• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

چوہدری برادران کی ملاقات، علیم خان کی واپسی: پنجاب میں سیاسی ہلچل

کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے سیاست کو مکمل دیوار سے تو نہیں لگایا لیکن کسی امکانی تبدیلی یا اس کی کوشش کو فی الحال ختم کر دیا۔ حالانکہ چینی آٹا سکینڈل رپورٹ اور اس کے بعد عمران خاں کی جہانگیر ترین سے کنارہ کشی اور زیر عتاب آنا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ عام حالات ہوتے تو سیاسی ماحول تبدیلی کی کوششوں میں بدل جاتا اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے جس طریقہ کار کے تحت خاص طور پر پنجاب حکومت بنانے میں کردار ادا کیا وہ وہی پراناکرپٹ سسٹم کا حربہ تھا۔ عمران خان نے اس وقت حکومت کی تشکیل کے لالچ میں سب کچھ قبول کیا جس طرح الیکٹ ایبل کو ساتھ ملایا گیا اور جنوبی پنجاب کی تشکیل کا جھانسہ دیا گیا وہ سب کے سامنے ہے ۔اب 25اپریل کو مکمل رپورٹ یعنی فرانزک رپورٹ آنے تک حالات کس رخ جاتے ہیں انتظار کرنا پڑے گا۔ ابھی ایسا نہیں لگتا کہ جہانگیر ترین اپنی لابی کو سرگرم عمل لائیں۔ انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے وہ شاید کسی ’’اچھے‘‘کے منتظر ہیں لیکن ادھر عمران خان ایک دور اندیشی سیاست کی طرح حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں اور جہانگیر ترین کی سیاسی و انتظامی لابی کو مراعات اور عہدے دیکر مطمئن اور رضامند کر رہے ہیں۔ عبدالعلیم خاں کی پنجاب کابینہ میں دوبارہ شمولیت انہی حفاظتی تدابیر کا حصہ ہے ۔

عمران خاں نے شوگر ملوں کے آڈٹ کا جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس میں اس بات کو پیش نظر رکھا ہے کہ ان کے کسی اور اتحادی کو آنچ نہ آئے اپوزیشن کا یہ کہنا بجا ہے کہ یہ کیسا ’’بے لاگ اور منصفانہ ‘‘ احتساب ہے ٹھیس نہ لگ جائے کہیں آبگینوں کو کے مصداق چودھریوں ، مخدوموں کی شوگر ملوں کے معاملات کو نہیں چھیڑا گیا ۔

تاہم حفظ ماتقدم کے طور پر چودھری پرویز الٰہی نے ایک ملاقات خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق سے کرلی یہ ایک بلیغ سیاسی اشارہ ہے کہ ہمیں چھیڑو گے تو کئی آپشن سیاسی میدان میں موجود ہیں۔چودھری پرویز الٰہی ، چودھری شجاعت ایک زیرک دوراندیش سیاست دان ہیں ان کے اقدامات بیانات دانشمندی سے بھرے ہوتے ہیں نہ معلوم اس خبر میں کتنی حقیقت ہے کہ اس ملاقات میں پنجاب حکومت کی کارکردگی بلکہ اس تناظر میں اس کی تبدیلی بلکہ اس سے بڑھ کر قومی حکومت کی تشکیل کی بھی بات کی گئی۔

ادھر پورے ملک کی طرح پنجاب میں لاک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے کرونا وائرس نے اب اپنا پھیلائو بڑھا دیا مریضوں اور اس مرض سے ہونے والی اموات کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ لاک ڈائون کے حوالےسے عمران خان کا ڈھلمل انداز اور رویہ پنجاب حکومت میں بھی سرایت کر گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ باامر مجبوری لاک ڈائون کیا گیا ہے حالانکہ دیہاڑی دار اور مزدوروں کے مسائل اور کورونا سے بچنے کیلئے لاک ڈائون پر سختی سے عملدرآمد کرانے دوالگ موضوع اور کام ہیں اگر آپ دل سے لاک ڈائون کے حق میں ہیں تو یہ پیغام لامحالہ ہر شعبے اور ہر سطح پر پہنچے گا اگر لاک ڈائون برقرار بھی ہے اور اس پر سختی سے عمل بھی نہیں ہو رہا تو پھر یہ اس شعر کے عین مطابق ہے کہ

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

یعنی ایک تو لاک ڈائون کے ہونے سے معاشی نقصان ہوا دوسرے کورونا وباء کے پھیلائو کو بھی پوری طرح نہ روکا جا سکا۔

