گیڈین ریک مین
سرد جنگ کے عروج پر رونالڈ ریگن نے استدلال کیا کہ اگر دنیا پر خلائی مخلوق نے حملہ کیا تو اقوام عالم کے مابین دشمنی ختم ہوجائے گی۔سابق امریکی صدر کافی پرامید تھے۔آج امریکا اور چین کو کورونا وائرس کی صورت میں مشترکہ خطرے کا سامنا ہے۔ان دو حریف ممالک کو متحد کرنے کی بجائے ایسا لگتا ہے کہ وبائی مرض ان کی مسابقت کو تیز تر کرتا جارہا ہے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چین اس بحران میں کیوں کر ایک موقع گنوا سکتا ہے۔کورونا وائرس نے امریکا کی کمزوریوں کو ہدف بنایا ہے، جبکہ اس کی متعدد طاقتیں عارضی طور پر غیر متعلق ہیں۔دنیا کی سب سے طاقتور فوجی مشین بھی وائرس کے خلاف زیادہ کارآمد نہیں ہے۔لیکن آفاقی صحت کی دیکھ بھال کی کی اہمیت کی کمی اچانک نہ صرف غریبوں بلکہ پورے امریکی معاشرے کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔
چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے وائرس کی ملکی ترسیل کو تقریباََ مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔چین میں نسبتاََ استحکام کو عظیم کساد بازاری اور امریکا میں شدید سیاسی بحران کے خطرے کے ساتھ یکجا کریں، اور یہ واضح طور پر ممکن ہے کہ کووڈ 19 امریکا سے چین چین کو طاقت کی منتقلی کی بڑی تبدیلی لائے گا۔حتیٰ کہ یہ امریکی برتری کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
امریکی معاشی اور سیاسی نظام دونوں ہی لڑکھڑا رہے ہیں۔امریکا میں دس میں سے ایک کارکن تین ہفتوں کے اندر اپنی ملازمت سے محروم ہوگیا ہے۔ریپبلکن اور ڈٰموکریٹس دونوں کو شبہ ہے کہ دوسری جانب والے وبائی مرض کا استعمال صدارتی انتخابات میںیا دھاندلی کیلئے کریں گے۔ماہر معاشیات اور کالم نگار پال کرگمین نے حال ہی میں استدلال کیا کہ خود امریکی جمہوریت خطرے میں ہے۔
دریں اثناء چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے وائرس کی ملکی ترسیل کو تقریباََ مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔چین میں نسبتاََ استحکام کو عظیم کساد بازاری اور امریکا میں شدید سیاسی بحران کے خطرے کے ساتھ یکجا کریں، اور یہ واضح طور پر ممکن ہے کہ کووڈ 19 امریکا سے چین چین کو طاقت کی منتقلی کی بڑی تبدیلی لائے گا۔حتیٰ کہ یہ امریکی برتری کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
امریکی زوال کے بارے میں یہ بحث یقیناََ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔وسیع پیمانے پر بات کی جائے تو یہ استدلال کرتے ہوئے کہامریکی بالادستی کا خاتمہ حقیقی اور ناگزیر ہے،میں قنوطیت پسند کیمپ میں ہوں۔ تاہم ایک ہی وقت میں میں نے دو اہم سوالات کو یاد کرنے کی کوشش کی ہے جو ناجائز حد تک زوال پر حقیقی جائزے کے طور پر کردار ادا کرتا ہے۔
امریکی کرنسی بتدریج دنیا کا اعتماد کھودے گی۔امریکا کے ممتاز سیاستدانوں کی یہ وحشیانہ گفتگو کہ کووڈ 19 کی سزا کے طور پر امریکا کو چین کے زیر ملکیت امریکی قرض کی ادائیگی نہیں کرنا چاہئے،یقیناََ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔لیکن امریکا کو اس حقیقت سے مدد ملتی ہے کہ ڈالر کے تمام متبادل اب بھی بدتر نظر آتے ہیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ دنیا کی کون سی کرنسی پر سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہی؟ دوسرا سوال اپنے ملک سے باہر آپ اپنے بچوں کو یونیورسٹی میں داخل کرنا یا ملازمت کیلئے بھیجنا پسند کریں گے ؟ عالمی متوسط طبقے کی اکثریت کا ان سوالات کا بالترتیب جوابات ڈالر اور امریکا رہے ہیں۔اگر وبائی مرض کے بعد بھی یہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو پھر امریکی بالادستی کووڈ 19 میں بچ جائے گی۔
امریکی طاقت کے یہ دو اقدامات نرالے نظر آسکتے ہیں۔ تاہم ان کی ایک وسیع اہمیت ہے۔
امریکا کی یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کی کشش ،امریکی خیالات اور طریقوں کو عام کرتے ہوئے پوری دنیا سے ٹیلنٹ حاصل کرنے کی ملک کی صلاحیت کا ایک پیمانہ ہیں۔یہ امریکی استحکام اور کشادگی پر ووٹ کے اعتماد کی نمائندگی کرتا ہے۔وہ سیاسی نظریات جو لوگوں کی حمایت کرتے ہیں بعض اوقات اس سے کم اہمیت رکھتے ہیں کہ وہ اس کا انتخاب نہ کریں۔شی نگ پنگ اور اور باراک اوباما میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں صدور کی بیٹیاں ہیں جو ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
اس کے برعکس چین ابھی بھی بہترین چینی اسکالر کے چین میں کام کرنے کے باوجود اپنی جانب راغب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ملک کے ’’تھاؤزنڈ ٹیلنٹ‘‘ پروگرام میں عمدہ تنخواہوں اوت تحقیقی سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے ممتاز ماہرین تعلیم کو راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کچھ ماہر تعلیم جو امریکا سے چین واپس آئے،ملک کے سیاسی ماحول سے مایس ہوگئے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میں انہیں اس سے کہیں زیادہ مداخلت اور دھمکی آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑا۔
یقیناََ ،یہ ممکن ہے کہ وبائی مرض کے بعد امریکا غیرملکیوں کے لئے کم پرکشش جگہ بن جائے۔زینوفوبیا(غیرملکیوں سے نفرت) میں اضافہ،ایک گہری اور دیرپا کساد بازاری،سیاسی آزادیوں کیلئے خطرہ ہے،ان سبھی یا کسی بھی طرح سے امریکا کی رحم دلی کی طاقت کو نقصان پہنچائے گا۔
وہ طاقتور ڈالر کو چھوڑ دے گا۔جب کہ امریکی فوج کے غلبے کو تیزی سے مقابلے کا سامنا ہورہا ہے،ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر ڈالر کا عالمی کردار اور تجارت کے لئے نمایاں کرنسی مسلم ہے۔یہ ایک بہت بڑی سیاسی طاقت کی ترجمانی کرتا ہے۔کسی ملک یا کمپنی کوڈالر کے نظام سے دور رکھنے کے لئے امریکا پابندیوں کا استعمال کرسکتا ہے۔اور،کیونکہ یہ عالمی کرنسی ہے،پابندیوں کے اثرات پوری دنیا پرہوتے ہیں۔ذرا ایران یا روس کی چند سری حکومتوں سے پوچھیں جنہیں امریکا نے نشانہ بنایا ہے۔اگرچہ متعدد غیرملکی طاقتیں ڈالر کی طاقت سے نالاں ہیں لیکن کسی دوسرے ملک کے پاس ایسی کرنسی نہیں جو ایک جیسی قدر کی قیادت کرے۔
تاہم کورونا وائرس کے بارے میں امریکی ردعمل سے دنیا کے ڈالر پر اعتماد کی آزمائش ہوسکتی ہے۔حال ہی میں منظور ہونے والے 2 ٹریلین ڈالر کے محرک پیکیج کامطلب ہے کہ امریکی قومی قرض ،جو ٹرمپ کے دور حکومت میں پہلے ہی تیزی سے بڑھ چکا ہے،اب مزید اضافہ ہوجائے گا۔دریں اثناء فیڈرل ریزرو کی بیلنس شیٹ بھی بڑے پیمانے پر وسیع ہورہی ہے کیونکہ یہ نہ صرف ٹریژری بانڈز بلکہ کارپوریٹ قرض بھی خریدتی ہے۔اگر تیسری دنیا کا کوئی ملک اسیا برتاؤ کررہا ہے تو امریکا کے دانشمند سربراہ کیلئے انتباہ ہوگا کہ بحران قریب ہےْ۔
ایک خطرہ موجود ہے کہ امریکی کرنسی بتدریج دنیا کا اعتماد کھودے گی۔امریکا کے ممتاز سیاستدانوں کی یہ وحشیانہ گفتگو کہ کووڈ 19 کی سزا کے طور پر امریکا کو چین کے زیر ملکیت امریکی قرض کی ادائیگی نہیں کرنا چاہئے،یقیناََ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔لیکن امریکا کو اس حقیقت سے مدد ملتی ہے کہ ڈالر کے تمام متبادل اب بھی بدتر نظر آتے ہیں۔وبائی مرض نے یورو کے نئے بحران کا خدشہ پیدا کیا ہے۔اور چین کا ابھی بھی کرنسی پر کنٹرول کے استعمال نے چینی بچت کرنے والوں کو ملک سے باہر پیسے نکالنے کے مطالبے کے خوف کو روکا ہوا ہے۔ڈالر کے دیگر متبادلات سونا،بٹ کوائن کی اپنی بڑی خامیاں ہیں۔
گرین بیک پر نعرہ ’’خدا پر ہمیں بھروسہ ‘‘ ہے۔دنیا کی ڈالروں واپس بھیجو کیلئے بھوک میں ’’ہمیں امریکا پر اعتماد ہے‘‘ کا پیغام مضمر ہے۔اگر یہ اعتماد کورونا وائرس سے بچ جاتا ہے تو اسی طرح امریکا کی بالادستی رہے گی۔