کراچی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1978میں ملک کے سب سے بڑے شہر سے ٹی ٹوئینٹی کرکٹ کا آغاز ہوا۔رمضان میں دوپہر کو وقت گذارنے کے لئے کرکٹرز اور شائقین کو ساڑھے تین گھنٹے گراونڈ لانے کا منفرد تجربہ ناظم آباد سپر کپ کے نام سےکیا گیا۔یہ ٹورنامنٹ پہلی بار شالیمار گراونڈ پر ہوا ۔شعیب حبیب کی قیادت میں ٹیم نے پہلا ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز ملا جبکہ شعیب حبیب نے اس فارمیٹ کی پہلی سنچری بنائی۔ناظم آباد سپر کپ سے شروع ہونے والا یہ میلہ پھر کراچی میں رمضان کا لازمی حصہ بن گیا ۔اسی فارمیٹ کو پھر دنیا بھر میں اپنایا گیا اور آج ٹی ٹوئینٹی فارمیٹ کو دنیا کا سب سے مقبول فارمیٹ قراد دیا جاتا ہے جس کا ورلڈ کپ ہر دو سال بعد ہوتا ہے۔2009میں لارڈز میں یونس خان کی قیادت میں پاکستان نے یہ ورلڈ کپ جیتا۔
اس سال اکتوبر نومبر میں آسٹریلیا نے ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا ہے ۔لیکن یہ ٹورنامنٹ کورونا کے باعث غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے اسی دوران اب یہ بات تقریبا طے ہوگئی ہے کہ رمضان میں کراچی کے گراونڈز میں ویرانی اور اداسیوں کے ڈیرے ہوں گے۔کورونا وائرس کی وجہ سے اس ماہ کوئی رمضان ٹورنامنٹ نہیں ہوگا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے کورونا وائرس کے باعث کراچی میں کسی رمضان کرکٹ ٹورنامنٹس کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ اس سال کراچی میں رمضان کا کوئی ٹورنامنٹ نہیں ہوگا اور کراچی کے میدان سونے رہیں گے۔کھلاڑیوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔آرگنائزر اور کرکٹ صنعت سے وابستہ لوگوں کو شدید مالی بحران کا شکار ہونا پڑے گا۔کرکٹرز کے ساتھ ساتھ گراونڈ اسٹاف کے گھروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔پی سی بی نے کورونا وائرس کے باعث کرکٹ کی تمام سرگرمیاں معطل کی ہوئی ہیں۔پی سی بی دفاتر جو چھ اپر ایل تک بند تھے اب 16اپریل کو دوبارہ کھیلیں گے اس کا انحصار کورونا کی صورتحال پر ہوگا۔پی سی بی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی آرگنائزر نے رمضان ٹورنامنٹ کی این او سی کے لئے درخواست نہیں دی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں کسی بھی سطح کے ٹورنامنٹ یاسرگرمی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔رمضان کرکٹ ٹورنامنٹس کے انعقاد کے لئیے منتظمین کو پی سی بی کا این او سی درکار ہوتی ہے اور پی سی بی بھاری فیس لے کر این او سی جاری کرتا ہے۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ اس سال رمضان میں رمضان کرکٹ ٹورنامنٹس کی کھلاڑیوں کی حفاظت کے لئے اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
حالات بہتر ہونے پر حکومتی ہدایت کے مطابق آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ سالہا سال میں پہلی بار ملک بڑے رمضان ٹورنامنٹ نہیں ہوں گے۔جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے کرکٹرز کو ایک ماہ کے دوران لاکھوں روپے کا نقصان ہوگا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے بڑے کرکٹرز جن میں کامران اکمل،عمر اکمل،وہاب ریاض ،سرفراز احمد ،محمد سمیع ،فواد عالم ،انور علی ،وغیرہ نمایاں ہیں انہیں ایک ماہ کے دوران تین سے پانچ لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی تھی۔جبکہ چھوٹےفرسٹ کلاس کرکٹرز کو ایک ماہ کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے پچاس ہزار کی آمدنی ہوتی تھی۔کرکٹرز کے لئے ملنے والی اس رقم کو عید کی شاپنگ کی رقم قرار دیا جاتا تھا۔اس سال رمضان کے دوران اور عید سے قبل کھلاڑی اس معقول رقم سے محروم ہوجائیں گے۔ کراچی میں سالہا سال سے رمضان کے دوران پوری رات کرکٹ کا میلہ سجتا تھا ۔بھرپور رمضان بھر پور کرکٹ کے سلوگن سے پورے ماہ کھلاڑی مصروف رہتے تھے۔
ملک میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ ٹیمیں بند ہونے کے بعد ملک کے درجنوں چھوٹے بڑے کرکٹرز بے روز گار ہونے کے بعد شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ان کے گھروں کے چولہے بجھنے کے بعد وہ چھوٹی موٹی ملازمتوں پر مجبور ہوگئے ہیں ایسے میں ان کرکٹرز کے لئے یہ خبر بھی بجلی بن کر گرے گی کہ اس سال کراچی میں رمضان کرکٹ ٹورنامنٹ کا ہونا ممکن نہیں ہے۔کورونا وائر س کی وجہ سے اس بار کراچی شہر کے دو درجن سے زائد چھوٹے بڑے رمضان کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ سالہا سال میں پہلی بار ملک بڑے رمضان ٹورنامنٹ نہیں ہوں گے۔جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے کرکٹرز کو ایک ماہ کے دوران لاکھوں روپے کا نقصان ہوگا۔کراچی میں سالہا سال سے رمضان کے دوران پوری رات کرکٹ کا میلہ سجتا تھا ۔
تراویح سے فارغ ہونے کے بعد شائقین کرکٹ اور کھلاڑی گراونڈز کا رخ کرتے تھے۔سحری سے قبل تمام بڑے گراونڈز میں فلڈ لائٹس میں میچ ہوتے تھے۔پاکستان کے سابق کپتان اور معین خان اکیڈمی کے روح رواں معین خان کا کہنا ہے کہ ابھی تک ہم نے رمضان کرکٹ ٹورنامنٹ کی تیاری شروع نہیں کی ہے نہ ہی کسی اسپانسر سے رابطہ کیا ہے۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے دفاتر بھی بند ہیں اس لئے بورڈ سے کسی نے این او سی کے لئے رجو ع نہیں کیا۔معین خان اکیڈمی میں سب سے بڑی انعامی رقم والا کارپوریٹ ٹی ٹوئینٹی ٹورنامنٹ ہوتا ہے ٹیسٹ وکٹ کیپر بیٹسمین کا کہنا ہے کہ مجھے لگ رہا ہے کہ اس سال ہم رمضان ٹورنامنٹ نہیں کرسکیں گے۔اس لئے ہم نے نہ کسی ٹیم سے رجوع کیا ہے اور نہ ہی تیاریاں شروع کیں ہیں۔کراچی میں معین خان اکیڈمی کے علاوہ کراچی جیم خانہ،نیا ناظم آباد،اصغر علی شاہ اسٹیڈیم،سمیت کئی میدانوں میں دو درجن سے زائد چھوٹے بڑے ٹورنامنٹ ہوتے ہیں۔یہ ٹورنامنٹ ٹی وی پر براہ راست دکھائی جاتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ باقاعدہ فیس لینے کے بعد این او سی جاری کرتا ہے۔کراچی میں عمر ایسو سی ایٹ اور پاکستان کرکٹ کلب کا شماران ٹیموں میںہوتا ہے جو کراچی کے علاوہ لاہور اور دیگر شہروں سے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے کے عوض اپنی ٹیموں میں شامل کرتے ہیں۔یہ ٹیمیں ان ٹورنامنٹ کو جیتنے کے لئے فیورٹ قرار دی جاتی ہیں۔عمر ایسو سی ایٹس کے منیجر اور پاکستان کرکٹ کلب کے روح رواں اعظم خان نے
بتایا کہ ابھی تک کسی ٹورنامنٹ کے آرگنائزر نے ہمیں دعوت نامہ نہیں بھیجا ہے۔چوں کہ رمضان شروع ہونے میں اب تین ہفتے کا وقت رہ گیا ہے اس لئے لگ رہا ہے کہ اس سال کوئی رمضان ٹورنامنٹ نہیں ہوگا۔اس وقت چوں کہ کرکٹ سرگرمیاں معطل ہیں اور پی سی بی ہیڈ کوارٹر بھی بند ہے اس لئے کوئی اس بارے میں نہیں سوچ رہا۔اعظم خان نے کہا کہ عام طور پر منتظمین ہم سے دو ماہ پہلے رابطہ کر لیتے ہیں ابھی تک کسی جانب سے کسی رمضان ٹورنامنٹ کا کوئی اشارہ نہیں ملا ہے۔معین خان نے کہا کہ اسپانسر شپ کے حصول کے علاوہ ڈپارٹمنٹ کی ٹیموں سے بھی بات چیت کرنا پڑتی ہے لیکن ابھی تک کسی سے اس بارے میں بات نہیں ہوئی ہے اس لئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس سال کارپوریٹ ٹی ٹوئینٹی ٹورنامنٹ نہیں ہوگا۔
معین خان نے کہا کہ ان ٹورنامنٹ سے کھلاڑیوں کو مالی دھچکہ لگے گا ایسے میں مخیر حضرات کو آگے آنا ہوگا پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔واضع رہے کہ ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں بند ہونے سے کراچی کے کئی کھلاڑی ریڈیو موٹر سائیکل سروس ریڈیو ٹیکسی اور پک اپ وغیر ہ چلا کر گھروں کا خرچہ چلارہے تھے۔پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مصباح الحق نے بھی ڈپارٹمنٹس کی ٹیمیں بند ہونے پر اپنے تحفظات ظاہر کئے تھے اور پی سی بی سے مطالبہ کیا تھاکہ کھلاڑیوں کے لئے ڈومیسٹک سرکٹ میں ٹورنامنٹ شروع کیا جائے۔