• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کون یقین کرے گاکہ طاقتور مغربی ممالک کے سفارتی وفوداپنے سرکاری دوروں کے بعد کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے اپنے آبائی ممالک میں واپس جانے سے انکار کریں گے اور میزبان ممالک سے مستقل قیام کی درخواست کریں گے۔کسے یقین آئے گاکہ امریکی صدر ٹرمپ نے میکسیکو کے غیر قانونی مہاجرین کو امریکہ میں داخلے سے روکنے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان ایک بڑی دیوار کھینچی تھی،آج امریکی غیر قانونی مہاجرین کو روکنے کے لئے میکسیکو اسی دیوار کا استعمال کرے گا۔کون یقین کرسکتا تھاکہ دو ماہ قبل اسپین اور اٹلی سمندری راستے سے داخل ہونے والے غیر قانونی مہاجرین کی کشتیوں کو روکتے تھے، آج انہی کشتیوں پرکورونا وائرس سے پریشان مغربی ممالک کے لوگ افریقہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔کون سچ مانے گاکہ جدید اسلحے سے لیس مضبوط معیشت کی حامل سپر طاقتیں جو یہ کہتی تھیں کہ ہمیں کوئی خوفزدہ نہیں کرسکتا،آج خوف میں مبتلا ہیں۔ واٹس ایپ استعمال کرنے والے موبائل فون صارفین کے پاس اس قسم کے بے شمار پیغامات کی بھرمار ہے جو خدا کی کبریائی بیان کرنے کیلئے ایک دوسرے کو ارسال کئے جارہے ہیں۔حالیہ دنوں میں قرنطینہ کی حالت میں مجھے بہت زیادہ مطالعہ کرنے اور سوچنے سمجھنے کا وقت مل رہا ہے، میں ان دنوں مختلف موضوعات کا مطالعہ کرنے کے ساتھ خدا سے اپنے تعلق کومزیدمضبوط کرنے کی بھی کوشش کررہا ہوں۔ ہندو دھرم میں ماضی کے کرموں پر بہت زیادہ زور دیاجاتا ہے، انگریزی زبان میں کارمِک سائیکل سے منسوب اس ہندو آئیڈیالوجی کے مطابق ایک انسان کی زندگی اس کے اعمال کے گرد گھومتی ہے، ماضی کے اعمال اس کی زندگی میں پیش آنے والے اچھے برے واقعات کا باعث بنتے ہیں، ایک اچھاسچا انسان اگر نیک کام کرتا ہے تو اسے اس کا انعام اچھے انداز میں ملتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کی زندگی میں خدا کی طرف سے آزمائش کی صورت میںوقتی طور پر پریشانیاں بھیجی جائیں لیکن آخری جیت ہمیشہ اچھائی اور حق و انصاف کی ہوتی ہے ،دور قدیم میں شری کرشن نے مہابھارت جنگ کے موقع پر ارجن کو یہی تلقین کی تھی کہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔ خدا کی بتائی ہوئی تعلیمات پر چلنے والے اچھے انسان کی بہتری کیلئے خدا خود راستہ بناتا ہے اور وہ اپنی زندگی میں ترقی و خوشحالی جیسی نعمتوں سے محظوظ ہوتا ہے، دوسری طرف برے کام کرنے والے کے اعمال نامہ میں گناہ درج کردیا جاتا ہے جس کا خمیازہ اس کو اپنی زندگی میں برے نتائج کا سامنا کرکے بھگتنا پڑتا ہے، ماضی کے جرائم انسان کا کسی صورت پیچھا نہیں چھوڑتے بشرطیکہ انسان سچے دل سے معافی طلب کرے،توبہ کرے اور کفارہ ادا کرے ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ کارمک سائیکل آئیڈیالوجی قوموں اور ملکوں پر بھی نافذ ہوتی ہے جو حکومتی سطح پر مختلف فیصلے کرتے ہیں، کچھ فیصلے رفاہ عامہ کیلئے فلاحی قرار دئیے جاسکتے ہیں تو کچھ فیصلوں سے انسانیت کو تکلیف پہنچتی ہے۔ آج اگر کورونا وائرس سے متاثر ہ ممالک کا جائزہ لیا جائے تو اس قدرتی وبا سے سب سے زیادہ تباہی کا شکاروہ ممالک نظر آتے ہیں جو ماضی میں غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم انسانوں کا خون بہانے میں ملوث تھے۔ امریکہ میں جس بہیمانہ انداز میں ریڈ انڈین باشندوں کا صفایا کیا گیا، وہ انسانی تاریخ کا شرمناک باب ہے،امریکی سرزمین پر سیاہ فام اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔عالمی طاقتوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے دنیا کے مختلف خطوں میں جنگ اور مسلح تصادم کو فروغ دیا، جدیداسلحے کے کاروبار کو پروان چڑھایا، لاکھوں انسانوں کا خون ناحق بہایا گیا، لوگوں نے جان بچانے کیلئے اپنے بیوی بچوں سمیت ان محفوظ سمجھے جانے والے ممالک کا رخ کیا تو ان کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ماضی کے جرائم کا آج کے انسان سے کیا تعلق ہے؟ اگر گزشتہ صدیوں میں نوآبادیاتی طاقتوں نے کوئی ظلم کیا تھا تو اس میں موجودہ دور کے شہریوں کا کیا قصور ہے؟ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ انسان جب کسی دوسرے کا گھر جلاتا ہے تو لازمی بات ہے کہ اس کا اپناگھر بھی ایک دن جلے گا،اگر آج وہ وقتی طاقت کے بل بوتے پر اپنا گھر بچانے میں کامیاب ہوبھی جائے تو اس کے بچوں کا اور پیاروں کا گھر کوئی جلائے گا۔ہمارا دھرم تلقین کرتا ہے کہ انسان سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرے، اپنے بڑوں کی آتما کی شانتی کیلئے انکی غلطیوں کا بھی کفارہ ادا کرے ورنہ کارمک سائیکل اس کی اور آئندہ نسل کی زندگی کو ایک دائرے میں ہی گھماتا رہے گا اور اس کی روح کبھی مُکتی (نجات) نہیںپاسکے گی۔آج تمام انسانوں بالخصوص طاقتورممالک کو اپنی طاقت مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف استعمال کرنی چاہئے۔ ماضی میں طاعون، اسپینش فلو ، سارس جیسی قدرتی وبائیں حملہ آور ہوتی رہی ہیں تو آج کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں ،آج اگر کورونا پر قابو پابھی لیا جائے تو مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں کہ کوئی نئی وبامنظرعام پر نہ آئے۔ یہ تباہی اور بربادی کا سلسلہ تبھی رکے گا جب انسان اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے دکھی انسانیت کی خدمت کا عہد کرے گا اور آئندہ اپنی زندگی خدا کی تعلیمات کے مطابق گزارتے ہوئے اس خوبصورت کرہ ارض کوامن کا گہوارہ بنانے کیلئے عملی کردار ادا کرے گا۔ ہندو جوتشیوں کا کہنا ہے کہ کورونا کا زور ستمبر کے مہینے میں ٹوٹے گا۔ فی الحال امریکہ، بھارت اور مغربی ممالک کے ستارے گردش میں ہیں، وزیراعظم عمران خان پاکستان کے خوش قسمت ترین عوامی لیڈر ثابت ہوں گے، ستاروں کی چال بتلاتی ہے کہ کورونا کے بعد کی عالمی دنیا میں ترکی، چین، پاکستان اور روس کا اہم قائدانہ کردارسامنے آئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین