اس وقت کابل میں طالبان کا ایک وفد موجود ہے جو قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں افغان حکومت اور ریڈ کراس کے نمائندوں کے ساتھ ملاقاتیں کررہا ہے لیکن بظاہر یہ معاملہ اتنی آسانی سے حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں ہونے والے امن معاہدے کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن افغانستان میں معاملات سدھرنے کے بجائے مسلسل بگاڑ کی جانب گامزن ہیں۔امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے پہلے حصے میں یہ طے پایا تھا کہ دس مارچ سے بین الافغان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگا اور اسکے آغاز سے قبل ہی افغان جیلوں میں موجود پانچ ہزار طالبان قیدی رہا کردیے جائیں گے جبکہ اس کے بدلے میں طالبان کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے ایک ہزار قیدی بھی آزاد کیے جائیں گے تاہم اس معاہدے کے چند دن بعد ہی افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے اچانک یہ اعلان سامنے آیا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی کے ضمن میں ان سے کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا ہے لہٰذا وہ اس کے پابند نہیں اور اس معاملے کو اپنی شرائط پر دیکھیں گے۔
یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ امریکہ سے جنگ بندی کے بعد کیا اپنے ہی لوگوں یعنی مسلمان افغان عوام یا فورسز کو نشانہ بنانے کا کوئی جواز بنتا تھا؟ کیا طالبان ان کے خلاف حملوں کو بھی جہاد کے زمرے میں شمار کرتے ہیں؟ تاہم حالات کو پھر سے پرانی ڈگر پر تیزی سے جاتے دیکھ کر امریکہ اور قطر کی حکومتوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور افغان صدر کو قیدیوں کی رہائی کے اعلامیہ پر دستخط کرنے پر راضی کر لیا۔ طالبان کی ابتدا ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طریقے سے پہلے اپنے قیدیوں کو رہائی دلا دیں اس کے بعد افغان حکومت سے مستقل جنگ بندی اور دیگر معاملات پر بات چیت کا سلسلہ آگے لے کر جایا جائے لیکن دوسری طرف افغان حکومت طالبان کی طرف سے تشدد میں کمی لانے اور دیگر ضمانتیں دیے بغیر کسی صورت میں بھی قیدیوں کی رہائی کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔ افغان حکومت کا موقف ہے کہ وہ قیدیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کریں گے جب تک طالبان اس بات کی ضمانت نہیں دے دیتے کہ رہا کئے جانیوالے قیدی دوبارہ میدانِ جنگ کا رُخ نہیں کریں گے۔ اگر ایک طرف قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں بات چیت جاری ہے تو دوسری طرف فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملے بھی تواتر سے کیے جارہے ہیں جس سے بداعتمادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔اسکے علاوہ طالبان نے افغان حکومت کی طرف سے بین الافغان مذاکرات کیلئے بنائی گئی ٹیم پر بھی اعتراضات اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ حکومتی ٹیم افغانستان کے تمام گروہوں پر مشتمل نہیں ہے حالانکہ بعد میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی سمیت تمام اہم افغان رہنماؤں نے طالبان کے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے سرکاری ٹیم کی حمایت کی تھی۔ بظاہر لگتا ہے کہ امریکہ سے امن معاہدے کے باوجود بھی طالبان کی سوچ میں کوئی خاص تبدیلی نظر آئی اور نہ ان کے موقف میں نرمی دیکھی جارہی بلکہ وہ اب بھی تمام معاملات سیاسی راستے کے بجائے تشدد کے ذریعے سے حل کرنے کی اپنی پرانی پالیسی پر گامزن ہیں۔
طالبان قطر سیاسی دفتر کے ایک اہم رہنما اور سابق طالبان آرمی چیف ملا محمد فاضل مظلوم کی طرف سے حالیہ دنوں میں ایک آڈیو پیغام سامنے آیا ہے جس نے کئی سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ملا فاضل نے 25مارچ کو پاک افغان سرحدی علاقے میں میدان جنگ میں برسرِ پیکار طالبان جنگجوؤں سے خطاب میں واضح کیا کہ اس وقت طالبان کی ساری توجہ ان کی قیدیوں کی رہائی پر مرکوز ہے اور جب قیدی رہا ہو جائینگے اسکے بعد افغان حکومت سے مذاکرات بھی ضرور کیے جائیں گے لیکن اپنی شرائط پر اور ’مجاہدین‘ کی قربانیوں کو کسی صورت ضائع ہونے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ کابل حکومت کے ایجنڈے پر چلیں اور نہ کبھی افغان حکومت کے ساتھ اقتدار کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس آڈیو بیان کے آنے کے بعد پھر سے یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ طالبان کسی صورت اپنے پرانے موقف سے ہٹنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے بلکہ وہ اب بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس کی وجہ سے وہ 2001میں ایک شخص کی خاطر اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
افغانستان میں بہت جنگ و جدال ہو گیا، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ امن کے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے ورنہ اگر یہ بھی ضائع کیا گیا تو شاید پھر ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