• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد ایک جرمن پادری کے الفاظ بہت مقبول ہوئے جو کچھ یوں ہیں۔ پہلے وہ کمیونسٹ کو مارنے آئے، میں نہیں بولا کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں ۔ پھر وہ ٹریڈ یونینسٹ کو مارنے آئے، میں نہیں بولا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں۔ پھر وہ کیتھولکز کو مارنے آئے، میں نہیں بولا کیونکہ میں کیتھولک نہیں۔ پھر وہ مجھے مارنے آئے، کوئی میرے لئے نہیں بولا کیونکہ بولنے کے لئے کوئی بچا ہی نہیں تھا۔ ان الفاظ کی سچائی دل کو چھوتی ہے لیکن کیا ہمارے گردوپیش کی سچائی جو اس سے مختلف نہیں، بھی ہم پر منکشف ہو رہی ہے۔ شاید ہاں۔ کیا اس کا ادراک ہمارے رویوں سے ہوتا ہے، یقینا نہیں۔ جوزف ٹاؤن…شانتی نگر، جلے ہوئے مکان، حقائق الزامات۔ عباس ٹاؤن ، بین کرتی عورتیں، اجڑے مکان۔ لوگوں کے سوال۔ پنجاب حکومت، پیپلز پارٹی اور انتظامیہ کی نااہلی کی داستان، مختلف سیاسی پارٹیوں کے وفاداروں کے اپنی اپنی پارٹی کی اعلیٰ کارکردگی کے دعوے۔ وضاحتی بیان۔ مسجدوں میں دھماکے، اتنے جاں بحق اتنے زخمی۔ یہ ہمارے اخباروں کی معمول کی شہ سرخیاں اور ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز ہیں جو میں اور آپ سنتے ہیں تاسف کا اظہار بھی کرتے ہیں اور پھر معمول کے کاموں میں لگ جاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مگر سوچیے کیا یہ ہماری بے حسی ہے یا لاتعلقی۔ مجبوری ہے یا کوتاہ نظری۔ بے بسی ہے ، کم ہمتی یا پھر لاعلمی کہ ہم یہ سب ہونے کے باوجود اپنی چھوٹی سی دنیا کو سنوارنے میں مگن ہیں۔ ہماری دنیا کے باہر قیامت بپا ہے تو ہمیں کیا ۔آگ بھڑکتی ہے تو کیا ہمارے دامن تک تو نہیں پہنچی۔
لوگ ہمارے لئے عدد بن گئے ہیں۔ 40جاں بحق 100زخمی۔ ایک لمحے کو رکیے ان اعداد کو رشتے ، نام اور چہرے دیجئے۔ بڑی خالہ، چھوٹی آپا، بیٹا راحیل، احسن چچا … لگتا ہے سانس نہیں لے پاؤں گی۔ دھیان کسی اور طرف جاتا ہی نہیں۔ بکھرے رشتوں کی کرچیاں سمیٹنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا۔ متاثرین سے اظہار ہمدردی۔ رقوم کا اعلان۔ کھانا اور ادویات فراہم کرنا حساسیت کی علامت ہے قابل تحسین اقدامات ہیں لیکن کیا ہمارے یہ اقدام مستقبل میں ہونے والے ایسے حادثوں کو روک سکتے ہیں۔ نہیں کیا صرف اظہار تاسف کافی ہے؟ نہیں۔ حکمرانوں کی ذمہ داری اپنی جگہ مگر کیا سارا دوش حکمرانوں کے سر دھر کر آپ اور میں بری الذمہ ہو سکتے ہیں؟ نہیں۔ پاکستان کا جو خواب اقبال نے دیکھا ، جس کی تعبیر قائد اعظم نے دی اس خواب کا دنیا کے نقشے پر حقیقت بن کر ابھرنا کیا اس جم غفیر جسے عوام کہتے ہیں ، کے بغیر ممکن تھا۔ نہیں۔ تو پھر آج اس ملک میں عوام بے اثر کیسے ہو گئے؟ آزادی کے 66برس کے اس سفر میں بظاہر رہنماؤں اور عوام کی منزل ایک تھی۔ رہنماؤں کے ہاتھ مالِ غنیمت آیا اور ہجوم کے ہاتھ گرد سفر۔ پھر الزام صرف رہنماؤں پر کیوں۔ کہیں نہ کہیں ہماری خاموشی، ہماری مصلحت ، ہمارا ذاتی مفاد، ہمارا اجتماعی رویہ اس کا ذمہ دار ہے۔ جو مثبت تبدیلی میں محسوس کر رہی ہوں وہ یہ کہ جوزف ٹاؤن کے سانحے کی ہر مکتبہ فکر نے مذمت کی ہے۔ بحیثیت ایک آزاد شہری کے جو بات میرے لئے باعث تکلیف ہے وہ یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مذہب کی آڑ میں اس مملکت خداداد میں جس کا جی چاہے وہ ملزم کو صفائی کا موقع دیئے بغیر سزا سنا دے۔ خود ہی مدعی خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن جائے وہ مذہب جو یہ کہتا ہے کہ گنہگار کو پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو وہ مدعی کو منصف بننے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔
ہم اپنے معاشرتی رویوں میں جو تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں نہ تو وہ ایک دن میں آئی ہیں نہ ہی فرد واحد ان کا ذمہ دار ہے۔ گزرے وقت پر نظر ڈالوں۔ تیس چالیس سال پہلے پاکستان میں لوگ بات کہتے بھی تھے اور سنتے بھی تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے گورنمنٹ کالج کے آڈیٹوریم کی سیڑھوں پر بیٹھے جہاں ’ایشیا تو سرخ ہے‘ اور ’ایشیا تو سبز ہے‘ کے نعرے کانوں میں گونجتے تھے وہاں مسلمان طالب علم خدا کے ہونے اور نہ ہونے پر بحث بھی کر لیا کرتے تھے۔ کوئی انہیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا تھا ، نظریاتی اختلاف آپ کو ’اچھا یا برا‘ نہیں بناتا تھا۔ یہ بھی یاد ہے بچپن میں ہم جس سٹریٹ میں رہتے تھے اس میں ایک کرسچین فیملی بھی رہتی تھی۔ میری دادی جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی دستخط کی جگہ انگوٹھا لگاتی تھی ، جن کے لئے زندگی کی معراج حج کرنا تھا، جن کا صحیح اور غلط کا تصور صرف اور صرف مذہبی تعلیمات پر مبنی تھا وہ ہمسایوں کو ’ماں جایا‘ سمجھتی تھیں یہی ان کی مذہبی تعلیم تھی۔ انہوں نے اپنے ان کرسچین ہمسایوں کے گھر بھجوانے کے لئے خاص طور پر کیک بنوایا میں نے پوچھا خاص ان کے لئے کیوں۔ تو جواب ملا آج 25دسمبر ہے (کرسمس) انہاں دا وڈا دن۔ اے ایتھے کلے نے ۔ انہاں دی خوشی وچ شریک ہونا چاہیدا اے ہمسائے نے۔
آج کرسمس ہے ان کا بڑا دن اور یہ یہاں اکیلے ہیں ہمسائے ہیں اس لئے ان کی خوشی میں شامل ہونا چاہئے۔ یہ رواداری ، بھائی چارہ انہوں نے مذہبی ہم آہنگی کسی سیمینار کسی سکول سے نہیں سیکھی تھی مگر یہ ان کے عہد کے لوگوں کے کردار کا حصہ تھا۔ سوچیے تو ہم نے اپنی یہ خوبصورت قدریں کیوں، کہاں اور کیسے کھو دیں۔ متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی قابل تحسین ہے لیکن ہمدردی (دوسروں کے لئے ان کی طرح سوچنا اور محسوس کرنا) کا نعم البدل نہیں۔ ہمیں اپنے اجتماعی رویے میں تبدیلی لانا ہے۔ Apthy کی جگہ Empthy کو ہمارے کردار کا حصہ بنناہے۔
تازہ ترین