میر شکیل پر طاقت حاوی ہے اور یاد رکھیں طاقت تبھی استعمال ہوتی ہے جب دلیلیں ختم ہو جاتی ہیں، جب انسان کا غرور اُس کی عقل پر حاوی ہو جاتا ہے، جب طاقت استعمال کرنے والا وقتی طور پر بھول جاتا ہے کہ وہ بھی ایک انسان ہے اور اُسی خدا کو جوابدہ ہے جس کے بندے پر وہ طاقت استعمال کررہا ہے ۔
میر شکیل نہ صرف جھوٹے مقدمے میں گرفتار ہوئے بلکہ جھوٹے الزامات کا مسلسل سامنا کرتے رہے ہیں۔ ایک بڑا جھوٹا الزام میر شکیل پر غداری کا لگتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ وطن دشمن ہیں اور پاکستان کو کھوکھلا کرنے کے مشن پر ہیں مگرجب الزام کی سچائی ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت مانگا جاتا ہے تو کوئی جواب نہیں آتا۔
ظاہر ہے اگر الزام سچا ہوتا تو کیا میر شکیل کو اس مضحکہ خیز اور جھوٹے کیس میں پھنسایا جاتا؟ سیدھا سیدھا غداری کیس میں گرفتار کیا جاتا اورعوام کے سامنے سب ثبوت رکھ دیے جاتے۔ نہ بلاول بھٹو نے آواز اٹھانا تھی نہ شہباز شریف نے احتجاج کرنا تھا۔
نہ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے اُن کے گُن گانا تھے اور نہ پرویز مشرف نے میر ابراہیم کو اپنا بیٹا کہنا تھا اور نہ ہی میر شکیل کی گرفتاری پر ملک کے جید علماکرام، قانون دانوں، کاروباری شخصیات، طلبہ یہاں تک کے حکومت کے کچھ وزیروں نے احتجاجی صدا بلند کرنا تھی مگر سچ اس کے اُلٹ ہے اور یہ سارے قابلِ احترام لوگ یہ جانتے ہیں۔
ذرا سوچیں! پچھلے پندرہ سال سے غداری کا الزام سہنے والا میر شکیل اُس باپ کا بیٹا ہے جو تحریکِ پاکستان میں صفِ اول کا سپاہی تھا اور جس کے اخبار نے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو ایک حوصلہ اور ولولہ دیا تھا، وہ جب انگریز سرکار کے جھوٹ سے پردہ اُٹھاتا تھا تو اُسے غدار کہا جاتا تھا اور دو دفعہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا مگر وہ رُکا نہیں اور آج اُس کی اولاد اور ادارے کو غدار کہا جارہا ہے، بناثبوت لڑی جانے والی یہ لڑائی دونوں طرف بس اختلاف ہی کو جنم دے گی اور ایک ایسے ادارے کی تباہی کا سبب بنے گی جس سے ہزاروں لوگوں کا رزق وابستہ ہے۔
آپ میر شکیل کی 2008ء میں دہلی میں بھارت کی سب سے بڑی کانفرنس FICCIمیں کی جانے والی تقریر دیکھ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ میر شکیل نے کس طرح پاکستان کا مقدمہ لڑا اور وہاں بھارتی حکمرانوں کے درمیان بیٹھ کر اُنھیں آئینہ دکھایا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ میر شکیل کی اپنی جنگ ہے، اس کا آزادیٔ صحافت سے کوئی تعلق نہیں، یہ ذاتی نوعیت کا مقدمہ ہے۔ چلیں اس کا بھی جواب سُن لیں۔ کیا آپ کوئی دوسرا ایسا ادارہ بتا سکتے ہیں کہ جس کو بار بار انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہو، چینل کو کیبل پر بند کرا دیا جاتا ہو یا اشتہار اتروا لیے جاتے ہوں۔
ذرا سوچیں! اگر بات کاروبار کی ہوتی تو میر شکیل کے لیے سودے بازی کتنی آسان ہوتی کیونکہ اُن کا چینل اور اخبار دونوں ہی نمبر ون ہیں اور موجودہ حکومت کو تو سامنا ہی میڈیا پر اچھا تاثر نہ ہونے کا ہے۔ دوسرے چینلز کی بات پر لوگ بڑی مشکل سے یقین کرتے ہیں اور جیو جھوٹ دکھاتا نہیں تو بس اب سمجھ جائیں کہ اس گرفتاری کی وجہ کیا ہے۔
بات صرف یہ ہے کہ سچ کو نہ چھپانے کی پالیسی کی وجہ سے میر شکیل ہمیشہ ہر حکومت کی نظر میں کھٹکتے ہیں۔ کیا آپ بھول گئے کہ کیسے راتوں رات رحمٰن ملک جب وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے جیو نیوز پورے پاکستان میں بند کرا دیا تھا جس پر شیری رحمٰن نے وزارت چھوڑ دی تھی۔
کس طرح نواز شریف کے دستِ راست خواجہ آصف نے عدالت میں جیو کے خلاف مقدمہ کیا تھا اور کس طرح عمران خان نے، جب وہ اپوزیشن میں تھے، جیو کو اپنی سب سے طاقتور آواز قرار دیا تھا مگر اب جب عمران خان حکومت میں ہیں تو اُن کی نظر میں جیو ملک دشمن اور خواجہ آصف اور رحمٰن ملک اپوزیشن میں ہیں تو ان کے لیے جیو مظلوم ہے۔
پاکستانی عوام کو اس اندازِ سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی حاکم ِ وقت نے جنگ گروپ سے محبت نہیں کی مگر جب جب وہ اپوزیشن میں آیا جنگ گروپ اُس کا ہیرو بنا۔
اس گروپ پر ایک بڑا الزام تنخواہیں نہ دینے کا ہے۔ گزشتہ ایک دو سال سے یہ معاملہ شدید ہوا ہے اوراُس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ گروپ کو بدترین مالی بحران کا سامنا ہے۔ کروڑوں روپے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے دینا ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں۔
ان حالات میں اگر قارون کا خزانہ بھی ہو تو شاید ختم ہو جائے۔ مگر یہ وہی جنگ گروپ ہے اور وہی میر شکیل جو راہ چلتے صحافی کو بھی نوکری دے دیتے تھے۔ میر شکیل نے ہر ضرورت مند کا خیال رکھا چاہے تنخواہ کا معاملہ ہو یا دیگر فلاح و بہبود، اُن کے ادارے نے اپنے لوگوں کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دی۔
سوچیں جو شخص ایک عشرے سے سینکڑوں کارکنوں کو گھر بیٹھے تنخواہ دے رہا ہو وہ اگر اب ایسا نہیں کر پا رہا تو کتنا مالی طور پر پریشان ہوگا۔ اور جو مایوس ہیں اُن سے یہی کہوں گا کہ آواز اٹھائیں کہ جنگ اور جیو کے بقایا جات فوری ادا کیے جائیں کیونکہ اگر جنگ کو ملیں گے تو اس کا مطلب ہے آپ کو بھی ملیں گے۔
سوچیں اور خوب سوچیں تاکہ آپ پر سچ اور جھوٹ واضح ہو۔ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں الزام تراشی سب سے آسان کام ہے، میری ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ ہر طرف سے بند کمرے میں یہ جو ایک دراڑ سے تھوڑی سی ہوا آرہی ہے، اسے آنے دیں، روکیں نہیں۔ ورنہ ہم سب کا دم گھٹ جائے گا اور پھر تھوڑا بہت سانس لیتے اس معاشرے کی موت ہوجائے گی۔