• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس نے ہنگامی صورتحال حال پیدا کرکے یہ واضح کردیا کہ ہر ملک میں سب سے اہم ترین شعبہ صحت کا ہے- اسی لیے طبی شعبے کو ہنگامی بنیادوں پر وقت اور حالات کے مطابق رکھنا اور اس میں مسلسل ریسرچ کے ماحول کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے-

طبی شعبے سے قطعا مراد صرف ڈاکٹرز اور سرجنز نہیں بلکہ تمام پیرامیڈیکل اسٹاف اور ٹیکنیشینز جن کا اپڈیٹ ہونا اور نئی بیماری، جراثیم اور وائرس سے متعلق معلومات حاصل کرنا اور ان سے نمٹنے کے لیے جدید طریقے معلوم کرنا بہت اہم ہے -

یہی وجہ ہے کہ کہ چین نے اس بیماری پر نسبتا اور ملکوں کے جلدی قابوپالیا کیونکہ اسکا پیرامیڈیکل اسٹاف ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا - مریضوں کے بستر، وینٹی لیٹرز سے لے کر ان کے کارخانے ہر قسم کی دوائی، جراحی اور دوسری ضرورت کی چیزیں بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار تھے - ادھر ہم لوگ معمولی سے ماسک تک چین سے منگوا رہے ہیں -

ہم کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کام کرنے کے قابل نہیں ہیں- اس جذبے کے لئے تربیت کی اشد ضرورت ہے -کیا ہماری ادویات، جراحی اور میڈیکل سے متعلق سامان تیار کرنے والی فیکٹریاں اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ ہنگامی بنیادوں پر اپنی پیداوار کے انداز کو بدل سکیں؟ کیا پلاسٹک سے بننے والے مریضوں کے بستر کو بنانے میں کوئی خاص تکنیک درکار ہوتی ہے؟

ماسک بنانا میں کس جدید تکنیک کی ضرورت ہے؟ سینیٹائیزر واٹس، ایپ پہ بیٹھا ہوا شخص بنانے کا طریقہ بتا رہا ہے- لیکن ہمارے ہاں اس کو بھی درآمد کیا جا رہا ہے- اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کو بھی وقتی حالات اور ضروریات کے مطابق صنعتی شعبے کو ترقی دینا اور ان کی رہنمائی کرنا نہیں آتا -

اب جب کہ یہ بہترین موقع تھا کہ طبی شعبے سے متعلق صنعتوں کو فروغ دینے کا تو ہمارے وزیر اعظم صاحب تعمیراتی شعبے کی محبت میں گرفتار ہو گئے ہیں- 2002 میں کیے گئے غلط فیصلے کی وجہ سے تعمیراتی شعبے کی قیمتوں میں معجزاتی عروج آ یا جس کو معاشیات کی زبان میں میں ببلز (bubbles) بنانا یعنی اصل کے بجائے مصنوعی طریقوں سے قیمتوں کا بڑھنا-

یہی وجہ تھی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ سارے بچت کاروں نے تعمیرات کے شعبے میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی- ایک طرف تو اس میں زیادہ ٹیکس نہیں تھا اور دوسرے رشوت کی آمدنی کے بہت مواقع تھے-

تیسرے درست طریقے سے لکھت پڑھت نہ ہونے کی وجہ سے ایک ایک فائل بار بار بک جاتی تھی اور بغیر ٹیکس سرمایہ لگانے والوں کا پیسہ بنتا چلا جاتا تھا- دوسری طرف صنعتکاری میں تنزلی کا رجحان ہورہا تھا -لوگ اس طرف پیسہ لگانے کو تیار نہ تھے-

کیونکہ یہاں منافع بہت دیر سے ملتا ہے- جبکہ تعمیرات میں پہلے لوگ پیسہ جمع کرواتے ہیں تب جا کے بلڈر کام شروع کرتا ہے- اس طرح تعمیراتی شعبے میں منافع کئی سو گناہ ہوتا ہے- لیکن معاشرتی لحاظ سے تعمیراتی شعبہ وقتی روزگار فراہم کرتا ہے جبکہ پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کل وقتی ہوتی ہے اور آمدنی اور روزگار کا پہیہ چلتا رہتا ہے -

پھر اس طرف توجہ دی گئی اور تعمیراتی شعبے کو ٹیکس بیس میں لانے کے لیے قانون بنائے گئے - اب عملدرآمد ہونا باقی تھا کہ وزیراعظم صاحب کو بہت طریقے سے سمجھا دیا گیا کہ تعمیرات کے شعبے کو ترقی دینا وقت کی اہم ضرورت ہے اور وہ بھی سبسڈی کے ذریعہ-

سن 2000 کے اوائل میں تعمیراتی شعبے کو فروغ حاصل ہوا تھا کالا دھن سفید ہوا تھا اور اب پھر کالے دھن کو سفید کرنے کا ذمہ اس حکومت کو سونپا گیا ہے- چلیں پھر چلیں FATF کی پیشی میں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین