• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جنوبی پنجاب: راشن تقسیم کرنیکی بڑی سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں

مخدوم شاہ محمود قریشی کو اس وقت خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے سرکٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سندھ کا نام لئے بغیر یہ کہا کہ احساس پروگرام بہت شفاف طریقہ سے جاری ہے سوائے ایک صوبہ کے جہاں کٹوتیوں اور خواتین سے فراڈ کے واقعات سامنے آئے ہیں، ابھی وہ جملہ مکمل ہی کر پائے تھے کہ ساتھ بیٹھے ہوئے ڈپٹی کمشنر ملتان عامر خٹک نے یہ لقمہ دیا کہ سر ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس پر ہم نے ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کرادیا ہے یہ سن کر وہاں موجود صحافیوں کے چہرے پر جہاں معنی خیز مسکراہٹ آئی ،وہاں شاہ محمود قریشی کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات رو نما ہوئے ،انہوں نے خشمگین نظروں سے ڈپٹی کمشنر ملتان کی طرف دیکھا ،شاہ محمود قریشی ملتان کے دورے پر اس لیے آئے کہ یہاں حکومت کی طرف سے دی جانے والی امداد اور طبی سہولتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکیں۔ 

انہوں نے وزارت خارجہ کی طرف سے نشتر ہسپتال کے ڈاکٹروں وطبی عملہ کے لئے کورونا سے بچاؤ کا حفاظتی سامان بھی نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا اور پی ایم اے ملتان کے صدر پروفیسر ڈاکٹر مسعود الرؤف ہراج کے حوالے کیا انہوں نے کہا کہ کورونا کے حوالے سے ملتان ملک کا سب سے اہم شہر ہے ۔ملتان میں ملک کا سب سے بڑا قرنطینہ مرکز بنا،جب کوئی کورونا سے مشتبہ لوگوں کو قبول کرنے تو تیار نہیں تھا تو ملتان نے ویلکم کیا۔ لیکن ملتان میں جس چیز کی سب سے زیادہ کمی محسوس کی جارہی ہے وہ یہاں تشخیصی لیبارٹری کا نہ ہونا ہے ملک میں اس حوالے سے پانچ جدید لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں۔ 

مگر حیران کن امر یہ ہے کہ ملتان میں ایسی لیبارٹری قائم نہیں کی گئی حالانکہ یہ جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور مرکزی شہر ہے اور یہاں نشترہسپتال ہے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد جاکر نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کی میٹنگ میں یہ مسئلہ رکھیں گے اور ذاتی طور پر بھی وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں گے، کیونکہ نشتر ہسپتال میں مناسب حفاظتی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہاں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد کورونا کے وائرس سے متاثر ہوئی ، جس کی وجہ سے سے ہسپتال میں کام کرنے والے طبی عملہ میں خاصہ خوف ہراس موجود ہے، وہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے بھی بات کریں گے اور انہیں یہ کہیں گے کہ وہ وزیر صحت اور سیکرٹری صحت کو ملتان کے دورے پر بھیجیں، تاکہ وہ نشتر ہسپتال کے حالات کا جائزہ لے کر یہاں درکار حفاظتی سامان اور دیگر ضروریات کو پورا کرسکیں۔

ان کی ان باتوں پر ملتان کے سیاسی حلقوں میں حیرت کا اظہار کیا گیاکہ اس صورتحال کو پیدا ہوئے تین ماہ کے قریب عرصہ بیت گیا ہے اور لاک ڈاؤن کو ہوئے بھی ایک ماہ کے قریب ہو چکا ہے، مگر شاہ محمود قریشی کو اب خیال آیا ہے کہ وہ اس گھمبیر صورتحال کا جائزہ لے کرکوآرڈی نیشن کمیٹی کو اس مسئلہ سے آگاہ کریں ،حالانکہ یہ کام تو انہیں بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا اگر وہ ابتدا میں ہی اس طرف توجہ دیتے توانہیں یہ شکوہ نہ کرنا پڑتا کہ پاکستان میں پانچ لیبارٹریاں قائم کی گئیں اور ملتان کو ایک بھی نہیں دی گئی ،سیاسی مبصرین کے مطابق شاہ محمود قریشی پر اس مشکل صورتحال میں ملتان سے غائب رہنے کے باعث جو شدید تنقید ہوئی، اس کا ازالہ کرنے کے لیے وہ اپنی گاڑی میں خود حفاظتی سامان لے کر آئے۔

