• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے کراچی میں جمہوریہ پولینڈ کے قونصلیٹ کا افتتاح ہوا جس میں شرکت کیلئے پاکستان میں پولینڈ کے سفیر ڈاکٹر ایندرج اپنے منسٹر قونصلر وسلا کوچاریک، فرسٹ سیکریٹری پاؤٹر ایڈم کیوسک اور کمرشل قونصلر انا کوچیری کے ہمراہ کراچی تشریف لائے۔ پولینڈ یورپی یونین کا ایک اہم رکن ہے اور 2011ء میں پولینڈ یورپی یونین کی صدارت کا اعزاز حاصل کرچکا ہے۔ایک دہائی قبل پولینڈ کا کراچی میں قونصلیٹ جنرل ہوتا تھا لیکن بعد میں اسے بند کر دیا گیا۔ پولینڈ اور پاکستان کے انرجی سیکٹر میں بڑھتے ہوئے تعلقات اور پوٹینشل کے مدنظر پولینڈ اور پاکستان کی حکومتوں نے دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت اور سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے میرے بیٹے مرزا عمیر بیگ کو کراچی میں پولینڈ کا اعزازی قونصل تعینات کیا ہے۔ عمیر بیگ حال ہی میں ہارورڈ یونیورسٹی سے فنانس میں ماسٹرز کرکے وطن واپس آئے ہیں اور بیگ فیملی کیلئے یقینا یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں یمن، میرے بھائی اشتیاق بیگ مراکش اور بیٹا عمیر بیگ پولینڈ کے اعزازی قونصل جنرلز ہیں۔ پولینڈ کے قونصلیٹ کی افتتاحی تقریب میں میرے علاوہ نثار کھوڑو، ڈاکٹر فاروق ستار، فیڈریشن کے صدر، اشتیاق بیگ، TDAP کے چیف ایگزیکٹو عابد جاوید، کراچی میں تعینات امریکہ اور برطانیہ سمیت مختلف ممالک کے قونصل جنرلز اور بزنس کمیونٹی کے لیڈرز نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پولینڈ کے سفیر ڈاکٹر ایندرج جو پولینڈ کے نائب وزیر خارجہ بھی رہ چکے ہیں، وسیع تاریخی معلومات رکھتے ہیں۔ تقریب کے دوران انہوں نے پاکستان اور پولینڈ کے تاریخی تعلقات کے بارے میں ہمیں جو دلچسپ معلومات دیں وہ میں قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
پولینڈ کے سفیر ڈاکٹر ایندریج جو کسی حد تک اردو زبان بول اور سمجھ سکتے ہیں نے بتایا کہ پولینڈ اور پاکستان کے نہایت قدیم تاریخی تعلقات ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پولینڈ سے 30 ہزار سے زائد پولش خاندان مہاجرین کی حیثیت سے برطانوی راج کے دوران کراچی منتقل ہوئے تھے اور پاکستان کے قیام کے بعد انہوں نے پاکستانی شہریت حاصل کی۔ کراچی کے مسیحی گورا قبرستان میں 1940ء میں مرنے والوں کی58 اجتماعی قبریں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے پولینڈ کے جلاوطن ایئر فورس افسران سے پاکستان ایئر فورس قائم کرنے کی درخواست کی جس پر پولینڈ کے کئی پائلٹس نے 1948ء میں پاکستانی شہریت حاصل کرکے پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی۔ ان افسران میں پولینڈ کا ایک مشہور ایئر کموڈور ودیاسلو تورویج بھی شامل تھا جس نے دیگر 30 پولش پائلٹس اور ٹیکنیشن کے ساتھ پاکستان ایئر فورس کے قیام اور پاکستانی پائلٹس کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ایئر کموڈور ودیاسلو تورویج اپنی بیوی زوفیہ اور بیٹی اینا کے ساتھ آخر دم تک پاکستان میں ہی قیام پذیر رہے اور 1980ء میں ان کا کراچی میں انتقال ہوا جبکہ ان کی بیوی زوفیہ نے گزشتہ سال فروری میں وفات پائی۔ ان کی بیٹی اینا ایک پاکستانی نوجوان سے شادی کرکے اب بھی اپنے بچوں کے ہمراہ کراچی میں مقیم ہیں اور خوش قسمتی سے اینا نے اپنے شوہر کے ساتھ پولینڈ قونصلیٹ کے عشایئے میں شرکت کی اور مہمانوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ ایئر کموڈور تورویج کی ایک یادگار 14/اگست 2006ء میں پاکستان ایئر فورس میوزیم کراچی میں قائم کی گئی۔ 1972ء میں جنرل تورویج نے پاکستان کے خفیہ ایٹمی منصوبے، دفاع اور خلائی منصوبوں میں اہم کردار ادا کیا تھاجس پر انہیں اعلیٰ پاکستانی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔
پولینڈ یورپی یونین کا چھٹا بڑا ملک ہے جس کی آبادی 38 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ مستحکم معیشت رکھنے والے ملک پولینڈ کی جی ڈی پی 470 بلین ڈالر ہے جو ہم سے تقریباً دگنی ہے جس میں 64% سروس سیکٹر اور 32%/انڈسٹری کا حصہ ہے۔ پولینڈ کی فی کس آمدنی 12302 ڈالر ہے۔پولینڈ کی مجموعی ٹریڈ کا 27% جرمنی سے ہے جو ان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ پولینڈ اور پاکستان کی 2012ء میں باہمی تجارت 113 ملین ڈالر تھی جس میں سے پاکستان سے پولینڈ کو براہ راست ایکسپورٹ 77 ملین اور پولینڈ سے پاکستان کو ایکسپورٹ 36 ملین ڈالر ہے لیکن دوسرے ممالک کے ذریعے مجموعی باہمی تجارت 218 ملین ڈالر ہے جس میں پاکستان سے پولینڈ کو ایکسپورٹ 152 ملین ڈالر اور پولینڈ سے پاکستان ایکسپورٹ 66 ملین ڈالر ہے۔ پولینڈ میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات ترکی سے بھی بھیجی جاتی ہیں لیکن اب کئی پاکستانی ٹیکسٹائل کمپنیوں نے یورپی یونین میں مارکیٹ رسائی کیلئے پولینڈ میں اپنے دفاتر قائم کئے ہیں۔ پاکستان پولینڈ کو ٹیکسٹائل مصنوعات کے علاوہ سینتھیٹک فائبر اور لیدر ایکسپورٹ کرتا ہے اور پولینڈ سے آئرن، اسٹیل، منرل، ڈیری پروڈکٹ اور پیپر پاکستان امپورٹ کئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں نئی دریافت ہونے والی شل گیس اور تھرکول سے بجلی اور گیس پیدا کرنے کے منصوبوں میں پولینڈ پاکستان کی مدد کرسکتا ہے۔ پولینڈ نے گزشتہ 7 سے 8 سالوں میں پاکستان کے آئل اینڈ گیس سیکٹر میں 70 سے 80 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ دورے کے دوسرے دن پولینڈ کے سفیر نے پولینڈ کی آئل اینڈ گیس میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقات کیلئے سندھ کے ضلع دادو کا دورہ کیا۔ گزشتہ چند سالوں میں جب کچھ بین الاقوامی کمپنیوں نے ہمارے گیس کے ان کنوؤں جو گیس ختم ہونے کی وجہ سے بند کردیئے گئے تھے کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی تو یہ معلوم ہوا کہ امریکہ اور پولینڈ کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں شل گیس کے نام سے ایسی گیس دریافت ہوئی ہے جو گیس کے بند ہوجانے والے کنوؤں کی پتھریلی سطح کو جدید ٹیکنالوجی کے تحت توڑ کر حاصل کی جاتی ہے۔ شل گیس کے سب سے زیادہ ذخائر امریکہ میں دریافت ہوئے ہیں۔ شل گیس کے حصول اور اس کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کی اس ٹیکنالوجی کو سمجھنے کیلئے گزشتہ سال پیٹرولیم کے مشیر ڈاکٹر عاصم حسین نے پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کا دورہ بھی کیا تھا اور اس کے بعد ایک اطالوی اور پولش کمپنی ENI نے پاکستان میں شل گیس کی دریافت کیلئے حکومت کیساتھ جوائنٹ وینچر کیا ہے۔ENI پاکستان میں شل گیس کی تلاش کیلئے 3 منصوبوں پر دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ ای این آئی کے نائب صدر برائے ایشیاء پیسیفک لیوکی کیوروچی کے مطابق شل گیس کی تلاش کیلئے 2013ء میں ENI تین پائلٹ منصوبوں کے تحت 1100کنویں کھودے گی جن سے دریافت ہونے والی نئی گیس کا تخمینہ 20 کروڑ مکعب فٹ یومیہ لگایا گیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ آنے والے چند سالوں میں شل گیس اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں گیس کی طلب کو پورا کیا جاسکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو تھرکول کے 175 بلین ٹن ذخائر سے نوازا ہے لیکن ہم کوئلے سے بمشکل 1% یا 2% بجلی حاصل کرتے ہیں۔ پولینڈ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے میں مہارت رکھتا ہے اور اپنی بجلی کی 80% ضروریات کوئلے سے پورا کرتا ہے۔ پولینڈ کے تعاون سے ہم بھی اپنے کالے سونے تھرکول سے بجلی پیدا کرکے اپنی توانائی کی ضروریات کو کافی حد تک پورا کرسکتے ہیں۔ پولینڈ اور پاکستان میں بالخصوص انرجی سیکٹر میں باہمی تعاون کے بہت مواقع پائے جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ کراچی میں پولینڈ کے قونصلیٹ کے قیام سے پاکستانی بزنس مینوں کو ان موقعوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی اور پاکستان اور پولینڈ کے مابین باہمی تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔
تازہ ترین