اسلام آباد (انصار عباسی) چینی اسکینڈل کے متعلق ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں واضح طور پر یہ بات نہیں بتائی گئی کہ اُس وقت کے سیکریٹری تجارت یونس ڈھاگا نے ایک انتہائی اہم سمری پیش کی جس میں اعداد و شمار اور حساب کتاب کی بنیاد پر یہ تجویز دی گئی تھی کہ چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں۔ اسی سمری کی بنیاد پر اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور ساتھ ہی وفاقی کابینہ نے سیکریٹری تجارت کی سفارشات منظور کیں لیکن پنجاب حکومت نے ان حقائق کو دیکھنے کی بجائے آنکھیں بند کر لیں اور تین ارب روپے کی سبسڈی دیدی۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ اور ای سی سی کی منظور کردہ؛ سیکریٹری تجارت کی سفارشات کی موجودگی میں پنجاب حکومت کا چینی کے مل مالکان کو سبسڈی دینا غیر قانونی اقدام اور کرپشن ہے جس کی نیب کو تحقیقات کرنا چاہئے۔ اس بات کی وضاحت نہیں دی گئی کہ ایف آئی اے کی انکوائری میں وزارت تجارت کی سمری کا ذکر کیوں چھوڑ دیا گیا۔ یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ سیکریٹری تجارت کی سمری کی مخالفت وزیر اعظم کے مشیر رزاق دائود نے کی تھی۔ رزاق دائود کی مخالفت کے باوجود، وزارت تجارت نے ای سی سی اور کابینہ کو تجویز دی تھی کہ شوگر ایکسپورٹ کیلئے سبسڈی کی ضرورت نہیںَ۔ وزارت تجارت کے اعداد و شمار چینی کی پیداواری لاگت، عالمی منڈی میں موجودہ قیمت اور روپے کی بے قدری کے بعد ڈالر کی قیمت کو مد نظر رکھ کر حساب کتاب کی بنیاد پر تیار کیے گئے تھے۔ سیکریٹری تجارت کی ای سی سی کو بھجوائی جانے والی اس سمری پر رزاق دائود کا اختلافی نوٹ بھی موجود تھا۔ لیکن سیکریٹری تجارت کی واضح سفارشات کی روشنی میں اسد عمر کی زیر صدارت اجلاس میں ای سی سی نے صفر سبسڈی کی منظوری دی اور رزاق دائود کے اختلافی نوٹ کو نظرانداز کر دیا گیا۔ اس فیصلے کی کابینہ نے بھی توثیق کی۔ تاہم، بعد میں پنجاب حکومت کے عہدیداروں اور کابینہ نے ان اعداد و شمار اور وفاقی کابینہ کے فیصلے کو نظرانداز کر دیا۔ ایک سرکاری ذریعے کا کہنا ہے کہ ’’اس صورتحال سے سبسڈی کی ادائیگی مکمل طور پر غیر قانونی ہو جاتی ہے۔ اس پہلو کو ایف آئی اے کی انکوائری میں یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اس گمشدہ حقیقت کی وجہ سے پنجاب حکومت کو کھلی آزادی (کلین چٹ) مل گئی۔ جنوری 2019ء میں چینی کی برآمد کے نتیجے میں ملک کی مقامی منڈیوں میں چینی کی قیمتوں میں فوراً اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ چینی کے برآمد کنندگان نے دو طرف سے فائدہ اٹھایا۔ پہلے انہیں پنجاب حکومت کی طرف سے بھاری سبسڈی ملی تو دوسری جانب انہیں مقامی منڈیوں سے بھی اضافی قیمتوں کا فائدہ ملا۔ دسمبر 2018ء میں چینی کی قیمت 55؍ روپے فی کلوگرام تھی جو جون 2019ء تک بڑھ کر 71؍ روپے 44؍ پیسے ہوگئی۔ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کے مطابق، جی ایس ٹی میں اضافے نے چینی کی قیمتیں بڑھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جی ایس ٹی یکم جولائی 2019ء کو نافذ کیا گیا تھا جبکہ قیمتیں جی ایس ٹی ریٹ نافذ ہونے سے پہلے ہی بڑھ گئی تھیں۔ پنجاب حکومت نے فی کلوگرام چینی پر 5؍ روپے 35؍ پیسے کی سبسڈی تھی جبکہ چینی کی برآمد کیلئے تین ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ پنجاب حکومت ایک ایسے وقت پر سبسڈی دے رہی تھی جب مقامی منڈیوں میں چینی کی قیمت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مجموعی طور پر 0.752؍ ملین ٹن چینی برآمد کی گئی جس میں سے 0.474؍ ملین ٹن (62؍ فیصد) سبسڈی واپس لیے جانے سے پہلے جبکہ باقی 38؍ فیصد سبسڈی واپس لینے کے بعد برآمد کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق، شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) کے 11؍ ستمبر 2019ء کو ہونے والے اجلاس میں 10؍ لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی کیونکہ چینی کے اضافی ذخائر دستیاب تھے۔ اجلاس کی صدارت رزاق دائود نے کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق، ای سی سی نے 2؍ اکتوبر 2019ء کو ایک ملین ٹن جبکہ 4؍ دسمبر کو 0.10؍ ملین ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی تاہم، اسی اجلاس میں وزارت قومی تحفظ خوراک (نیشنل فوڈ سیکورٹی) کے سیکریٹری نے یہ معاملہ اٹھایا تھا کہ پانی کی قلت کی وجہ سے آنے والے سیزن میں گنّے کی کم پیداوار متوقع ہے۔