تاہم نشترہسپتال جانے کی بجائےانہوں نے سرکٹ ہاؤس میں نشترکے وائس چانسلر اور صدر پی ایم اے کو بلاکر سامان ان کے حوالے کیا ،یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شاہ محمود قریشی احساس پروگرام کا ذکر تو کرتے رہے جو کہ ایک سرکاری امداد ہے لیکن انہوں نے اپنے طرف سے اپنے حلقے کے غریبوں ،دیہاڑی دار مزدوروں اور مستحقین میں امدادی سامان تقسیم کرنے کی کوئی روایت نہیں ڈالی ، حالانکہ ان کے حلقہ میں صوبائی سیٹ پر مدمقابل معزول ایم پی اے سلمان نعیم نے ہزاروں گھروں میں راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔ 

راشن تقسیم کرنے کی بات چلی ہے تو بالآخر قومی اسمبلی میں چیف وہہپ و رکن اسمبلی ملک عامر ڈوگر نے تقریبا سات ہزار گھروں میں راشن تقسیم کرنے کا آغاز کردیا ہےیاد رہے کہ شاہ محمود قریشی اور ملک عامرڈوگر کے خلاف ان کے حلقوں میں لوگوں نے بینر لگا دیئے تھے کہ انہیں اگر اس مشکل گھڑی میں امداد کی ضرورت ہے تو وہ اپنے ووٹرز سے رجوع کریں ، ان بینرز کی وجہ سے جہاں پی ٹی آئی کے ان دونوں  اہم رہنماؤں پر دباؤ بڑھا ، وہیں انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ سب کچھ سیاسی مخالفین کا کیا دھرا ہے حالانکہ وہ پہلے سے عوام کی امداد کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے مسلم لیگ ن میں بھی تھوڑی بہت تحریک پیدا ہوئی ہے اور شہباز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ ن کے رہنما ؤں نے نشتر اور دیگر اسپتالوں کے طبی عملہ میں حفاظتی سامان پہنچانا شروع کیا ہے۔

تاہم مستحقین میں راشن تقسیم کرنے کی بابت ابھی ان کی کوئی بڑی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ادھر وزیراعلی عثمان بزدارنے تحریک انصاف کے تمام اراکین اسمبلی کو یہ مراسلہ جاری کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں بھرپور امدادی سرگرمیاں شروع کردیں  اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے علاقوں میں موجود ہسپتالوں کے دورے کریں وہاں مہیا کی گئی سہولیات کا جائزہ لیں ، اگر کمی ہے تو اس کے بارے میں پنجاب حکومت کو مطلع کریں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعلی کا یہ مراسلہ ارکان اسمبلی کے تن مردہ میں جان ڈال دے گا ؟ کیا وہ اپنے خود ساختہ قرنطینہ سے باہر آکر اپنے حلقہ کے غریبوں، بےروزگاروں ،مستحقین کی امداد کریں گے؟ فی الوقت تو صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی منظر سے بالکل غائب نظر آتے ہیں کبھی کبھار ان کا کوئی بیان ضرور سامنے آجاتاہے کہ عمران خان غریبوں کے لئےتاریخی پیکج کا اعلان کیا ہے لیکن وہ خود کہاں ہیں اس کا کچھ اتا پتہ نہیں ۔اکثر ارکان اسمبلی کے گھروں کے باہر غریب و مستحق افراد ڈیرے ڈالے نظر آتے ہیں لیکن صاحب بہادر ان سے ملاقات تک گوارا نہیں کرتے ،حالانکہ یہی لوگ ہیں جن کے پاس انتخابات کے دنوں میں یہ ارکان اسمبلی خود چل کر آتے ہیں اور ان کی ہر خواہش کو پورا کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین