• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھروں میں قید ہونے اور مسلسل 15دن رہنے کا تجربہ ایک نئی چیز ہے۔ 1965اور 1971میں کرفیو کے دوران بھی ہم دونوں میاں بیوی گاڑی میں گھومتے پھرتے تھے، اس پر بھی افسوس کرتے تھے کہ ہمارے فلم بنانے والوں کو ایسے مناظر ریکارڈ میں محفوظ رکھنے کیوں نہیں آتے، مجھے صوفیہ لارین کی فلم سن فلاور یاد آگئی کہ کس طرح دوسری جنگِ عظیم کے دوران تنہا رہ جانے والی عورتوں پر کیا گزری تھی، سنا اور پڑھا ہے کہ 1918میں اسپین میں ایسا فلو پھیلا تھا کہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے، پر یہ منظر ہمارے وجود سے پہلے ہوا تھا۔

یہ نیا تجربہ کہ ’’گھر پر رہو کم از کم پندرہ دن‘‘ کسی سے نہ ہاتھ ملائو، نہ گلے لگو تو کیا، آنکھوں سے آنکھیں تو لڑائیں مگر تین فٹ کا فاصلہ رکھنا ہے، پھر سوچا لکھا جائے عمومی طور پر آئیسولیشن اور تنہائی میں کیا فرق ہوتا ہے، لکھنے والی کی حیثیت سے بہت سے لکھنے والے یاد آنے لگے، ویسے تو کئی جگہ پڑھا تھا کہ شیکسپیئر نے King Liar لکھا تھا تو اس زمانے میں غضب کا پلیگ (طاعون) پھیلا ہوا تھا، ہمارے زمانے کے بڑے ادیب ہیمنگوے باقاعدہ صبح سے دوپہر تک ناول کا کوئی حصہ لکھا کرتا تھا، ہمارے زمانے کے بڑے ادیب مورا کامی بھی اس طرح باقاعدہ دوپہر تک لکھا کرتے تھے، مستنصر تارڑ نے بھی اتنے سارے سفر نامے اور ناول، اپنی تخلیقی قوت کو روز شام 7بجے سے 11بجے تک روزانہ لکھنے میں صرف کی ہے، گراہم گرین یوں تو اپنے دن کا نقشہ صبح ہی کو بنا لیتا تھا، مگر ہمیشہ دوپہر کے بعد لکھنے کیلئے بیٹھتا تھا، آسٹریلین مصنف بنجمن لا، روزانہ 4یا 5گھنٹے کام کرتا تھا، اس زمانے میں آسٹریلیا میں جنگل بہت تھے، کام سے فارغ ہو کر تین گھنٹے جنگل میں گھوما کرتا تھا، ہاں یاد آیا ہورا کامی صبح 4یا 5گھنٹے کام کرتا پھر، شام کو سوئمنگ، پھر کچھ دیر موسیقی سنتا تھا اور رات 9بجے سو جاتا تھا، یہیں مجھے یاد آیا کہ مارکیز نے اپنے ناول کا تھوڑا سا حصہ شروع میں لکھا تھا۔ وہ جب اسپین میں واپس آیا تو اس کو ’’تنہائی کے سو سال‘‘ نئے سرے سے لکھنے کا جنون سوار ہوا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تک میں یہ ناول مکمل کروں، گھر اور اس کے سارے کام تمہارے ذمہ ہیں۔ اس خاتون نے جب پیسے ختم ہوگئے، تو گھر کے برتن بھی بیچے مگر مارکیز کو بالکل ڈسٹرب نہیں کیا۔ ہمارے یہاں ہمارے یہاں ایک شاعر تھے سیف زلفی، جب کبھی وہ بدنصیب بیوی کو اپنی غزل سناتا، وہ اس کے ہاتھ سے کھینچ کر بارہ بتی والے چولہے میں ڈال دیتی تھی اور کہتی تھی ’’کس نامراد کے لیے یہ غزل لکھی تھی‘‘۔

اب آیئے پاکستان کی وہ صورت حال جو شاید آپ کو واضح طور پر معلوم نہیں ہوگی۔ پاکستان میں مزدوروں کی تعداد 6کروڑ ہے، گھروں سے کام کرنے والے لوگوں کی تعداد ایک کروڑ، 20لاکھ ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کے ماں، باپ یا بیوی بیمار ہو تو ایسے لوگ جن میں خواتین بھی شامل ہیں، نہ صرف پاکستان میں بلکہ ساری دنیا میں گھروں سے کام کرتے ہیں مگر پھر 4کروڑ 80لاکھ فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کو کبھی 100روپے روزانہ پربطور ڈیلی ویجز رکھا جاتا ہے۔ سیالکوٹ، وزیر آباد میں سرجیکل گڈز، چھریاں اور چاقو بنانے کے لیے فیکٹریوں میں ملازم رکھا جاتا ہے، اس طرح لاہور کے فیکٹری ایریا میں، چمڑے کے چھوٹے بڑے کوٹ بنائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی روزانہ کے حساب سے پیسے دیے جاتے ہیں۔ وہ کام مکمل ہونےکے بعد ہی جاسکتے ہیں، چاہے رات کے بارہ بج جائیں۔ چلئے کام کرنے والوں کو کم یا زیادہ رقم مل جاتی ہے، اگر فیکٹریاں چل رہی ہوں۔ اب کورونا وائرس کے باعث، چھابڑی والے سے راج مزدور تک سب فارغ ہیں مگر یہ 5کروڑ اس زمانے میں روز کی روٹی کا بندوبست کیسے کریں۔ یہ جو شوشہ چھوڑا ہے کہ تین ہزار روپے دیے جائیں گے، 5بچےاور میاں بیوی، بھلا اس 3ہزار میں گزارا کیسے کریں گے۔ ویسے یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور مخیرحضرات نے گھروں میں راشن پہنچانے کا کام، انفرادی اور اجتماعی طور پر، پورے ملک کے فیاض لوگوں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ ہمارے دیہات تک بھی یہ نیکی پہنچنی چاہئے۔ وہ سارے بچے جو مدرسوں میں ہوتے ہیں سب شام کو فیصل مسجد کے قریب مٹر گشت کرتے ہیں، ان سے کام لیا جائے تاکہ ان کے اندر ہمدردی اور تعاون کے احساسات اجاگر ہوں مگر علما اس جذبے کو اپنے شاگردوں میں پیدا کریں۔ عمران خان نے رضا کاروں کی تربیت کا جو پروگرام بنایا ہے، اس میں مدرسوں کے طالب علموں کو لازماً شامل کیا جائے۔ ویسے بہت بڑی تعداد میں بیکار نوجوانوں کو بھی خدمت کے احساس کے ساتھ کام کرنے پر مائل کریں۔ البتہ یاد کراتی چلوں کہ گزشتہ زلزلے کے بعد بھی نوجوانوں کی وزارت بنائی گئی تھی۔ باقاعدہ دفاتر بنائے گئے تھے۔ پھر کیا ہوا۔ او ہو، ’’یادِ ماضی عذاب ہے یارب‘‘۔

جہاں تک ہاتھ دھونے کا مسئلہ ہے اور اس کو بار بار میڈیا پر دہرایا جارہا ہے۔ ذرا دھیان کریں۔ کچھ لوگ اس طرح بار بار کرنے سے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہر عمل کو متوازن طریقے سے کیا جائے۔ گھروں میں والدین جہاں بچوں کو پاکستان کے تہذیبی اداروں کے بارے میں سکھائیں، وہیں خدمتِ خلق کیلئے ہمارے میڈیکل سے متعلق خواتین و حضرات کی لازوال خدمات کا بار بار تذکرہ کریں۔ کمال محبت ہے کہ گلگت میں کیوبا کے ڈاکٹرز بھی خدمت کرنے دوبارہ آگئے ہیں مگر حکومت یہ بتائے ایرا کی خدمات کیوں نہیں؟

اے میرے مسیحائو! گلگت کے نوجوان ڈاکٹر اسامہ کی شہادت اور خدمات کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا۔ میرے مسیحائو! خدا تمہاری حفاظت کررہا ہے۔

تازہ ترین