مرحوم پیر صاحب پگارو ہر سال مارچ آنے سے قبل یہ نوید دیا کرتے تھے کہ اس سال مارچ میں ڈبل مارچ ہوگا اور لوگ اس ڈبل مارچ کے منتظر رہتے لیکن اس سال مارچ صحافی برادری کے لئے واقعتاً ڈبل مارچ ثابت ہوا کہ ایک، دو نہیںسات بڑے اور نامور صحافی اس طرح رخصت ہوئے کہ چند ایک کی تو ایک سطری خبر ہی شائع ہوئی جبکہ اپنے دور میں یہ سب کسی محتاج تعارف نہیں تھے۔ کئی ایسے تھے جو اپنی’’بیٹ‘‘ میں سند کی حیثیت رکھتے تھے۔
بزرگ ساتھی ڈاکٹر انور سدیدتو مصنف ہی نہیں نامور اداریہ نویس اور ادبی حلقوں میں بڑے مقبول و معروف تھے۔ شکر ہے کہ اخبارات اور صحافیوں نے انہیں فراموش نہیں کیا۔ وہ اس دور کے بزرگ ادیب تھے جب ادب میں گروپ بندی ہوا کرتی تھی اور لوگ اس سے فیض یاب ہوتے تھے لیکن اس طرح کہ’’احترام و محبت‘‘ بھی برقرار رہتا ہے۔ مخالفت کو کبھی ایک دوسرے کی کردار کشی میں تبدیل نہیں کیا گیا۔ انور سدید صاحب دانشور، ادیب، ڈاکٹر وزیر آغار گروپ کا اہم ترین ستون تھے جنہوں نے لیجنڈ شاعر، ادیب و کالم نگار جناب احمد ندیم قاسمی کے خلاف ’’ادبی محاذ‘‘ قائم کر رکھا تھا۔ ایک بار ادیب ،شاعراظہر جاوید مرحوم نے جناب قاسمی صاحب مرحوم پر یہ الزام عائد کردیا کہ انہیں ایوان صدر سے نوازا گیا ہے اور مجھ ناچیز کو بھی بلا وجہ ملوث کردیا۔ اظہر جاوید نے اپنے رسالہ میں مضمون لکھا اس میں مجھے’’موقع کا گواہ ‘‘ قرار دے دیا۔ انور سدید گروپ نے اس مسئلے کو سر پر اٹھا لیا۔ کئی اخبارات میں اس پر بحث شروع ہوگئی۔ جناب قاسمی صاحب نے ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا جس میں مجھے بھی کئی بار عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ اب جبکہ مجھے اس سارے قصہ کا کوئی علم نہ تھا، گناہ صرف اتنا تھا کہ ہمارے اخبار کی معرفت ایوان صدر سے ایک سربمہرمراسلہ احمد ندیم قاسمی کے نام موصول ہوا اور میں نے اپنے گھر (اقبال ٹائون( جاتے ہوئے ندیم شہید روڈ پر یہ مراسلہ قاسمی صاحب کے گھر پہنچایا تھا۔برادرم تنویر ظہور جو اس وقت جنگ لاہور کے ادبی صفحہ سے متعلق تھے ،میرا نام بھی لے لیا، بعد میں انہوں نے بھی میرے ساتھ قاسمی صاحب کے حق میں ہی شہادت دی اور سید سرفرازشاہ بھی ہمارے ہمنوا بن گئے۔ سرفراز شاہ صاحب میرے دیرینہ دوست، پڑوسی اور اچھے شاعر ہیں۔بہرکیف آخری عمر میں انور سدید صاحب عملی صحافت سے ریٹائر ہوگئے تھے، تاہم اپنے اخبار سے رشتہ برقرار رکھا تھا۔ بڑے ہی محبت کرنے والے شفیق بزرگ تھے۔ بچھڑ جانے والے دیگر صحافیوں میں پرویز حمید، ایوب قریشی، زاہد علی خان، اشتیاق احمد، اطہر عارف اور اسد نیئر بھٹی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ زاہد علی خان گزشتہ روز معمولی علالت کے بعد چلے گئے۔ یہ اپنے دور میں انتہائی ثقہ بند کرائم رپورٹر تھے۔ کئی بڑے اور چھوٹے اخبارات سے منسلک رہے، انہیں صحافی برادری میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ اشتیاق احمد سرکاری نیوز ایجنسی سے منسلک تھے، وہ صنعت و تجارت کے حلقوں میں بڑے مقبول تھے اور کامرس رپورٹنگ میں ملکہ حاصل تھا۔ محبت کرنے والے شخص تھے۔ میرا ان سے بڑا پیار تھا۔ وہ اکثر مجھے صنعتکاروں کی دعوتوں میں اصرار کرکے لے جایا کرتے تھے۔ پرویز حمید تو حقیقی بھائیوں کی طرح تھا۔ مدتوں میں نے اس کے ساتھ ایک ہی اخبار میں کام کیا۔ وہ بہت اچھا سب ا یڈیٹر تو تھا ہی ایڈیٹوریل بھی ان کا کمال تھا۔ بہت سے کالم مضامین لکھے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ بڑی ہی خوبیوں کا مالک تھا اور ایسا شخص تھا کہ ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک رہتا۔ ایوب قریشی سے ’’یارانہ‘‘ کی حد تک تعلقات تھے۔ مختلف اخبارات اور رسائل سے منسلک رہے۔ ان کی بڑی صاحبزادی نے سی ا یس ایس کیا تو بڑے خوش تھے۔ یہ ان کی زندگی کے آخری دن تھے، مجھے فون کیا اور بیٹی کی کامیابی کی نوید سنائی ۔ میں نے کہا میں مبارکباد دینے آئوں گا کیونکہ میں نے اس بیٹی کو گودمیں کھلایا تھا لیکن وقت نے مہلت نہ دی اور ایوب قریشی زندگی کے لق و دق صحرا میں چھوڑ کر دنیا سے اٹھ گیا۔اطہر عارف دوست نواز، محبت کرنے والا صحافی تھا۔ روزنامہ جنگ میں بھی سب ایڈیٹر رہا، اکثر بیمار رہتا تھا اور اسد منیر بھٹی تو سب کا ہی دوست تھا، ایک اخبار کا ایڈیٹر، صحافتی حلقوں میں بڑا ہی محترک ہوا کرتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی کی چہیتی بیٹی روح بانو کا وصال ستمبر میں ہوا تھا تو قبلہ خواجہ صاحب نے اپنے مشہور زمانہ رسالہ ’’منادی‘‘ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے ستمبر کو ’’ستمگر‘‘ قرار دیا اور اب مارچ ہمارے لئے ستمگر بن کر آیا ہے کہ اس مہینہ میں سات اچھے صحافی اور دوست ہم سے بچھڑ گئے۔ بلاشبہ سب نے و اپس اپنے رب کی جانب جانا ہے۔ وہ چلے گئے اور ہم تیار بیٹھے ہیں، رہے نام اللہ کا!!