کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئےسربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) ، مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ میں گھر میں نماز پڑھوں گااور تراویح بھی گھر میں پڑھوں گا،ہمارے رضا کار رات کی تاریکی میں جاکر بھی لوگوں کے گھروں تک راشن پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے دروازے بند نہیں ہوتے ایک وبا پوری دنیا کو لاحق ہے تو پھر جو بھی احتیاطی تدابیراس حوالے سے ہیں وہ سب اختیار کرنی پڑتی ہیں سعودی حکومت نے بھی وہاں اگر پابندیاں لگائی ہیں تو ہم سے زیادہ وہ حرمین کے تقدس اور مقام کو جانتے ہیں اور ان کو اس بات کا بھی احساس ہے کے کرہ ارض کے کونے کونے سے مسلمان جس اشتیاق اورجس جذبے کے ساتھ ادھر کا رخ کرتا ہے سفر کرتا ہے تو اس کا ان کو بھی احساس ہے لیکن انسانی ہمدردی کا تقاضہ اس وقت یہ ہے کہ اس قسم کے اجتماعات سے پرہیز کیا جائے اور یہی پرہیز اس کا علاج ہے کیونکہ مستقل علاج اس کا کوئی ہے نہیں اس کی دوا تو موجود نہیں ہے اس لئے پرہیز کے لئے پوری دنیا کے ڈاکٹروں نے اتفاق رائے کے ساتھ احتیاط کے زاویئے طے کئے ہیں اور اس کے لئے انسانیت کو جو ہدایات دی ہیں ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہئے۔جو ابتدائی تجاویز طے ہوئی تھیں وہ یہ ہوا تھا کہ اگر ہم مسجدوں کو آباد رکھ سکتے ہیں تو آباد ہونی چاہئیں اور آبادہونے کا معنی کیا ہے بڑی وضاحت کے ساتھ ہم نے یہ عرض کیا تھا کہ پانچ وقت کی نماز اور پنچ وقتہ امامت چاہے وہاں پر موجود صرف امام اور موذن ہوں اور چاہے کچھ خادم بھی موجود ہوں اور لمبے لمبے فاصلوں کے ساتھ کھڑے ہوکر وہ نماز ادا کرسکتے ہیں۔یہ وائرس صرف مسجد پر اثر انداز نہیں ہوتا جو بھی عوامی مقامات ہیں چاہے آپ کی سبزی منڈیا ں ہیں ،بازار ہیں، 12 ہزار روپے تقسیم ہوتا ہے بینکوں کے سامنے تاحد نظر اس میں گھلے ملے ہوتے ہیں، آپ کی میڈیا ہاؤسز ہیں اس میں لوگوں کا آنا جانابیٹھنا اٹھنا، بڑے بڑے مالزہیں تو یہ چیزیں قابل اعتراض ٹھہریں رد عمل تو یہ آیا کہ اگریہ جگہیں کھلی ہیں تو پھر مساجد کیوں بند ہیں تو میں نے ذاتی طور پر یہ مشورہ دیا تھا کہ یہ مناسب بات نہیں ہوگی کہ وہ کھلی ہیں تو مسجد بھی کھلی رہے جب ہم قبول کررہے ہیں تو دوسری جگہ جہاں حکومت کی نظر نہیں پڑ رہی ہے وہاں بھی اس کی نظر پڑے اور وہاں بھی قدغن لگائیں تاکہ لوگوں کا جمگٹھا نہ ہواور یہ بیماری کم از کم پھیلے ۔جب ایک مسئلے پر اجماع ہوجاتا ہے تو اس کا احترام کرنا چاہئے میری ذاتی رائے پھر ذاتی رائے رہ جاتی ہے اگر تمام لوگ مساجد کھولنے پر رضامند ہوگئے ہیں تو پھر اس کا احترام ہونا چاہئے۔آئمہ کرام کو حدود کو وقیود کا رکھنا چاہئے میں آپ کے سامنے موجود ہوں میں گھر میں نماز پڑھوں گااور تراویح بھی گھر میں پڑھوں گاکوشش کروں گا کے میں مسجد کی طرف جاکروہاں کسی اجتماع کاذریعہ اور سبب نہ بنوں تراویح میں گھر کے افراد ہوں گے زیادہ افراد شامل نہیں ہوں گے ۔اگر آج یومیہ دیہاڑی پر کام کرنے والا بیروزگار ہے اور ہمارے صاحب ثروت پیکیج بناکر ان کے گھروں تک پہنچا رہے ہیں تنظیمیں ، انجمنیں پہنچا رہی ہیں لیکن یہاں پر ان لوگوں کو مساجد میں سارا سال نہیں ساری زندگی آپ کی مساجد اور مدارس کو آباد رکھتے ہیں قرآن و حدیث کے علوم آپ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے یہ مزدوری کرنے والے لوگ بھی نہیں ہیں مساجد کے چندے بھی اب رک گئے ہیں اور ان کے اور ان کے بچوں کے روزگار کے لئے بھی لوگوں کو فکر مند ہونا چاہئے صاحب ثروت لوگوں کو اپنا پیسہ ادھر بھی دینا چاہئے۔