• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برطانیہ میںحزب اختلاف کی بڑی جماعت لیبر پارٹی نے اپنی نئی قیادت کا انتخابی مرحلہ مکمل کر لیا ہے اورکئی صلاحیتوں سے مالا مال سر کئیر سٹیمر پارٹی کے قائد منتخب کر لیے گئے ہیں ،تاہم برطانوی سیاسی نظام میں نہ تو حکومتی عہدہ جلیلہ یعنی وزارت عظمیٰ ملنے کو آسانی سے لیا جاتا ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کی لیڈرشپ کا اہم منصب آسان سمجھا جاتا ہے بلکہ ان عہدوں پر فائز ہونے والوں کا اصل امتحان یہ مناصب ملنے کے بعد شروع ہو تا ہے ۔برطانیہ کو دنیا بھر کی جمہوریتوں اور پارلیمانوں کی ماں کا لقب یوں ہی تفویض نہیں کیا گیا، یہاں پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو پارلیمانی نظام کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے بہتر گورنس مہیا کرنے ساتھ ساتھ اپنی اپنی پارٹیوں کے منشور کو بھی مدنظر رکھنے کے لیے کئی طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اور ہر سطح پر رائے عامہ کی ترجمانی کے ذمہ دار میڈیا کو بھی اپنی کارکردگی سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھنا پڑتا ہے۔اور اب اس تناظر میں بھی جبکہ برطانیہ کو کورونا وائرس کا چیلنج بھی درپیش ہے اور ساتھ ہی پوسٹ بریگزٹ گنجلک امور اور پھر وزیراعظم بھی کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں لیبر کے نئے قائد سر کئیر سٹیمر کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑا ہے ۔ چہ جائیکہ خود لیبر پارٹی کے اپنے جماعتی معاملات ہی اتنے پر پیچ اور پر خار ہوچکے تھے کہ ان سے نبرد آزما ہونا ہی خاصا دشوار گزار مرحلہ ہے ۔ تاہم ان کی صلاحیتوں کے حوالےسے بہتر خیالات دیکھنے میں آرہے ہیں ۔پہلے تو انتخابی مہم کے دوران انہوں نے ایک معتدل مزاج اور متوازن اپروچ کے حامل رہنما ہونے کا بھرپور تاثر دیا ۔ ان کے حوالے سے یہ جو تاثر ابھارا گیا کہ وہ نہ تو جیر می کوربن اور نہ ٹونی بلئیرکی لیبر کے لیبل لگا کر آگے بڑھیں گے بلکہ دونوں کے بین بین نظریات اور سوچوں کو اپنا نصب العین بنائیں گے اور پارٹی کی بنیادی قدروں کا پاس کریں گے اس تصور کو وسیع حلقوں میں پذیرائی ملی اور وہ کامیابی کے جھنڈے گاڑنے میں کامیاب ہوگئے تاہم ان کا اصل امتحان اب شروع ہوگا کہ وہ کس تدبر اورحکمت سے لیبر پارٹی کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو پارلگاتے ہیں اور ساتھ ہی ٹوری حکومت کو درست ٹریک پر رکھنے اور ملک کے غریب، مزدور اور متوسط طبقات کے مفادات پر مبنی فیصلے کرانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم نے اقلیتی نقطہ نظر خاص طور پر پاکستانی اعتبار سے یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس سے متعلق کیا اپروچ اپنانے ہیں ۔ فی الوقت انہوں نے جو پہلی شیڈو کابینہ اناؤنس کی ہے وہ ہماری کمیونٹی کے نقطہ نظر سے بعض حوالوں سے خاصی مایوس کن دکھائی دیتی ہے ۔ نئے لیڈر نے شیڈو کیبنٹ میں اگرچہ مختلف طبقات کو نمائندگی دی ہے مگر ابتدائی ردعمل جو اس کالم نگار کو خود لیبر پارٹی کے بعض سرگرم کمیونٹی رہنماوں سے موصول ہو رہا ہے اس کے مطابق شیڈو کابینہ کو اگرچہ پارٹی کے اندر مختلف دھڑوں کے درمیان تفاوت کم کرنے کے حوالےسے متوازن ہے مگر نہ معلوم وجوہ کی بناء پر پاکستانی پارلیمنٹیرین کو آبادی کے تناسب اور پارٹی کمٹمنٹ کے لحاظ سے درکار جگہ نہیں دی گئی۔ کئی دہائیوں سے لیبر پارٹی کا پارٹ اینڈ پارسل ہونے کے باوجود ان کو اس طرح باہر رکھا جانا حوصلہ شکنی کا سبب بن رہا ہے یہ شروعات اس اعتبار سے حوصلہ افزاء قرار نہیں دی جاسکتیں کہ پارٹی کے اندر متعدد پاکستانی موثر ایم پیز موجود ہیں ان میں سے کسی کو بھی فی الحالُ اعلان کردہ ا علیٰ درجہ کی شیڈو وزارتوں کے قابل نہیں سمجھا گیااور خاص طور پر ڈاکٹر روزینہ علی خان جو ڈپٹی لیڈرشپ کے مقابلے میں شامل تھیں اور دوسرے نمبر پر آئیں مگر ان کو بھی ٹاپ وزارتوں کی لسٹ میںنظر انداز کر دیا گیا البتہ مینٹل ہیلتھ کی شیڈو منسٹر کا عہدہ دیا گیا ہےقبل ازیں حکومتی ٹوری پارٹی نے بھی ساجد جاوید کو بھی فارغ کر دیا تھا اور کئی اہم حکومتی مناصب کے لیے پاکستانی اوریجن ممبران پارلیمنٹ کو نظرانداز رکھنے کا تاثر ابھرا ۔ تاہم ٹوریز پچھلے عرصے میں سعیدہ وارثی اور ساجد جاوید سمیت متعدد ایشیائی چہرے سامنے لائی ہے اور حالیہ انتخابات میں بھی پاکستانی کمیونٹی میں اپنی نمائندگی بڑھا کرعمومی تاثر قدرے بہتر کیا ہے اور اگر دس بارہ سال کے عرصہ کا جائزہ لیا جائے تو کنزرویٹیو نے قدرے بہتر اپروچ اپنائی ہے مگر لیبر پارٹی باوجود اس کے کہ بالخصوص پاکستانی کمیونٹی جس نے تاریخی طور پر لیبر کی تنظیموں میں ہر جگہ بنیادی ستون کاکردار ادا کیا۔ ان کو یہ توقع تھی کہ شیڈو کابینہ ان کی آبادی ، پارٹی ممبرشپ اور قربانیوں کا پر تو ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا آگے چل کر شاید چھوٹے موٹے عہدوں پر ان کو ایڈجسٹ کر دیا جائے بعض کمیونٹی مبصرین کی رائے ہے کہ سر کئیر سٹیمر شاید مختلف اپروچ اختیار کر رہے ہیں جس سے وہ پارٹی کو بعض ناراض کمیونٹیز کو آن بورڈ کرنے کی سعی کریں گے مگر ایسا غالبا” مبینہ طور پر لیبر کے بنیادی حمایتی پاکستانی کمیونٹی کی قیمت پر اگر کیا گیا تو اپروچ لیبر پارٹی کی شاید بہتری میں جائے مگر پاکستانی کمیونٹی کو خدشہ ہے کہ اس طرح انہیں پیچھے کی طرف دھکیل نہ دیا جائے ۔ خیر یہ ایک جملہ معترضہ تھا جو طویل ہوگیا ، سر کئیر سٹیمر نے ایڈ ملی بینڈ کو شیڈو بزنس سیکرٹری ، اپنی متحارب رہنما ربیکا لانگ بیلی کو شیڈو ایجوکیشن سیکرٹری، ایملی تھورن بری کو انٹرنیشنل ٹریڈ پورٹ فولیو، جوناتھن رے نییلڈز ورک اور پنشن اور جان ہیلی کو دفاع کی ذمہ داریاں دی ہیں ۔ ربیکا لانگ بیلی کو شیڈو کابینہ میں لیا جانا سر کئیر سٹیمر کے ایک درست وژن کے حامل رہنما کا فیصلہ خیال کیا جارہا ہےلیکن دی مرر کے مطابق نئے لیبر لیڈر نے کوربن کے کئی قریبی ساتھیوں اور بشمول وہ جنہوں نے ربیکا کی مہم چلائی ان کو دروازہ دکھا دیا ہے ۔ ادھر دی گارڈین میں 4 اپریل کو اس کی کالم نگار پولی ٹوائنبی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ کئیر سٹیمر کے لیبر کے انچارج بننے سے ٹوریز کو پھر محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔حکومت کی کرونا وائرس بحران سے نبٹنے کی غیر معقول ہینڈلنگ کی توقع کیجئے اور پھر بالآخر یہ ٹھیک طرح سکروٹنی کے انڈر آئے گئی۔