چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ کے پیسے سے دفتری اُمور نہیں چلائے جا سکتے اور نہ ہی زکوٰۃ کے پیسے سے لوگوں کو جہاز پر سفر کروایا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وفاقی حکومت کا جواب کہاں ہے؟ محکمہ زکوٰۃ نے کوئی معلومات نہیں دیں، محکمہ زکوٰۃ کے جواب میں صرف قانون بتایا گیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کے جواب میں اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ وزارت صحت اور این ڈی ایم اے نے الگ الگ جواب دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت زکوٰۃ فنڈ صوبوں کو دیتی ہے۔ صوبائی حکومتیں زکوٰۃ مستحقین تک نہیں پہنچاتی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ زکوٰۃ فنڈ کا بڑا حصہ تو انتظامی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ بیت المال کا بھی بڑا حصہ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے ، بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی جبکہ تفصیل نہیں دی گئی۔
دوسری جانب جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰۃ جمع کی ، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو زکوٰۃ فنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے۔ زکوٰۃ فنڈ کے آڈٹ سے صوبائی خودمختاری متاثر نہیں ہو گی ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ زکوٰۃ کے پیسے سے ٹی اے ڈی اے پر خرچ نہ ہوں بلکہ اصل لوگوں پر خرچ ہوں۔ 9 ارب 25 کروڑ روپے جمع ہوئے مگر نہیں پتا صوبوں نے کہاں خرچ کیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں؟ ڈی جی بیت المال بھی زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں جبکہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ قرنطینہ کے لیے ہوٹلز کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا ؟ تمام ہوٹلز کو قرنطینہ بنانے کاموقع کیوں نہیں دیا گیا؟
انہوں نے کہا کہ جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے۔ حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حاجی کیمپ کے قرنطینہ سینٹر میں کوئی سہولیات نہیں،اکثر شکایات کررہے ہیں۔
اس کے جواب میں سیکریٹری صحت تنویر قریشی نے کہا کہ حاجی کیمپ کے قرنظینہ سینٹر میں سہولیات موجود ہیں، اس پر چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے سوال کیا کہ کیا آپ خود حاجی کیمپ کے قرنظینہ سینٹر گئے ہیں؟جواب میں انہوں نے کہا کہ میں خود حاجی کیمپ کے قرنظینہ سینٹر نہیں گیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری صحت سے سوال کیا کہ آپ وہاں کیوں نہیں گئے؟اور کہا کہ آپ آج خود وہاں بھی جائیں اور دوسرے قرنطینہ مراکز کا بھی دورہ کریں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں؟ جواب میں سیکریٹری صحت نے کہا اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری میں 16قرنطینہ سینٹرز قائم ہیں۔ ان میںہوٹلز،حاجی کیمپ،او جی ڈی سی ایل بلڈنگ اورپاک چائنا سینٹرشامل ہیں۔
سیکریٹری صحت کے مطابقبیرون ملک سے آئے مسافروں کو 24گھنٹے ان قرنطینہ سنٹرز میں رکھا جاتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ان قرنطینہ سینٹرز میں رکھے جانے کا خرچ کون برداشت کرتا ہے؟
سیکریٹری صحت نے عدالت کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکرینگ سے بچ نکلتے ہیں، مردان میں ایک شخص نے دو پیناڈول کھائی اوروہ اسکرین سے بچ نکلا۔ اس پر سیکریٹری صحت نے کہا کہ اسی لیے اب 24گھنٹے قرنطینہ میں رکھ رہے ہیں۔
دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ کیا پلازمہ انفیوژن سے واقعی کورونا کاعلاج ممکن ہے؟ سیکریٹری صحت نے جواب دیا کہ پلازمہ انفیوژن ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے، ابھی تک پلازمہ انفیوژن کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے،ٹیسٹنگ ہو رہی ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ قرنطینہ مراکز کی چھت کس مٹیریل سے بنائی جا رہی ہیں؟ جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں چھتیں فائبر سے بنائی جا رہی ہیں۔ ان مراکز میں موسم کو کیسے کنٹرول کریں گے؟ جوا ب میں انہوں نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں پنکھے اور دیگر آلات فراہم کیے جائیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنے مزید کہا کہ مراکز کی تعمیر کی ذمہ داری این ڈی ایم اے کی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے جو سوال کیا جا رہا ہے آپ اس کا جواب نہیں دے رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ورلڈ بینک سے پیسا آتا ہے اور سامان باہر سے منگوا لیا جاتا ہے تو پیسا تو باہر ہی رہا۔
انہوں نے کہا کہ اس کا فائدہ کیا ہوا؟ سامان ملک میں کیوں نہیں بنایا جا رہا؟
دوسری جانبجسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمارے پاس اسکول اور کالج کی عمارتیں موجود ہیں ان کو استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا؟
ان عمارتوں میں پنکھے، بجلی اور دیگر سہولیات بھی موجود ہیں۔ بجائے ہوٹل کرائے پر لیے جائیں ان عمارتوں کا استعمال کیوں نہیں ہو رہا؟
جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اچھا نقطہ ہے اس پر حکومت کو غور کرنے کے لیے کہوں گا۔
چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ سنا ہےآپ نے زائد المعیاد آٹا اور چینی بانٹی؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، پتہ نہیں ایسی باتیں کون پھیلاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایاہے کہ تقسیم کی گئیں اشیاء یوٹیلٹی اسٹورز سے خریدی ہیں۔
دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ این 95 کے ماسک 425 جبکہ سرجیکل ماسک27 روپے میں مل رہا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کر رہا ہے؟ سیکرٹری صحت سندھ نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ مردان کی یو سی منگاہ میں کیا صورتحال ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے جواب میں کہا کہ یوسی منگاہ کو کھول دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ طورخم بارڈر سے آنے والوں کو کیسے اور کہاں رکھا جائے گا؟
ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ طورخم بارڈر پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس آنے دیا جائے گا۔
ایڈوکیٹ جنرل کے پی نے مزید کہا کہ اب تک اڑھائی ہزار افراد واپس آئے ہیں، طورخم سے آنے والوں کو قرنطینہ کیا جاتا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان کا کہنا ہے کہ چمن اور تفتان بارڈر پر قرنطینہ مراکز قائم کردیے گئے ہیں۔ قلعہ عبداللہ میں 800 افراد کے لیے ٹینٹ سٹی قائم کردیا ہے۔ انہوں نےکہا کہ بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں بھی شفافی کا مسئلہ ہے۔ صرف راشن دے رہے ہیں، کسی کو نقد امداد نہیں دی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے21 ہزاراور این جی اوز نے 26 ہزارخاندانوں کو راشن دیا۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کر دیا۔ تحریری فیصلے میں چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے زکوٰۃ اور بیت المال کے پیسے سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل اور مفتی تقی عثمانی سے شرعی رائے طلب کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے زکوٰۃ اور بیت المال کے پیسے سے ادارے کی تنخواہیں دی جاسکتی ہیں یا نہیں؟ زکوٰۃ اورصدقے کی رقم سے ادارے کے دیگر اخراجات بھی چلائے جاسکتے ہیں یا نہیں؟