اب اگر لاک ڈائون جاری رہتا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ کچھ غیر روایتی طریقے اپنائے ہر روز ایک شعبے کو کام کی اجازت دے مثلاً ایک روز درزی، ایک روز بجلی کی دکان، ایک روز الیکٹرانک ،ایک روز پلمبر کی دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ ہجوم بھی نہ ہو اور جن کے کام رکے ہوئے ہیں وہ بھی ہو جائیں۔ لاک ڈائون بعض جنہوں نے کتابیں پڑھنا ہیں ایک روز وہ خرید سکیں۔

پنجاب حکومت کو کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی حفاظت کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہیں وائرس کے عروج کے وقت کوئی مصیبت نہ کھڑی ہو جائے اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے امداد اور سامان کی تقسیم کے طریقہ کار کو زیادہ سائنٹیفک بنایا جاسکتا تھا جس طرح مستحقین ہجوم کرکے امداد وصول کرتے ہیں یہ خطرناک طریقہ ہے ۔ادھر اپوزیشن رہنما شہباز شریف سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے اپنے دور حکومت میں ڈینگی کی خطرناک وباء سے جس سائنٹیفک انداز اور دن رات کی محنت سے اس وباء کو پسپا کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا آج ایسی مثال ملنامشکل ہے آج بھی مسلم لیگ (ن) اور خاص طور پر شہباز شریف سے اس وباء کے خاتمے کیلئے جو کام لیا جا سکتا ہے وہ بدقسمتی یا حالات کے باعث انہیں بتایا جارہا۔ شہباز شریف نے ڈاکٹروں کی حفاظت کے لئے اقدامات کا صحیح ایشو اٹھایا ہے بلکہ ان کو حفاظتی سامان مہیا کرکے ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی بھی کی ہے۔ انہوں نے لیگی ورکروں اور نمائندوں کو ہدایت کی ہے کہ بغیر نمودونمائش لوگوں کے گھروں میں امدادی سامان پہنچائیں وہ بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ ڈاکٹرز اور عملے کو حفاظتی کیٹس کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری اس وقت اپوزیشن ادا کر رہی ہے۔ 

ادھر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپوزیشن سے ان حالات میں بھی نالاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہر چیز بدل گئی اپوزیشن کا منفی رویہ نہ بدلا نہ معلوم وہ تعمیری تنقید کو منفی رویہ کیوں قرار دے رہے ہیں۔ بادی النظر میں تو معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں اپوزیشن نے سیاست کو ترک کر دیا ہے نہ کوئی جوڑ توڑ ہو رہا ہے نہ حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی تحریک کی بات کر رہا ہے لیکن عمران خان اس اچھے اور ٹھنڈے ماحول میں بھی اپوزیشن کو رگیدنے سے باز نہیں آتے زہریلے بیانات کا سلسلہ ان کی اور ان کے وزرا کی جانب سے جاری ہے یہ وقت قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کے بڑھانے کا ہے ابھی آگے اور برا وقت خدانخواستہ منظر سے کورونا کی وباء نے ابھی اور رنگ دکھانا ہے وباء ٹلنے کے بعد کا معاشی اور اقتصادی منظرہوشربا دل دھلا دینے والا ہے ۔ اس صورتحال میں قومی حکومت نہ سہی قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کے امکانات کوتو نہ ختم کیا جائے معیشت کے پہیے کو چلانے کیلئے بڑی کاوش اور عقل درکار ہوگی بڑی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ادھر جماعت اسلامی اخوت فائونڈیشن اور بہت سے دوسری تنظیمیں کرونا وائرس کے متاثرین کی مدد کیلئے دن رات کوشاں ہیں ان کا کام منظم اور قابل سائش ہے ۔

ادھر حکومت نے بے عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کے ایک بڑے اور طاقتور حصے کو ضرب پہنچائی ہے۔ انہوں نے جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو ناجائز طور پر ایک نجی خریدی ہوئی 34سال پہلے کی زمین کے مقدمے میں گرفتار کرلیا۔ یہ نازک وقت تو کرونا سے لڑنے کا تھا تاہم آفریں ہے کہ جنگ جیو گروپ کرونا کی وبا ءکے خلاف میدان میں پوری تندہی اور عزم کے ساتھ کسی نفرت یا تعصب کا شکار ہوئے بغیر لڑ رہا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین