ہے کیونکہ مالی امداد کے لیے رجسٹریشن کی شرائط پر سفید پوش اور زیادہ تر غریب لوگ پورے نہیں اترتے۔ متاثرین میں دہاڑی دار مزدوروں کا کسی ڈیٹا میں اندراج نہیں ہے۔ 

رکشہ چلانے والے، ٹھیلے لگانے والے، فیکٹریز، کارخانوں اور دکانوں پر کام کرنے والے، تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدر اور دیگر بےشمار شعبوں میں روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والے کسی سرکاری ڈیٹا کا حصہ نہیں ہیں۔ گھروں اور دیگر جگہوں پر کام کرنے والی خواتین بھی بیروزگار ہو گئی ہیں۔ ان میں زیادہ تر غریب اور محنت کش لوگ ایسے ہیں، جو مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے شہروں کی کچی آبادیوں اور جھونپڑیوں میں آباد ہیں۔ 

ان کے شناختی کارڈ کا پتہ اس ضلع کا نہیں ہے، جہاں وہ رہتے ہیں۔ ’’مائیگریٹ ورکرز‘‘ بہت زیادہ متاثر ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے سفید پوش گھرانے ہیں، جو نہ تو راشن کیلئے قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے راشن اور امداد کی تقسیم کے نظام اور طریقہ کار میں خامیوں کو فوری طور پر دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر لوگ خوراک اور راشن کیلئے باہر سڑکوں پر آگئے، جیسا کہ کراچی میں ہو رہا ہے تو حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے۔

 اس سے نہ صرف لوگوں کی صحت اور زندگیوں کو خطرات میں اضافہ ہو گا بلکہ ان کے معاشی حالات بھی مزید بگڑ جائیں گے۔ دہرے خطرات سے بچنے کیلئے حکومتوں اور کمیونٹی کے مالدار طبقات کو پہلے سے زیادہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

تازہ ترین