پورے ملک میں جمعیت علمائے اسلام سب سے پہلی جماعت ہے جس نے پورے ملک میں ہر ضلع کی انتظامیہ کو براہ راست رابطہ کرکے اپنی خدمات حوالے کرنے کا اعلان کیا تھاحالانکہ ہمارا حکومت سے اختلاف آپ کو پتہ ہے مگر یہاں آکر ہم نے کہا کہ اختلاف اپنی جگہ ہوتا ہے مگر یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے کارکن راشن تقسیم کررہے تھے تو ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو حتیٰ کے پی ٹی آئی کے عہدیداروں کو بھی کہا کہ اگر آپ کو ضرورت ہو آئیں ہم آپ کے بھی حوالے کرتے ہیں آپ کے علاقوں میں کسی تک کچھ نہ پہنچا ہو تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ہمارے رضا کار رات کی تاریکی میں جاکر بھی لوگوں کے گھروں تک راشن پہنچا رہے ہیں اور ہمارے رضا کاروں کو جس طرح سراہنا چاہئے شاید ہمارے میڈیا نے اس طرح نہیں کیالیکن بہرحال اللہ دینے والا ہے۔نا اہلیاں کہاں ہوئی ہیں تافتان سے بیک وقت تین چار ہزار لوگ اندر آتے ہیں تو ان پاکستانیوں کو خود بھی محفوظ رکھنااور ان سے دوسرے پاکستانیوں کو بھی محفوظ رکھنایہ حکومت کی ذمہ داری تھی پورے ملک میں وہ لوگ پھیل گئے آج بھی کوئی ایسا قرنطینہ نہیں ہے کہ جہاں کہا جاسکے کہ واقعی وہ لوگ محفوظ ہیں باقاعدہ ان کا علاج معالجہ ہورہا ہے کہیں بھی ایسا نہیں ہے ۔حکومت صرف بیرونی قرضوں کو معاف کروانے اور نئی مدد حاصل کرنے کے لئے کورونا کو استعمال کررہے ہیں کسی بھی مرض میں انتقال ہوتا ہے تو لوگ پہنچ جاتے ہیں کہ اس کی موت کا سبب کورونا لکھوائیں تو یہ ریشو غیر ضروری طور پر بڑھاناغلط ہے۔اپوزیشن ان لوگوں سے مایوس ہوگئی ہے کہ انہوں نے نہ پہلے دن کی میٹنگ کی تجاویز کو سنجیدہ لیااور نہ دوسری ،تیسری کی تجاویز کو سنجیدہ لیا ۔ خود عمران خان نے بھی کہا تھا کہ ملکی معیشت ڈوب رہی ہے جبکہ آپ کا جی ڈی پی گروتھ5.6 تھا اگلے سال کے لئے ہدف6 پلس ظاہر کیا گیا تھامگر ہم آگئے دو پرپچھلا بجٹ جو ہماراآیا ہے وہ 1.9 ہے اگلا جو بجٹ آرہا ہے یہ ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں وہ منفی پر جارہا ہے اب اگر ہماری معیشت اس طرح گر گئی ہے تو ریاستیں معیشت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں صرف آپ دفاعی قوت کی بنیاد پرریاست کومحفوظ نہیں رکھ سکتے ورنہ سوویت یونین باقی رہ جاتامعیشت کی وجہ سے وہ چلا گیاتو یہ ساری صورتحال ہمارے ملک کی ہے جس وقت آپ معاشی لحاظ سے مستحکم تھے تو واجپائی آپ کے پاس بس میں آیاآپ کو کہا کہ آپ میرے مستقل پڑوسی ہیں وہ ہی بی جے پی ہے آج معاشی لحاظ سے نیچے ہیں تو اس کا آپ کے ساتھ کیا رویہ ہے آج کشمیر کے ساتھ اس نے کیا کیا ہے آپ کچھ نہیں کرسکتے وہ افغانستان جو سی پیک کے معاملے میں اشرف غنی جوں ہی منتخب ہوااگلے ہی روز بیجنگ کانفرنس میں پہنچ گیاتاکہ میں بھی اس معاشی دوڑ میں شریک ہوجاؤں اور ایران آپ کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے کررہا تھاآج وہ سب کہاں کھڑے ہیں آج انڈیا کہاں کھڑا ہے آج چین کہاں کھڑا ہے آپ تو بے دست و پا ہوگئے ہیں ۔موجودہ حالات کا حل دوبارہ انتخابات ہیں ملک آپ کا اس حد تک ڈوب گیا ہے کے آپ کو ایک عارضی انتظام کرنا ہوگا اس پر بھی لوگ سوچ سکتے ہیں تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کے ہم آئین سے باہر نہ نکلیں آئین جتنی ہمیں گنجائش دے سکتا ہے اس کے حوالے سے ہمیں مطالعہ تو کرنا چاہئے اس پر سیاسی جماعتوں کو بیٹھ کر ایک لائحہ عمل سوچنا چاہئے اور خاص طور پر جو مقتدر قوتیں ہیں ان کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا۔