• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس (COVID19) کے اثرات یقیناً پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں اور سپریم کورٹ میں حکومت کی پیش کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق اپریل کے آخری ہفتے تک متاثرہ افراد کی تعداد 50ہزار سے تجاوز کر سکتی ہے۔ پاکستان میں کورونا سے بچائو کیلئے لاک ڈائون پر حکومت سختی سے عمل درآمد کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ ہماری معیشت اور سماجی سرگرمیوں پر کورونا کے کم سے کم اثرات مرتب ہو سکیں لیکن ہمارے عوام ایک طرف تو واقعی حکومتی احکامات پر سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کر رہے، دوسری طرف ملک میں سوا کروڑ سے دو کروڑ سے زائد غریب عوام ہیں جس میں اکثریت روزانہ اجرت والے خاندانوں اور افراد کی ہے، جو پہلے ہی دو وقت کی روٹی کے لئے فکر مند اور سرگرداں رہتے تھے، اب لاک ڈائون کے حالات نے اُن سے یہ سب کچھ بھی چھین لیا ہے، جس سے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں خطرناک حد تک سماجی مسائل اور قانون شکنی کے واقعات بڑھ سکتے ہیں، جس پر قابو پانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کی ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے روایتی قومی سیاست اور الزام تراشی کے رویے سے گریز کر کے ایک پوائنٹ پر اکٹھا ہونا چاہئے کہ سب نے مل جل کر ملک کو کورونا سے بچانا ہے، اس کے بغیر قومی سطح پر ’’اپنے آپ کو بچائو‘‘ کی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ دوسری صورت میں صورتحال پریشان کن ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ امر قابل ذکر ہے کہ محدود وسائل کے باوجود حکومت مختلف پروگراموں کے ذریعے مفت راشن اور کھانے کی فراہمی پر کام کر رہی ہے، پورے معاشرے کو اس مہم کا حصہ بننا چاہئے لیکن غریب افراد کو روٹی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ایک مربوط پروگرام کا کوئی عکس نظر نہیں آ رہا۔ ایسے لگتا ہے کہ چند منظم گروہ اور پیشہ ور افراد حکومتی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دے رہے۔ جس سے ہر گلی، محلہ میں صحیح حق دار افراد کو نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ ہی روزگار۔ اس لئے جناب وزیراعظم قوم کو بھکاری نہ بنائیں، خودداری کے ساتھ جینے کا راستہ دکھائیں، اس وقت حکومت وفاق اور صوبوں کی سطح پر جو کچھ بھی کر رہی ہے، وہ پائیدار نظر نہیں آ رہا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ریٹائرڈ اور پنشنرز اساتذہ کو محلہ کی سطح پر کمیٹیاں بنا کر یہ نیکی کا کام سونپ دیا جائے اور نئی ٹائیگرز فورس کو اِن کے ساتھ لنک کر دیا جائے، اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر آنے والے دنوں میں حکومت اور متاثرہ افراد دونوں کی مشکلات بڑھیں گی۔ اس لئے کہ کورونا سے ہماری معیشت پر جو تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اس کا اندازہ حتمی طور پر ممکن نہیں ہے، جب ملک میں کاروبار ہی نہیں ہوگا تو معیشت کہاں کھڑی ہو گی۔

ماہرین کے خیال میں دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی آئندہ دو سال مشکل ترین معاشی مسائل ہوں گے اور ہر سطح پر روزگار کی فراہمی اور تجارتی و معاشی سرگرمیوں کی بحالی آسان نہ ہو گی جس سے ہر گھرانے کے روزانہ، ماہانہ اخراجات بڑھنے اور آمدنی زیرو سطح پر آنے کے بعد اس کے اثرات معاشرے میں منفی رجحانات میں اضافہ ہونے سے معاشرے کی اکثریت جرائم کی طرف بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہو سکتی ہے۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن سیاست سیاست کے بجائے قومی سطح پر ان مسائل کا حل نکالیں، ورنہ نیا ہو یا پرانا پاکستان، سب خواب ادھورے رہ جائیں گے۔ یہ وقت قوم میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور غیر یقینی صورتحال میں کمی کا ہے، جس میں ریاست کے تمام اداروں اور بحیثیت قوم ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

تازہ ترین