ملک کو آج ایک قائد حزب اختلاف حاصل ہوگیا ہےجو پہلی مرتبہ حکومت کو اس کی کورونا وائرس بحران پر سکروٹنی کرے گا۔ پولیٹیکل لینڈ سکیپ اب کسی کے تصور سے زیادہ ازسرنو تشکیل دیا جائے گا، یعنی پارلیمانی سیاسی منظر اور پیش منظر اب بدل کر رہ جائے گا جہاں پر پہلے کوئی موثر حزب اختلاف نہیں تھی، اب پارٹی کے پاس کئیر سٹیمر کی شکل میں ایک اچھا خاصا کوالیفائیڈ پراسیسیکیوٹر ہے جو حکومت کو صحیح معنوں میں اپنی جگہ پر دھکیلے گا۔ قارئین گرچہ پارلیمنٹ کے اندر
جیرمی کوربن جیسا مرد آہن بطور قائد حزب اختلاف موجود تھا مگر حالیہ انتخابات میں لیبر پارٹی چونکہ ان کی قیادت میں بری طرح ہار گئی تھی اس باعث ا ن کی آواز میں وہ وزن نہیں رہا تھا پولی ٹوائنبی نے غالبا” اسی تناظر میں لکھا ہے کہ پہلے کوئی جاندار اپوزیشن نہیں تھی۔ ان تک بورس جانسن کو کسی سیاسی خوف و خطر کا ڈر نہیں تھا مگر اب انہیں مختلف صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اب پارٹی کی ٹھوس حمایت کے باعث کئیر سٹیمر مضبوطبنیاد وں پر ٹوری حکومت کو اکاونٹ ایبل کر سکیں گے بلکہ اپنی پارٹی کے اندر جاری سول وار کا خاتمہ بھی کر سکیں گے۔ لیبر لیڈر کو 1994 سے ٹونی بلئیر کے بعد سے اس طرحکی سپورٹ میسر نہیں تھی ۔ کہ جہاں پر پارٹی کے ہر سیکٹر سے حمایت ملی ہو۔ جس میں لیبر ممبران پارلیمنٹ ، پارٹی سے ملحق ٹریڈ یونینز اور اب اس کے ممبران کی حمایت بھی شامل ہے۔قیادت چناؤ اور انتخاب کے آخری تین مراحل میں قابل احترام لب و لہجہ اپنایا گیا جس کی ہر طرف سے تعریف و توصیف کی گئی ۔کئیر سٹیمر کے پرسکون اور رویوں اور Cool authority نے جیرمی کوربن کے حمایتیوں اور مومینٹم کو بھی نرم کر دیا۔لیبر پارٹی میں بورس جانسن کو ملنے والی اسی نشستوں کی بھاری اکثریت سے خاصے جذبات پائے جاتے تھے۔ اس پس منظر میں واضح کیا گیا ہے کہ سر کئیر سٹیمر نے قیادت کا مقابلہ تدبر اور فراست سے جیتا ہے ۔ تاہم ہمارے حساب سے موجودہ بین الاقوامی ، ملکی کرونا تناظر اور لیبر پارٹی کو درپیش اندرونی پارٹی گونا گوچیلجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے سر کئیر سٹیمر کو جہاں سب کمیونٹیز کو ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا وہاں حکومت کو عوامی مفادات کے فیصلے کرانے کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ پورا کرنا ہوگا۔ اور وہ یہ کوشش بھی کریں کہ جس سے لیبر پارٹی ملک کے ہر طبقہ میں یکساں مقبول ہو سکے اور کسی کمیونٹی میں بھی انہیں کسی بھی طور سائیڈ لائن پر لگانے کا اندیشہ نہ ابھرے ۔اسی طرح سر کئیر سٹیمر کو ملک بھر میں لیبر پارٹی تنظیموں میں نوجوان پاکستانی اور باصلاحیت افراد کو بھی آگے لانے کی اشد ضرورت ہے ورنہ پارٹی کی روایتی حمایت میں آئندہ کمی آنے کا اندیشہ ہے ۔ اس لیے نئے لیبر لیڈر کے لیے یہ بھی ایک امتحان ہوگا کہ وہ کیسے پاکستانی کمیونٹی کی روایتی حمایت برقرار رکھتے ہیں ؟ ۔ 
تازہ ترین